جنوبی ایشیا اور باہمی تجارت

لیاقت علی

جنوبی ایشیا میں دنیا کی تقریباایک چوتھائی آبادی رہتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے بعض علاقوں کا شمار دنیا کے انتہائی سرعت سے نشوو نما کرتے ہوئے خطوں میں کیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی دنیا میں اپنا مقام بنانے کی خواہاں ہے۔ نوجوان ترقی اور خوش حالی چاہتے ہیں۔ لیکن اسے بد قسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ انسانی اور قدرتی وسائل کے باوجود جنوبی ایشیا زیادہ تر پسماندگی اور غربت کے نیچے پس رہا ہے۔

جنوبی ایشیا کے ممالک پوری دنیا سے جڑنے کی خواہش اور کوشش تو کرتے ہیں لیکن ان کی باہمی جڑت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ورلڈ بنک کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک کی باہمی تجارت ان کی کل تجارت کا محض 5 فی صد ہے جب کہ آسیان ممالک کی باہمی تجارت ان کے کل تجارتی حجم کا 25 فی صد ہے۔جنوبی ایشیا کے معاشی ماہرین اور سیاست دان کس قدر ذہنی اور فکری پسماندگی کا شکار ہیں اس کا اندازہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کے مسئلےکے پس منظر میں کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان افغانستان کو ٹرانزٹ روٹ کی سہولت فراہم کرنے کا پابند ہے۔ اس سہولت کے تحت افغانستان اپنی اشیا بھارت کو برآمد کرسکتا ہے لیکن بھارت اپنی اشیا افغانستان کو برآمد کرنے کے لئے ٹرانزٹ ٹریڈ کی یہ سہولت استعمال نہیں کرسکتا۔ اس مقصد کے لئے بھارت کو پاکستان کی بندر گاہوں کو استعمال کرنا ہوگا یعنی وہ واہگہ کا زمینی راستہ استعمال نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی اس امتیازی پالیسی کی بنا پر افغانستان اور بھارت کے مابین تجارت عدم توازن کا شکار ہے۔

کابل کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی بھارت کو برآمدات میں 227 فی صد اضافہ ہواہے۔ 2011 میں یہ تجارت 70 ملین ڈالرز تھی جو 2016 میں بڑھ کر 230 ملین ڈالرز ہوگئی۔لیکن اسی دورانیہ میں بھارت سے افغانستان کی درآمدات میں صرف 47 فی صد اضافہ ہوا۔ 2011 میں یہ درآمدات 103 ملین ڈالرز تھیں جو 2016 میں 152 ملین ڈالرز ہوگئیں۔

اسی دوران افغانستان کی پاکستان کوبرآمدات میں 57 فی صد اضافہ ہوا۔2011 میں یہ برآمدات 180 ملین ڈالرز تھیں جو 2016 میں 283 ملین ڈالرز ہوگئیں جب کہ پاکستان سے درآمدات میں 37 فی ؔصد اٖضافہ ہوا۔2011 میں یہ 877 ملین ڈالرز تھین جو 2016 میں بڑھ کر1.2 بلین ڈالرز ہوگئیں۔
بھارت سے افغانستان کی درآمدات پر پابندیوں کا مطلب ہے کہ بھارت کو برآمدات کرنے والے ٹرک واپس خالی واپس جائیں جس سے بھارت کو برآمدات کرنے والے سرمایہ کاروں کے بار برداری کے اخراجات میں خود بخود اضافہ ہو جاتا ہے۔یہ پابندیاں افغانستان کے لیے بھارتی اشیا کومہنگا کردیتی ہیں۔ چنانچہ یہ پابندیاں افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات ابھارنے کا باعث بنتی ہیں۔

افغانستان کی بھارت سے تجارت پر ناروا پابندیوں کے رد عمل کے طور پر افغانستان نے بھی پاکستانی اشیا کے لدے ہوئے ٹرکوں کا افغانستان میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔ افغانستان کی حکومت کا موقف ہے کہ جب بھارت کے ٹرکوں کو طورخم تک آنے کی اجازت نہیں دیتا اس وقت تک افغانستان بھی پاکستانی ٹرکوں کو طورخم سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

پاکستان کی طرف سے افغانستان اور بھارت کے مابین پاکستان کی طرف سے عائد پابندیوں کی بنا پر افغانستان اور بھارت نے ایک ائیر کاریڈور بنایا ہے۔اس منصوبے کے تحت بھارت نے ایران کے بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے افغانستان کو گندم کی پہلی کھیپ ارسال کی ہے۔ چاہ بہار کی بدولت افغانستان، بھارت اور ایران کے مابین تجارتی تعلقات مضبوط ہونے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ گئےہیں۔ ان تجارتی تعلقات کا ممکنہ نتیجہ پاکستان کی تجارتی تنہائی کی صورت نکل سکتا ہے۔

یہ بتانا ضروری ہے کہ افغانستان اور ایران کے تجارتی تعلقات بڑی تیزی بڑھ رہے ہیں۔ ان تجارتی تعلقات میں 118گنا اضافہ ہوا ہے۔افغانستان اور ایران کے مابین تجارت 581 ملین ڈالرز سے بڑھ کر1.3 بلین ڈالرز ہوچکی ہے۔ بھارت کو افغانستان تک تجارتی سہولت فراہم نہ کرکے پاکستان سی پیک کے حوالے سے بھی رسک لے رہا ہے ۔ پاکستان سی پیک کے تحت وسطی ایشیا تک افغانستان کے بغیر رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔

افغانستان کا موقف ہے کہ جب تک بھارت کو افغانستان سے تجارت کے لئے زمینی راہداری فراہم نہیں کرے گا افغانستان پاکستان کو وسطی ایشیا تک زمینی راہداری نہیں دے گا۔ اگر افغانستان اور پاکستان کے مابین بھارت کو زمینی تجارت کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی تو پاکستان کے چین کو ری پیمنٹ میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

پاکستان کی اشرافیہ ایران کی بندر گاہ چاہ بہار کو گوادر کا حریف سمجھتی ہے جب کہ چین ایسا نہیں سمجھتا۔ چینی حکام کا یہ موقف ریکارڈ پر ہے کہ وہ ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ میں ایران کو اہم فریق اور سٹیک ہولڈر سمجھتے ہیں۔ اگر پاکستان اور افغانستان کے مابین بھارت کو تجارتی راہداری دینے کے مسئلے پر سمجھوتہ نہ ہوا اور چاہ بہار کے ذریعے تجارت کے حجم میں اضافہ ہوتا رہا تو چین کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا کہ وہ بھی گوادر کے ساتھ ساتھ چاہ بہار بندر گاہ کو بھی ون بیلٹ ون روڈ کے پراجیکٹ کے لئے استعمال کرنے پر غور کرے۔

پاکستانی حکام کہہ سکتے ہیں کہ پاک چین دوستی سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہے لیکن انھیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ بھارت چین کا سب سے بڑا تجارتی شریک کار ہے۔چین اوربھارت کے باہمی تجارت کس قدر مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند ماہ قبل جب چین اور بھارت کی افواج سرحدوں پر آمنے سامنے تھیں۔ اس وقت بھی دونوں ممالک کے مابین تجارت میں کوئی رخنہ نہیں پڑا تھا۔

Comments are closed.