آئین میں ترمیم صرف پارلیمان کا منصب ہے

منیر سامی

اربابِ دانش تو دنیا بھر کے دستوری اصولوں سے اور ان کی اہمیت سے خوب واقف ہیں، لیکن ہم چونکہ ایک عام آدمی ہیں ، سو ہماری گفتگو بھی اس موضوع پر عوام سے ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پڑھنے والے علومِ شہریت کی مبادیا ت کو خوب سمجھتے ہیں۔ علومِ شہریت اور سماجی علوم کی مبادیات میں کسی بھی ملک کے دستور یا آیئن کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ایک بنیادی امر ہے۔

کسی بھی ملک کے نظامِ حکومت کو چلانے کی بنیادی دستاویز وہاں کا آئین یا دستور ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے جمہوری نظاموں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ آئین اور دستور وہ سماجی عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جہاں افراد مل کر یہ طے کرتے ہیں کہ وہ کس طرح مساوات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے مل کر رہیں گے۔ اس میں قدرتی انسانی حقوق کو تسلیم کیا جاتا ہے، اپنی آزادیوں پر متفقہ قدغنیں تسلیم کی جاتی ہیں، کچھ فرائض اپنائے جاتے ہیں، اختیارات کو اجتماعی طور پر استعمال کیا جاتا ہے یا یہ منتخب نمائندوں کو عطا کیے جاتے ہیں۔ متفقہ بنیادی حقوق کا اجتماعی دفاع اس عمرانی معاہدہ کی اولین شرط ہوتی ہے۔ اہلِ دانش اس تعریف میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ، وہاں عوام کے درمیان کیا گیا عمرانی سماجی معاہدہ اب تک ایک حتمی متفقہ صورت نہیں پا سکا ہے۔ پاکستان کے قیام سے ہی آئین سازی کے تنازعات اٹھتے رہے۔ مقننہ کے اسپیکروں کو ہٹایا گیا۔ سنہ 56 میں بنائے گئے پہلے آئین کو ایوبؔ خان نے سنہ 58 میں معطل کیا۔ پھر آمرانہ طاقت کے تحت ایوبؔ خان نے اس آئین کی صورت بگاڑی۔ اور حبیب جالبؔ نے با آوازِ بلند نعرہ اٹھایا کہ، ’ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا‘۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا تھا کہ دستور صرف وہی ہو سکتا ہے جس پر عوام متفق ہوں ورنہ صبحِ بے نو ر دائمی ہو جاتی ہے۔

بنگلہ دیش کے قیام بعد بچے ہوئے پاکستان نے سنہ 73 میں ایک آئین بنانے کی کوشش کی۔ اس آئین میں متفقہ طور مذہبی شقیں ڈالی گئیں اور پہلے ہی دن سے ریاست اور مذہب کی علیحدگی کے اصول کو نہیں مانا گیا۔ آئین کے نفاذ کے فوراً ہی بعد ذوالفقار بھٹوؔ کی تحریک پر دوسری آیئنی ترمیم کے ذریعہ احمدیہ عقائد رکھنے والوں کو غیر مسلم قرارد یا گیا، جس نے پاکستان میں تکفیر کے عمل کو آئینی قرارد یا گیا اور اب کسی کا بھی عقیدہ، مسلک، اور دستار سلامت نہیں ہے۔

 پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر جنرل ضیا کا پاکستان کا آئین ایک ایسانامہ بے معنی ‘ تھا جس کے ساتھ کچھ بھی کیا جاسکتا تھا۔ جنرل ضیؔا نے ایک موجود شدہ اسلامی آئین کی مزید تطہیر کے لیے اس میں قرارِ مقاصد داخل کی، اور عوامی نمائندوں کی اہلیت کی شقوں میں ’صادق اور امین کی شرائط بھی لازم کردیں ۔

جنرل ضیاؔ کے بعد نیک ارادہ رکھنے والے عوامی نمائندوں نے مسخ شدہ آئین کے سدھار کی کوششیں شروع کیں۔ لیکن اس میں شامل کی گئی مذہبی اور اسلامی شقیں ایک ایسی حقیقت ہیں کہ جن کو ہاتھ لگانے بلکہ ان کے سدھار کے بارے میں سوچنے پر بھی فرشتوں تک کے پر جلتے ہیں، انسانی عوامی نمائندوں کی تو حیثیت ہی کیا۔ خیر پھر بھی کوشش کرکے اٹھارویں ترمیم کرکے آئین کو درست کرنے کی کوشش کی گئی اور اس میں عوامی نمائندے کچھ کامیاب بھی ہوئے۔

کسی بھی ملک کے آئین کی طرح پاکستان کے آئین میں ریاست کے بنیادی ستون مقننہ یا پارلیمان، اور انتظامیہ ہیں۔ جن میں آئین سازی یا آئین میں کسی بھی ترمیم کا حق اور فرض صرف مقننہ کا ہے۔ دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں اور بالخصوص ان ممالک میں جو وقتاً فوقتاً عسکری آمریتوں کاشکار رہے ہوں ، ایک ایسا تناؤ موجود رہتا ہے جس میں طاقتور عسکری ادارے ریاست کے بنیادی ستون میں شامل ہونے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔

اس کے لیے وہ براہِ راست یا بالواسطہ کاروایئوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کی بڑی مثالوں میں میں۔ مصر، ترکی، اور خود ہمارا اپنا پاکستان پیش پیش ہے۔ پاکستان کے آئین کی شق 243 کے تحت عساکرِ پاکستان کی وفاقی حکومت کو جوابدہ ہیں۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی کو بہانا بنا کر عساکر کو محدود عدالتی اختیار دے دیئے گئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس تخریب میں خود پاکستان کے وہ معتبر عوامی نمائندے شامل تھے جنہوں نے عوامی حقوق کے دفاع اور تحفظ کے لیئے مصائب جھیلے تھے۔

