پدماوت اور ہندو انتہا پسندوں کا شور

طارق احمدمرزا


ان دنوں بھارت سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’’پدماوت‘‘ کا بڑاچرچاہے۔

اخبارات کے مطابق چند ماہ قبل بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کے ایک نمایاں رکن سورج پال آمونے اس فلم میں ہندو راجپوت رانی پدمنیؔ کا کردارادا کرنے والی اداکارہ دیپکا پاڈوکون اور فلم کے ڈائریکٹر سنجے لِیلابھنسالی کے سر قلم کرنے والوں کوڈیڑھ ملین ڈالر کا انعام دینے کا اعلان کیاتھا۔انہوں نے یہ اعلان ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیاجس پر ریلی کے شرکاء نے پرجوش تالیاں بجا کرخوشی اور مسرت کااظہار کیا۔اس فلم کی شوٹنگ کے دوران انتہاپسندوں نے فلم کے بیش قیمت سیٹ کو آگ بھی لگا دی تھی اور فلم یونٹ کے اراکین پر حملہ آور ہونے کی بھی کوشش کی تھی۔

اس سے قبل نہ صرف بی جے پی کے متعدد دیگررہنما اور مختلف صوبوں کے وزراء اعلیٰ اس متنازعہ فلم کی نمائش پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر چکے تھے بلکہ کانگرس پارٹی بھی، جو عموماًسیکولراور لبرل نظریات کی حامل اور داعی ہے ،فلم کی نمائش کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہارکرچکی تھی۔کانگریس کے بعض لیڈروں کی طرف سے تو اس فلم کو سنسربورڈ میں بھی پیش کئے بغیر پابندی لگا دینے کا مطالبہ کیاگیاتھا۔ان واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوتواکے خودساختہ ٹھیکیدار انتہا پسند اب بھارت میں ہرکس و ناکس کو مذہب کی پچ پرلاکر کھیلنے اور کھلانے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ 

اداکارہ دیپکا نے قتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد احتجاجاً حیدر آباد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کرنے سے انکار کردیاتھا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ ایوانکاٹرمپ اوروزیراعظم مودی نے شریک ہونا تھا۔مودی کا مقصد چوٹی کی اس بھارتی اداکارہ کو بالی ووڈ ہی نہیں بلکہ سیکولرانڈیا کاشوپیس بنا کر پیش کرناتھا لیکن دیپکا کے اس جرأتمندانہ اقدام نے عالمی برادری کے سامنے بھارت کے دم توڑتے سیکو لرازم کا بھانڈہ بڑی خوبی سے پھوڑ دیا۔

دنیا بھر کے فنون لطیفہ ،آرٹ اور ثقافت سے تعلق رکھنے والوں کے شدید احتجاج اورمذکورہ فلم کے پروڈیوسروغیرہ کی طرف سے کی جانے والی کئی ماہ کی قانونی جدوجہد کے نتیجے میں بھارتی عدلیہ نے فلم کی نمائش کی اجازت بالآخر دے دی،لیکن اس کے لئے فلم کا نام اصل نام پدماوتی سے بدل کر پدماوت رکھنے کی ہدایت کی گئی۔اس فلم کے لئے سنسربورڈ کا کام سپریم کورٹ کو کرنا پڑاجس کے فل بنچ نے مبینہ طور پر سپریم کورٹ کے اندر پوری فلم کوچلا کر دیکھا۔

بتایا جاتا ہے کہ اداکارہ اور فلم ڈائریکٹر کے قتل پر انعام مقرر کرنے والے سورج پال کیخلاف ہریانہ پولیس نے ایف آئی آر درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔

فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر نے اپنے بیانات میں انتہاپسندوں کی جانب سے فلم پرپابندی لگائے جانے کے مطالبے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے نہ توفلم کی کہانی پڑھی اور نہ ہی فلم دیکھی بلکہ محض سنی سنائی افواہوں پر یقین کرکے عوام الناس کے مذہبی احساسات وجذبات کو بھڑکاکر ان پر خونی سیاست کھیلنے کی افسوسناک کوشش کی ہے۔ان کے بقول فلم میں مذہبی دلآزاری پر مبنی یا نسلی ہتک آمیز مواد موجود نہیں۔جبکہ ایک نسل پرست ہندو تنظیم’’راجپوت کرنی سینا‘‘ کے مطابق فلم میں تاریخی حقائق کو مسخ کر کے دکھایا گیا ہے اور ایک ہندوراجپوت رانی کونہ صرف ایک مسلمان حملہ آورسلطان(علاؤالدین خلجی)کی طرف مائل بلکہ مجمع کے سامنے رقص ،وہ بھی نیم برہنہ،کرتے دکھایا ہے جو راجپوتانہ شان اور غیرت کی سراسرتوہین ہے جسے کوئی راجپوت برداشت تو کیا اس کاتصوربھی نہیں کرسکتا۔ 

فلم کی کہانی کے بارہ میں بتایاجاتاہے کہ اس کا مأخذ سنہ 1540 میں لکھی ہوئی ملک محمد جائسی کی ایک طویل رزمیہ نظم ’’پدماوتی‘‘ ہے جس میں شاعر نے سلطان علاؤالدین خلجی کے ریاست چتوڑ پر حملہ آور ہونے اور وہاں کی رانی پدمنی کی ایک جھلک دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوجانے کا حال لکھا ہے۔پدمنی ؔ کو اپنابنانے کے لئے علاؤالدین اس کے شوہر کو جو کہ چتوڑکا راجا تھا،بہانے سے قتل کر دیتا ہے لیکن پدمنی ؔ اپنے شوہر کے قاتل کی بیوی بن جانے کی بجائے آگ میں زندہ جل مرنے کو ترجیح دیتی ہے۔مؤرخین کے نزدیک ملک محمد جائسی کی تصنیف کردہ اس رزمیہ نظم کی تاریخی حیثیت بجائے خود مشکوک ہے۔

2 Comments