شیخ الجامعہ صاحب، اخلاقی رواداری اور جنسی حملے میں فرق ہوتا ہے

آصف جاوید

پاکستان کی سرکاری جامعات ہمیشہ سے سیاست کا گڑھ رہی ہیں، چاہے یہ  ملکی سیاست ہو، طلباء سیاست ہو،  یا جامعات کے اساتذہ کی باہمی سیاست۔  الزام تراشیاں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں۔  مگر ذاتی رقابتیں اس حد تک بڑھ جائیں گی کہ اساتذہ ایک دوسرے کی عزّت کا جنازہ نکالنے پر تل جائیں گے، پہلی بار نظر سے گذرا ہے۔

پرسوں پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی، جامعہ کراچی کی ایک ذیلی کمیٹی کی جانب سے میڈیا میں ایک خبر شائع ہوئی جس کی رو سے اردو ادب کی ممتاز شخصیت اور جامعہ  کراچی کے شعبہ اردو ادب کے پروفیسر جناب سحر انصاری کو خاتون استاد پروفیسر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے  کا مرتکب قرار دیا گیا  اور پروفیسر کے جامعہ میں داخلے اور تعلیمی سرگرمیوں میں حصّہ لینے پر پابندی بھی عائد کردی گئی ہے۔

 خیال رہے کہ یہ ایک ایسے الزام کی تحقیقات تھیں جس کا کوئی چشم دید گواہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور صرف شکایت کنندہ کی شکایت  کو جواز بنا کر ملزم کو مجرم بنا دیا گیا ہے۔  جبکہ اصل مقدمہ  ابھی بھی صوبائی محتسب کی عدالت میں زیرِ سماعت ہے، اور تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی فائنڈنگز ، عدالت میں جمع کروانے کی بجائے پروفیسر کی کردار کشی کی نیت سے مبیّنہ طور پر میڈیا کے حوالے کردی ہیں۔  یہ عمل ازخود توہینِ عدالت ہے ۔

پروفیسرسحرانصاری ( ستارہِ امتیاز ) ،عالمی شہرت یافتہ  شخصیت، اردو ادب  کے ممتازادیب ،انشاء پرداز، شاعر،محقق ، دانشور، نقّاد ،ان گنت شاگردوں کو زیورِتعلیم سے آراستہ کرنے ،استاذالاساتذہ ،  اردو ادب میں ان گنت پی ایچ ڈی  محقّقین کی رہنمائی کرنے  والی شخصیت، جنہیں میں   کراچی میں اپنے زمانہ طالبعلمی سے جانتا ہوں۔  میں خود  نہ توشاعر ہوں ، نہ ادیب، مگر میرے بہت سے ادیب و شاعر دوست ان سے بے حد قریبی تعلّق رکھتے ہیں۔

اردو ادب اور کراچی سے تعلّق رکھنے والا ہر ادب دوست ،پروفیسر سحر انصاری کی سحر انگیز شخصیت سے نہ صرف واقف ہے بلکہ، پروفیسر صاحب کی علمی عظمت کا قائل ہے۔ کراچی کی ادبی و سماجی تقریبات کے علاوہ میری ان سے نیاز مندی رہی ہے، اور میں انہیں ذاتی طور پر  جانتا ہوں۔  میرے چند دوست جنہوں نے اردو ادب و لسّانیات میں جامعہ کراچی میں تعلیم حاصل کی ہے، وہ پروفیسر صاحب کے شاگرد رہے ہیں۔  وہ پروفیسر صاحب کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔  کل جب  اس مسئلے پر میری ان سے کراچی  میں فون پر گفتگو ہوئی، تو ان سب کا مجموعی طور پر یہ ردِّ عمل تھا کہ  یہ پروفیسر صاحب کی کردار کشی کی ایک کوشش ہے۔

پچھتر 75 سالہ بزرگ اور شفیق استاد  پروفیسر سحر انصاری صاحب تو ایک عالم فاضل، ادیب دانش ور، استاد ، مفکر  ہیں، ہم نے ہمیشہ انہیں اپنے شاگردوں پرمہربان اورمشفق پایا  ہے،   خواہ طالب علم ہو یا طالبہ ، پروفیسر صاحب سب سے تپاک اور محبّت ، اپنائیت اور خلوص سے ملتے ہیں۔  زمانہ طالبعلمی میں البتہ ان کے کمرے میں زیادہ ترطالبات اورخواتین ہی ہوتی تهیں ، کیونکہ ایک تو  طالبات  کی تعداد زیادہ ہوتی تھی، دوسرے پروفیسر صاحب کا رویّہ مشفّقانہ اور دوستانہ ہوتا تھا۔  میرے ادیب و شاعر دوستوں نے اس واقعے کی طرف توجّہ دلاتے ہوئے اس امر کی جانب بھی توجّہ دلائی کہ  دو سال  قبل ہونے والے واقعہ تک، پروفیسر  کی شکایت کسی طالبہ یا خاتون نے نہیں کی تھی  ، جبکہ وہ اس وقت  نسبتا صحتمند اور توانا تھے۔ کیا اس وقت لڑکیاں اورخواتین خوب صورت نہیں ہوتی تهیں؟

