مزاحمت کا ایک اور باب ختم ہوگیا

ولی محمد علیزئی

جب جب ظلم فرعونیت کی حد چھونے لگتا ہے تو ظالموں کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں مزاحمت کی شکل میں موسٰی کاظہور ہوتا ہے۔یہ مزاحمت ہر طرح کی کٹھن حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرکے مظلوموں کو انصاف دلا کر رہتا ہے۔ایسی ہی ایک مزاحمت کا نام عاصمہ جہانگیر تھا جس نے ہر ظالم،جابر اور آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مظلوموں،اقلیتوں اور پسے ہوئے طبقوں کا ساتھ دیا۔

اس مزاحمتی باب کا آغاز عاصمہ جیلانی بنام وفاق پاکستان کیس سے ہوا۔ 1971 میں جب ایک ڈکٹیٹر یحییٰ خان نے ملک غلام جیلانی کو پابند سلاسل کیا تو اس کی اٹھارہ سالہ بیٹی آمر کے خلاف میدان میں کود پڑی۔بڑے بڑے توانا آواز اس آمر کے سامنے خاموش ہوئے لیکن عاصمہ نے اپنے والد کی نظر بندی غیرآئینی اور یحییٰ خان کو عدالت سے غاصب ڈکلیئر کروا کر دم لیا۔

پانچ جولائی 1977 کو جب ضیاالحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کردیا اور مختلف مذہبی آرڈیننسوں کے ذریعے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے کا آغاز کیا۔ضیاء کے ان غاصبانہ اقدامات کے خلاف اس آئرن لیڈی نے خواتین کا پہلا جلوس نکالا اور پولیس کی مار کھائی۔

ضیاء ہی کے مارشل لاء میں ہیومین رائٹس کمیشن کی بنیاد رکھی۔1983 میں مارشل لاء کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں چلنے والی تحریک ایم آر ڈی کا حصہ بنی جس کے نتیجے میں گھر میں نظر بند کردی گئی۔طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بعد بھی جب یہ توانا مزاحمتی اواز خاموش نہ ہوئی تو مارشل لائی مجلسٍ شوریٰ نے عاصمہ جہانگیر کے خلاف توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگایا۔لیکن ضیاء ہی کے تحقیقاتی کمیشن نے اس سے بیگناہ قرار دیا۔

ہر دور میں بلا خوف و خطر عاصمہ جہانگیر نے ہر اس اقدام کے خلاف مزاحمت کی جو خواتین،اقلیتوں یا محکوم اقوام کے حقوق کے منافی تھا۔حتیٰ 2005 میں لاہور میں پہلی خواتین مراتھن ریس پر لاٹھی چارج کے بعد پولیس کے جانب سے کپڑے پھاڑنے کے باوجود بھی اس عظیم عورت کے ارادے متزلزل نہ ہوئے۔

پرویز مشرف کے آمریت کے دوران بڑے بڑے سورما خاموش ہوگئے یا اس کی چھتری تلے چلے گئے لیکن عاصمہ جہانگیر ہمیشہ آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں آواز اٹھاتی رہیں۔جب عدلیہ بحالی تحریک کا آغاز ہوا تو عاصمہ جہانگیر نے صف اول کا کردار نبھایا۔عاصمہ جہانگیر ان کیلئے بھی آواز اٹھاتی رہی جو ماضی میں ان کو اسلام دشمن اور پاکستان دشمن لکھتے یا متعصب عورت قرار دیتے رہے تھے۔

عاصمہ جہانگیر زندگی بھر اپنے اصولوں پر کاربند رہی اور حکومتی منصب کو ٹھکراتی رہیں۔عاصمہ جہانگیر پر ہر وہ الزام لگا جو ہمیشہ سچے لوگوں پر لگائے جاتے ہیں۔اس پر اسلام دشمن،پاکستان دشمن،غدار،ایجنٹ،قادیانی اور نہ جانے کیا کیا الزامات لگے لیکن اس آئرن لیڈی نے مردانہ وار مزاحمت کرتے ہوئے ہمیشہ جمہوریت،خواتین کے حقوق،اقلیتوں کیساتھ امتیازی سلوک اور محکوم اقوام کی مظلومیت کی بات کی۔

عاصمہ جہانگیر کی رحلت سے نہ صرف ایک عظیم مزاحمتی باب کا خاتمہ ہوا بلکہ محکوم اقوام پشتون،بلوچ،سندھی اور سرائیکی یتیم ہو گئے۔وہ پشتون جو اپنی مصیبتوں کی جڑ پنجابی اسٹبلشمنٹ کو سمجھتے ہیں لیکن عاصمہ جہانگیر کی موت پر سوگوار ہیں۔وہ بلوچ جو پنجاب سے علیحدگی چاہتے ہیں لیکن عاصمہ جہانگیر کی موت کو ایک عظیم سانحہ قرار دیتے ہیں۔بلاشبہ عاصمہ جہانگیر پاکستان میں وفاق کی علامت تھیں۔

Comments are closed.