توہین رسالت کا قانون، پاکستان پر دباؤ بڑھتا ہوا

پاکستان میں ’توہین مذہب‘ کے قوانین اس لیے انتہائی خطرناک قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ اس تناظر میں کوئی انتہائی عام سا عمل بھی کسی کوسزائے موت دلوا سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال آسیہ بی بی بھی ہیں۔

سن2009 کے موسم گرما میں پاکستانی مسیحی خاتون آسیہ بی بی نے اُس برتن میں پانی پی لیا تھا، جو ایک مسلمان کا تھا۔ تب وہاں مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمان ہو جائے تاہم آسیہ بی بی نے انکار کر دیا۔14 جون 2009 کے دن صوبہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں اٹانوالی میں رونما ہونے والے اس واقعے کے پانچ دن بعد ہی اس مسیحی خاتون پر ’توہین مذہب‘ کا الزام عائد کر دیا گیا۔

بعد ازاں ’توہین مذہب‘ کے اسی الزام پر ایک عدالت نے آسیہ بی بی کو سزائے موت بھی سنا دی۔ ان کے شوہر عاشق مسیح اور وکیل کئی مرتبہ کوشش کر چکے ہیں کہ عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی اس سزا کو واپس لے لیا جائے۔ تاہم تقریبا نو سال گزر جانے کے بعد بھی وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اب رواں ماہ ہی ملکی سپریم کورٹ آسیہ بی بی کی اپیل پر سماعت کرنے والی ہے۔

پاکستان پر اِس وقت عالمی دباؤ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن بنایا بنائے۔ نہ صرف غیر ملکی بلکہ پاکستان میں فعال انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں سب سے پہلے ملک میں رائج ’توہین مذہب‘ کے قانون میں ترامیم ناگزیر ہیں۔

جنوری میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ یہی قوانین اہم وجہ بنے تھے کہ ’مذہبی آزادی کے حوالے سے سنگین خلاف ورزی‘ کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نام ڈالا گیا تھا۔ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی تھی، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اسلام آباد پر دباؤ بڑھایا تھا کہ وہ قبائلی علاقہ جات میں فعال ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی تیز کر دے، جو افغانستان میں سرحد پار کارروائی میں ملوث ہوتے ہیں۔

ساتھ ہی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نامی بین الحکومتی ادارے ، جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے انسداد کا کام کرتا ہے، نے پاکستان کو جون تک کا وقت دیا ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات  کرے، ورنہ دوسری صورت میں پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس پیشرفت سے پاکستان کے عالمی مالیاتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں ’توہین مذہب‘ کے قوانین کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے معاشرے میں نہ صرف انتہا پسندی پروان چڑھی ہے بلکہ نظام قانون بھی ریڈیکلائزڈ ہوا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہی صورتحال قانون کی بالادستی کے لیے چیلنج بن گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس قانون کو ذاتی دشمنیاں نکلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف مذہبی انتہاپسند اس قانون کو اپنی طاقت بڑھانے کی خاطر غلط طریقے سے استعمال بھی کرتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار زاہد حسین نے اس قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے  ایسوسی ایٹڈ پریس سے کو بتایا، ’’گزشتہ کچھ برسوں کے دوران صورتحال زیادہ خطرناک ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خوف کی فضا میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔

اسلامی انتہا پسندی کے موضوع پر دو کتابوں کے خالق زاہد حسین کہتے ہیں، ’’یہ (قانون) کچھ لوگوں کے ہاتھوں ایک آلہ بن چکا ہے، جو نہ صرف غیر مسلم افراد کے خلاف بلکہ ان مسلمانوں کے خلاف بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جو ایسے افراد کے نظریات سے متفق نہیں ہیں۔‘‘

آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک کو خطرہ ہے کہ سپریم کورٹ انتہا پسندوں کے خوف میں آ کر ان کی موکلہ کی اپیل کو رد کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں آخری امید یہی ہو سکتی ہے کہ آسیہ بی بی کو صدارتی معافی دے دی جائے۔ زاہد حسین کا خیال ہے کہ ملک میں انتہا پسندی یا عسکریت پسندی سے نمٹنے کی خاطر  نہ تو فوج اور نہ ہی سول حکومت کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو بنیادی معاشرتی نظام تباہ ہو سکتا ہے۔

DW

Comments are closed.