یہ امر غور طلب ہے کہ  ساری زندگی علم وادب کی خدمت کرنے اورپوری دنیا میں اپنا نام اورمقام بنانے والے استاد کو اچانک کون سی ایسی حورپری مل گئی کہ وہ اپنی زندگی بهرکی عزت اورنیک نامی اس پرلُٹانے کو تیارہوگئے؟ 

کہا جارہا ہے کہ خاتون شکایت کنندہ، کیمپس کی مقامی سیاست کا شکار ہیں اور کسی خالی ہونے والے عہدے کی متمنّی ہیں، جس کے لئے انہیں خطرہ تھا کہ پروفیسر انصاری ممکنہ رکاوٹ بنیں گے۔  لہذا انہوں نے بغض اور عداوت میں پروفیسر پر الزامات عائد کئے ہیں۔

دو سال قبل کراچی یونیورسٹی کی ایک خاتون استاد ڈاکٹر   نوین نے پروفیسر سحر انصاری پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔  ڈاکٹر نوین  کا الزام تھا کہ پروفیسر سحر انصاری نے یونیورسٹی  کی چار دیواری کے اندر  ان پر جنسی حملہ کرنے کی کوشش کی، جس میں بنا  خواہش ہاتھ ملانے، تھپکی دینے، معانقہ وغیرہ کی کوشش شامل ہے۔   

کمیٹی  نےپروفیسر کو جواب دہی کے لئے طلب کیا ، روشن خیال پروفیسر نے  جھوٹ نہیں بولا اور خواتین سے ہاتھ ملانے ، معانقہ کرنے کو اخلاقی رواداری قرار دیا اور  اسے کسی مشفّق استاد کی جانب سے اپنائیت پر مبنی غیر جنسی فعل قرار دے کر ایک معمول کی پریکٹس قرار دیا،    جسے کمیٹی نے اقرارِ جرم سے تعبیر کیا  پروفیسر کو  خواتین پر جنسی حملے کا مرتکب قرار دے کر پروفیسر پر جامعہ میں داخلے پر پابندی، اور تعلیمی عمل میں حصّہ لینے پر پابندی عائد کردی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک ایسا انسان جس کی  اس واقعہ (شکایتکے وقت عمرتقریبا” 72 سال ہو، اس کی بائی پاس سرجری ہوچکی ہو، جس کے لئے چند  قدم چلنا   بھی دشوارہو، کتنا عجیب لگتا ہے کہ وہ ایک نوجوا ن اورصحتمند عورت کواس کے دونوں کندهوں کوپکڑکے ، دهکا دے کرمیزپرگرادے ؟؟ جبکہ وہ عورت پروفیسرصاحب کوخود دهکا دے کربآسانی گرا سکتی تهی! اور واقعہ کا کوئی عینی شاہد بھی نہ ہو۔ جبکہ کیمپس میں اس وقت طلباء و طالبات کی چہل پہل بھی ہو۔

شکایت کنندہ خاتون کی شکایت پر  پہلے بھی تحقیقات ہوچکی تھیں، ایک کمیٹی  بھی بنی تھی، جس نے فیکٹس فائنڈنگ کرنی تھی، اس کمیٹی نے اپنی تحقیقات مکمّل کرنے کے بعد پروفیسر صاحب کو الزام سے بری الذمّہ قرار دیا تھا، اور  مئی سنہ 2016 میں یہ بات ختم ہوگئی تھی۔ اور وہ رپورٹ اخبارات میں بهی شائع ہوئی  تھی ۔ مگر اب سوا دو سال بعد  محتسب کی ہدایت پر دوسری کمیٹی بنی،  جس نے واقعہ کی دوبارہ چھان بین کی، ایک ایسے واقعہ کی  جس کا کوئی عینی شاہد کبھی تھا ہی نہیں۔ صرف دونوں طرف کے بیانات لینے تھے   ۔   کمیٹی نے انتہائی جانبداری سے کام لے کر نہ صرف نتیجہ اخذ کیا، بلکہ سزا بھی تجویز کردی،   جو کہ کمیٹی کا دائرہ اختیار ہی نہیں ہے، کمیٹی نے تو صرف اپنی فائنڈنگز محتسب کے حوالے کرنی تھیں، کمیٹی کا کام ، جرم اور مجرم کا تعیّن کرنا نہیں تھا، سزا دینا  نہیں تھا۔

 جامعہ میں داخلے پر پابندی، اور تعلیمی عمل میں حصّہ نہ لینے کا حکم صادر کرنا کمیٹی کے دائرہ اختیار سے باہر اور ذاتی نفرت و عداوت پر مبنی اقدام ہے، جس کی ہر ادب نواز  شہری مذمّت کرتا ہے۔  پروفیسر سحر انصاری کو چاہئے کہ جامعہ کراچی کی کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کو عدالت میں چیلنج  کریں، اور ہتک ِ عزت کا دعویٰ بھی   کریں۔  شیخ الجامعہ کراچی کو بھی اس سلسلے میں اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کمیٹی سے باز پرس کرنا چاہئے کہ کمیٹی نے تحقیقات کو عدالت میں جمع کرانے کی بجائے پروفیسر کی کردار کشی کے لئے اسے میڈیا میں کیوں جاری کیا اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے سزا کیوں تجویز کی؟؟

5 Comments