دنیا کے ہر جمہوری ملک کی طرح پاکستان میں بھی مقننہ ، انتظا میہ اور عدلیہ کے اختیارات کے حدود کا تنازعہ چلتا رہتا ہے۔ عوام کے کان یہ جملہ سن سن کر پک گئے ہیں کہ’ ادارے اپنی حدود میں قائم رہ کر کام کریں‘۔ لطف کی بات یہ بھی ہے کہ مسلسل پروپیگنڈے کے تحت عوام کو یہ بھی باور کرادیا گیا ہے کہ ان اداروں میں عساکر بھی شامل ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بسا اوقات ہماری عدلیہ عساکر کی غیر آئینی کاروایئوں کو آیئنی تحفظ فراہم کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ عدلیہ کے معزز اراکین بارہا غیر آئینی نظاموں کے تحت حلف اٹھاتے رہے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں ان غیر آئینی کاروائیوں میں کمی تو ہوئی ہے لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہماری عدلیہ میں اب بھی جنرل ضیا ؔالحق کے نظام اور غیر آئینی حلف اٹھانے والوں کی باقیات موجود ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے عمل پرست اور آئین کی بالادستی کا تحفظ کرنے والے عدلیہ کا روایتی احترام کرنے پر مجبور تو ہیں لیکن اس پر مکمل اعتبار نہیں کرتے ۔ محسن بھوپالی نے لکھاتھا کہ، ’زیست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں، ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھو جانے کا‘۔ چونکہ آیئنی عمل پرستوں کی جان ہی آئین ہے ، سو وہ اس کے زیاں کے خوف اور سوگ میں رہتے ہیں۔

آج کل پاکستان میں جو اہم عدالتی معاملہ سرِ عام چل رہا ہے ، وہ نوازؔ شریف ، جہانگیر ترینؔ، اور دیگر عوامی اداروں کی نا اہلی کا معاملہ ہے۔ بحث یہ ہے کہ جو افراد آئین کی اسلامی شقوق کے تحت نا اہل قرار دیئے گئے ہیں کیا ان کی نااہلی عارضی ہے، محدود مدت کے لیے ہے، یا دائمی ہے۔ ہمارے آئین کی تعمیر میں خرابی کی کئی صورتیں مضمر ہیں، سو اس میں اس نااہلی کی مدت کی مکمل وضاحت نہیں کی گئی۔

بعض کہتے ہیں کہ یہ مختصر ہے، بعض اسے پانچ سال، دس سال ، یا تا حیات قرار دیتے ہیں۔اگر آپ اس کی زد میں آتے ہیں تو آپ اسے مختصر ترین چاہیں گے، اور مخالف اس کا شکار ہے تو آپ اسے تا حیات قرار دیں گے۔ آئین میں نااہلی کی شقیں بد دیانتی اور جلد بازی میں شامل کی گئی تھیں۔ جن کا نشانہ شاید ہمیشہ ہی چند نا پسندید افراد ہوں۔ خیر اب بحث یہ ہے کہ ان شقوں کی اور آئین کی نیت کی تشریح کون کرے۔

کسی بھی جمہوری نظام میں آئین کی تشریح کا منصب اور ذمہ داری اعلیٰ عدلیہ ہی کی ہوتی ہے۔ یہ تشریح بہت احتیاط اور دنیا بھر کے نظاموں کے تقابل کے بعد کی جاتی ہے۔ عام طور پر جمہوری ممالک میں عدالتیں بعض آئینی شقوں یا قوانین کو آئین سے متصادم قرارد ے سکتی ہیں۔ ایسی صور ت میں یا تو قانون تبدیل کیا جاتا ہے، یا ا ٓئین میں ایسی ترمیم کی جاتی ہے جس کے ذریعہ تصادم کو ختم کیا جائے۔

اگر ایسی ترمیم نہ کی جائے تو قانون منسوخ ہو جاتا ہے یا عدالت کا فیصلہ قائم رہ جاتا ہے۔ کوئی بھی اعلیٰ عدالت یک طرفہ طور پر آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی۔آئین میں ترمیم صرف مقننہ ہی ایک بڑی اور طے شدہ اکثریت سے کر سکتی ہے۔

اس وقت پاکستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ اگر عدلیہ نا اہلی کی مدت پر کوئی ایسا فیصلہ دیتی ہے جو بعض افراد اور جماعتوں کے خلاف جائے تو شاید وہ فیصلہ باقی رہ جائے۔ اس وقت پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جو انتشار اور اختلاف ہے، اس کے نتیجہ میں ذاتی مخاصمتوں میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیئے کوئی بھی ایسی آئینی ترمیم کے لیئے متفق نہیں ہو گا جو کسی نامناسب عدالتی فیصلے کے خلاف جائے۔اس اختلاف و انتشار کے نتیجہ میں عوام کے بنیادی حقوق پر ضرب لگے گی۔ یہ ہماری تاریخ میں عوام کے ساتھ ایک اور زیادتی ہو گی۔ ہم تو صرف امید کر سکتے ہیں کہ ایسا نہ ہو اور عدلیہ اور مقننہ اپنے اپنے منصب کا وقار دیانت داری سے قائم رکھ سکیں۔

Comments are closed.