گمراہ لوگ، نیک حکمران اور خوش ملک

بیرسٹر حمید باشانی

انسان ازل سے خوشی اور مسرت کی تلاش میں ہے۔ ابد تک یہ تلاش جاری رہے گی۔ دنیا کے بڑے بڑے فلسفی اس بات پر غور کرتے رہے، کہ انسان زندگی میں حقیقی مسرت کیسے حاصل کر سکتا ہے۔ انسانی تاریخ میں سیاست کا آغاز بھی اسی نقطے سے ہواہے۔ جب انسان نے ایک پر مسرت اور محفوظ اجتماعی زندگی گزارنے کی ضرورت محسوس کی۔ شہر بسائے۔ شہری ریاستیں بنائیں۔ پھر ان شہروں میں مل جل کر رہنے کے اصول طے کیے۔ تقسیم کار اوروسائل کی تقسیم کے اصول بنائے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی ضروریات بدلیں، خواہشات بدلیں۔ مگر ایک پر سکون، آسودہ اورخوش و خرم زندگی کی خواہش اور ضرورت اب بھی ہے۔ میں آج کل روزانہ اخبارات اس بات پر تبصرے پڑھتا ہوں کہ دنیا کے خوش ترین ملکوں کے بارے میں اقوام متحدہ نے تازہ فہرست بنائی ہے ہے۔ اس فہرست میں پاکستان 80نمبر پرہے۔ میں نے ایک ریٹائرڈ کرنل سے اس بارے سوال کیا۔ انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ اگر ہم لوگ اپنے ملک کا نام اتنے نیچے دیکھ کر بھی خوش ہو سکتے ہیں، تو پھر واقعی ہم خوش ، بلکہ اپنے حال میں مست لوگ ہیں۔ 

مجھے پاکستان کے علاوہ سوئٹزرلینڈ اور کینیڈا میں بھی رہنے کا اتفاق ہوا۔ یہ دونوں ملک اس فہرست میں پہلے سات خوش ترین ممالک میں شامل ہیں۔ میں ان ملکوں کے تعلیمی اداروں میں پڑھتا رہا ہوں۔ یہاں کی سماجی، سیاسی اورمعاشی سرگرمی میں بھر پور حصہ لیا ہے۔ چنانچہ میں اس تجربے کی روشنی میں سمجھتا ہوں کہ اقوام متحدہ کا تجزیہ بالکل درست ہے۔ میراخیال ہے کہ خوشی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک انفرادی جو انسان کے اندر ہوتی ہے۔ انسان اگر اندر سے اداس ہے، غم زدہ ہے، تو وہ کسی ملک کسی سماج میں بھی خوش نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ میں نے سوئٹزرلینڈ اور کینیڈا جیسے خوش ترین ملکوں میں بھی کچھ بہت اداس لوگ دیکھے ہیں۔ اور پاکستان جیسے اداس ملک میں کئی بہت خوش، اور اپنے حال میں مست لوگ دیکھے ہیں ۔

خوشی کی دوسری قسم اجتماعی ہوتی ہے۔ جس کا تعلق آپ کے ماحول اور سماج سے ہوتا ہے۔ مغرب اور مشرق کے فلسفیوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے، کہ ایک مثالی ریاست یا منصفانہ سماج کا قیام ہی انسان کو اجتماعی خوشی اور آسودگی دے سکتا ہے۔ مثالی ریاست کی شکل پر البتہ اختلاف رہا ہے۔ افلاطون کے ذہن میں اس کا کچھ اور خاکہ تھا۔ ارسطو کی مثالی ریاست کچھ اور تھی۔ کارل مارکس کا ریاست کے بارے میں نظریہ ایک تھا اور آدم سمتھ کا بالکل دوسرا۔

تاریخ کے ساتھ ساتھ ریاست کے بارے میں انسان کے نظریات اور تصورات بدلتے رہے۔ اسلامی فلسفیوں میں ابو نصر الفارابی نے سب سے پہلے انسان کی اجتماعی مسرت اور ریاست کا آپس میں تعلق کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ ارسطو کی طرح الفارابی کا بھی یہ خیال تھا کہ انسان سماجی جانور ہے۔ اس کی خوشی مل جل کر ایک مثالی شہری ریاست میں رہنے میں ہے۔

یہ مثالی ریاست کیسی ہو ؟ اور اس پر حکومت کون کرے؟ حکومت کس طریقے سے کی جائے ؟ تاریخ کے اس پیچیدہ سوال پر الفارابی مگر ارسطو سے کئی زیادہ اس کے استاد افلاطون کی سوچ سے متاثر تھے۔ افلاطون سمجھتا تھا کہ ایک اچھی ریاست تب ہی بن سکتی ہے ، جب اس کی حکمرانی فلسفی بادشاہ کے ہاتھ میں ہو۔ مگر الفارابی کی مثالی ریاست میں حکمرانی کا حق دار ایک نیک اور پارسا شخص تھا، جو اپنی رعایا کو ایک نیک زندگی گزارنے کے لیے رہنمائی فراہم کر سکے۔ یہ نیک زندگی انسانی مسرت کا باعث بن سکتی ہے۔ 

