دولت  اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور بے قابو سائنسی ترقّی 

آصف جاوید

ممتاز سائنسدان اور نظری طبعیات کے ممتاز ترین ماہر جناب اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اس وقت  دنیا کا سب سے بڑا چیلنج ہے، انسانی لالچ پوری دنیا کو تباہ و برباد کرکے رکھ دے گا ۔  آلودگی، لالچ، احمقانہ رویہ اور آبادی کی بہتات اس سیارے کے لیے بڑے خطرات ہیں، مگر ہم نے نہ لالچ کم کیا ہے اور نہ ہی اپنا احمقانہ رویہ بدلا ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح وبائی امراض، بیماریاں ،  غذائی قلت، قدرتی آفات،  اور بڑھتی ہوئی آبادی  کرّہ زمین کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے عین اسی طرح دولت کا چند ہاتھوں میں اکٹھا ہونا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ دنیا دولت کو ہموار انداز میں تقسیم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگریہ سلسلہ جاری رہا تو میں انسان کے طویل مستقبل کے بارے میں کچھ زیادہ پُرامید نہیں ہوں۔ 

کائنات کے گتھیاں سلجھانے والے ممتاز نظری سائنسداں  اور کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی و طبعیات  کے پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ نے خبردار کیا ہےکہ انفرادی اور ملکی سطح پر دولت کی غیرہموار تقسیم ہمارے عہد کا سب سے خوفناک مسئلہ ہے، دولت سے پیدا ہونے والی اجنبیت نے ہی برطانیہ کویورپی یونین سے باہر کیا ہے۔

ممتاز سائنسداں نے مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو بھی انسانیت کا دشمن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت قابو سے باہر ہوکر بگڑگئی تو اسے روکنا مشکل ہوجائے گا ، اس ہی لئے مصنوعی ذہانت کو قابو میں رکھنا ہوگا۔  اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ اگر ٹیکنالوجی میں ترقّی کی رفتار اس ہی طرح جاری رہی تو ایک دن انسان ٹیکنالوجی کا غلام ہوکر رہ جائے گا،  کمپیوٹرز دنیا پر قبضہ جما لیں گے۔

   اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ  مصنوعی ذہانت کو محتاط دائرے میں رکھنا ہوگا۔  اور سائنسدانوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ دنیا کو خلا اورستاروں تک پھیلا دیا جائے تاکہ انسانی مخلوق باقی رہ سکے۔  اور اسے مکمل خاتمے سے بچایا جاسکے تاہم آنے والی ایک  صدی تک خلا میں آبادیاں بس نہیں پائیں گی۔  اس لیے اس دوران  کرّہ ارض پر انسانوں کو محتاظ رہنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ترقی کو روک دیا جائے یا اسے  پیچھے کی طرف لوٹایا جائے ۔ تاہم ہمیں چاہیے کہ خطرات سے آگاہ رہیں اور اس کے تدارک کے لیے مسلسل اقدامات کرتے رہیں۔  اسٹیفن ہاکنگ کو یقین ہے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ نے کہا کہ جدید تحقیق کاروں کو تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے بخوبی واقف رہ کر عام لوگوں کے اندر اس سے متعلق آگاہی فراہم کرنی چاہیے۔

اسٹیفن ہاکنگ کا دنیا کو درپیش خطرات اور چیلنجز کے بارے میں مزید یہ بھی کہنا ہے کہ ایٹمی جنگ، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور خود تخلیق کردہ وائرس انسانی بقا کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔  جب کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کچھ ایسے نئے راستے کھول رہی ہے جو کسی بھی وقت غلط راستے پر جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ  انسانی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ بالآخر دنیا کو زمین کے علاوہ کائنات کے دیگر سیّاروں پر  بھی انسانی آبادیاں بسانی پڑیں گی جو انسانی تباہی سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے ساتھ ہی دنیا کو تسلی دیتے ہوئے  یہ بھی کہا ہے کہ اگرچہ اس وقت کو آنے میں ابھی کئی سو سال لگیں گے یا ہوسکتا ہے ہزار سال بھی لگ جائیں، مگر دنیا کو ان چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مسلسل تیّاری کی ضرورت ہے۔ ۔

گوکہ اسٹیفن ہاکنگ ایک نظریاتی سائنسداں اور ماہرِ ریاضی و طبعیات ہیں۔ مگر وہ  دنیا کو درپیش اقتصادی  و سماجی مسائل کو  ایک بڑے سائنسی تناظر میں دیکھتے  ہوئے  انٹیگریٹڈ گلوبل چیلنج سمجھتے ہیں ۔صرف اسٹیفن ہاکنگ ہی نہیں دنیا کے  کئی اہم سائنس دان اور  اقتصادی و سماجی علوم کے ماہرین  اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ سائنس کی تیزی سے ہونے والی ترقی جہاں ایک طرف دنیا کو بدل رہی ہے تو وہیں  دولت اور وسائل کی ناہموار تقسیم ، خوفناک شکل اختیار کرکے انسانیت کی تباہی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

ماہرینِ اقتصادیات اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ  غربت و افلاس ایک  گلوبل چیلنج ہے۔اور  دنیا میں غربت و افلاس کی  ایک بڑی وجہ قدرتی وسائل اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔    مزید یہ کہ دنیا میں  قدرتی وسائل اور انسانی ہنر مندی کی کوئی کمی نہیں ہے۔

ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے امیر ،امیر تر اور غریب، غریب تر ہورہاہے۔  معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، طبقاتی عدم مساوات اور باہمی نفرت کا سبب بنتی ہے۔ماہرینِ اقتصادیات کا اس امر پر کلّی اتّفاق ہے کہ غریبی اور امیری کسی خدا کی منشا  نہیں ہے،   بلکہ یہ وسائل اور دولت کی ناہموار تقسیم کا نتیجہ ہے ۔

عالمی سطح پر غربت کے خلاف کام کرنے والی تنظیم آکسفام  کے ایک وسیع مطالعہ کے مطابق اس وقت دنیا کے ایک فیصد امیر ترین لوگ جنہیں ارب پتی بھی کہا جاتا ہے دنیا بھر کی دولت کے 48 فیصد کے مالک ہیں ۔جب کہ آئندہ سال اس میں 600 ارب ڈالر کا اضافہ ہوجائے گا جو ان کی دولت کو باقی دنیا کے 50 فیصد سے بھی بڑھا دے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی رفتار کے ساتھ اضافے کے بعد 2020 تک یہ لوگ دنیا کے 54 فیصد دولت پر براجمان ہوجائیں گے۔

جس طرح دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے دنیا کے ساڑھے سات ارب انسانوں کی زندگی کو اجیرن کیا ہوا ہے، اس ہی طرح پاکستان میں بھی دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم،  اور طبقاتی عدم مساوات نے  وطنِ عزیز  کے 22 کروڑ انسانوں کو غربت و افلاس کے جہنّم میں دھکیلا ہوا ہے۔

اگلے مضمون میں ہم دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے سبب وطن عزیز پاکستان میں غربت و افلاس اور طبقاتی  عدم مساوات، ، معاشی ناہمواریوں،    معاشی ترقی کے معیار ، عام آدمی کو زندگی گزارنے کے لئے بنیادی انسانی  سہولتیں، جیسے   روٹی، کپڑا، مکان، پینے کا صاف پانی، سینی ٹیشن، بجلی ،گیس،  پبلک ٹرانسپورٹ، تعلیم ، صحت، سیکیورٹی، روزگار کے مسائل وغیرہ پر گفتگو پیش کریں گے۔


Comments are closed.