مگر زمینی حقائق کے پیش نظر الفارابی کو جلد ہی یہ ماننا پڑا کہ اس کی مثالی اور نیک ریاست نا قابل عمل ، تصوراتی اور سیاسی یوٹوپیا ہے۔ الفارابی نے تاریخ میں موجود مختلف نظام حکومت کا تنقیدی جائزہ لیا اور ان کی نا کامی کی وجوہات ڈھونڈ نکالیں۔ اس نے ریاستوں اور حکومتوں کی ناکامی کی تین اہم وجوہات بتائیں۔ ان میں پہلی وجہ جہالت ہے۔ الفارابی نے لکھا کہ ایک ریاست جس میں عوام کی اکثریت جاہل ہو، اس میں عوام کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ نیک پارسا زندگی گزارنے سے حقیقی مسرت یا خوشی حاصل ہو سکتی ہے۔

دوسری وجہ غلطی پر قائم ریاست ہے، ایسی ریاست میں لوگ نیکی کی نوعیت کو ہی نہیں سمجھتے ۔ اور تیسری وجہ بھٹکی ہوئی ریاست ہے، جس میں لوگ جانتے ہیں کہ نیک اور پاک زندگی کیا ہے، مگر نیکی کے راستے پر نہ چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ الفارابی کے تنقیدی جائزے کا نچوڑ یہ تھا کہ ایک مثالی ریاست جو لوگوں کو نیک راستے پر چلاسکے اس کا دنیا میں کوئی وجودنہیں ہے، ایسی ریاست کے لیے نیک حکمرانوں کی ضرورت ہے، مگر لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے کے حقیقی مسرت نیک زندگی میں ہے، اس کے بجائے وہ دولت اور سرورکے پیچھے بھاگتے ہیں، جاہل، بھٹکی ہوئی اور پرخطا زندگی گزارتے ہیں، ان جاہل گمراہ، اور بھٹکے ہوئے لوگوں کے رہنما بھی ان ہی جیسے ہوتے ہیں، جن کے ساتھ مل وہ نیک حکمرانوں کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ 

لطف کی بات یہ ہے کہ الفارابی نے نیک و پاک ریاست کے قیام سے مایوسی کا اعلان محض ایک فلسفی کے طور پر نہیں کیا۔ اس میں اس کا عملی تجربہ بھی شامل تھا۔ فارابی مختلف اوقات میں حکمرانوں اور اشرافیہ کا حصہ رہے ۔ وہ بغداد میں قاضی کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کی اکثر تنقیدی تحریریں اس وقت سامنے آئیں، جب وہ شام میں عدالت سے منسلک تھے۔

الفارابی کی باتوں سے اختلاف کی بہت گنجائش ہے۔،خصوصا اس بات سے کہ لوگ ایک نیک حکمران کو محض اس لیے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں کہ وہ خودجاہل، گمراہ اور بھٹکے ہوئے ہیں۔ میرے تاریخ کے ایک استاد تھے، جن کو الفارابی کی اس بات پرشدید غصہ آتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عوام اور ان کی دانش کی توہین ہے۔ پاکستان میں تو گاہے کوئی نہ کوئی آمرہمیں یہ باور کرواتا ہی رہا ہے کہ عوام تو گمراہ ہیں ہی ، ہمارے سیاست دان بھی جاہل ہیں۔ ماضی میں بی۔ اے کی ڈگری کا لازم قرار دینا اس کی ایک مثال ہے۔ اشرافیہ اور پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل غیر منتخب حکومت قائم کرنے کا تصور بھی اسی سوچ کا عکاس ہوتا ہے کہ ہمارے عوام جاہل ہیں، ا ور وہ اپنے سے بھی برے رہنماہ منتخب کرتے ہیں۔ بار بار ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی باتیں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ 

میں نے پرائمری سکول میں پڑھا تھا کہ سچی جمہوریت کے قیام کے لیے خواندگی کی بلند شرح اور تعلیم ضروری ہے۔ بعد میں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جن مما لک میں تعلیم کی شرح زیادہ ہے، ان ممالک میں اچھی، نیک اور بد عنوانی، سے پاک حکومتیں موجود ہیں۔ اچھا نظام ہے۔ معاشی اور سماجی انصاف ہے۔ اور اس کے نتیجے میں لوگ ایک خوش،مطمئن اور پر مسرت زندگی گزارتے ہیں۔ ۔

سویڈن، ناروے، ڈنمارک وغیرہ سمیت دنیا میں خوش ترین ممالک کی فہرست میں پہلے دس ممالک اس کی ایک مثال ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو الفارابی سے لیکر کارل مارکس تک ہم نے کسی کو نہ ڈھنگ سے پڑھا، نہ غور کیا۔ ریاست چلانے کے لیے فلسفے کے بجائے ہمارا زیاہ زور ڈنڈے پر رہا۔ آج بھی ہم صرف ووٹ دینے کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں۔ جو عمرانی معاہدہ ہم نے کر رکھا ہے ، اس کی پاس داری کے لیے کوئی تیار نہیں۔ یہاں کبھی فوجی مارشل لا کی بات ہوتی ہے، اور کبھی جوڈیشل مارشل لا کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

آج بھی یہاں مختلف شکلوں میں شخصی راج کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔ اداروں کے بجائے عظیم قاضی، عظیم سپہ سالار اور عظیم حکمران کے تصورات کو فروغ دینے کی کوشش ہوتی رہتی ہیں۔ ہم عظمت کے خبط میں مبتلا لوگ ہیں۔ ہماری نیک حکمران کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ جانے کب تک بھٹکتے رہیں گے۔

Comments are closed.