جناب ! آج قائد اعظم ؒ نہیں پاکستان ہار گیا

 اصغر علی بھٹی۔ نائیجر مغربی افریقہ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جناب شوکت عزیز صدیق کے فیصلے پر اک دل جلے نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ آج قائد اعظم ہار گئے اور جناب شوکت عزیز صدیقی جیت گئے ۔یقیناً تبصراتی الفاظ حدت جذبات کے ہی نہیں انسان اور انسانیت کے مرنے پر ہونے والے دلی کرب کے بھی غمازی ہیں ۔قدرت اس نقصان پر سوگوار ہے مگر بستی میں علماء اور فضلاء دوکانیں بند کرکے، سینٹ کے ووٹ گننے اور ان سے حاصل ہونے والے کروڑوں کی گنتی کرنے میں مصروف رہے۔

قوم کرپشن کے نئے سکینڈل ،نیب کے چھاپے، پانچ ججوں نے مجھے کیوں نکالا اور اعتزاز احسن صاحب کو ہونے والے دس ہزار روپے کے جرمانے کے ٹریلر دیکھنے میں جتی رہی اور اسی دوران جناب شوکت عزیز صدیقی اور مولوی اللہ وسایا کی دل پشوریوں کے آگے پاکستان ہار گیا۔یہ سانحہ جب ہو رہا تھا بابا رحمتے گھر پر نہیں تھے وہ ہسپتال کا چکر لگانے نکلے ہوئے تھے اور گھر کے لڑکے بالے خواب خرگوش سے لظف اندوز ہو رہے تھے۔ 

کہتے ہیں کہ ایک چٹ منڈھی داڑھی والے شخص نے شرارتاً حضرت خواجہ بختیار کاکی ؒ سے سوال کیا کہ یا حضرت یہ آپ لوگ روز غلبہ اسلام کی بات کرتے ہیں تو بتائیے کہ آخر کب ہو گا یہ غلبہ اسلام؟ آپ نے اس شریر کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ کچھ توقف کیا اور ایک تاریخی کلمہ ادا کرتے فرمایاکہ غلبہ اسلام کی بات کرتے ہو آپ کے چہرے پر تو اسلام کبھوکا شکست کھا چکا ہے ۔آج اسلام کی حفاظت، ختم نبوت کی حفاظت اور پاکستان کی حفاظت کی موشگافیوں سے دل بہلانے والوں کے لئے حضرت خواجہ صاحب کے الفاظ میں ہی کہتا ہوں کس کی حفاظت کی بات کرتے ہو ؟؟آپ لوگوں کے ہاتھوں تو انسان کب کا ہار چکا ۔ قائد اعظم ہار چکا اور آج پاکستان بھی ہا ر گیا۔

ستر70 سالہ یہ بوڑھا پاکستان کا برگد شوکت عزیز صدیقیوں کے آگے اور کتنی مدافعت کی سکت دکھاتا جب آغاز میں ہی مالی اور مالک مار دئیے گئے ہوں ۔ پاکستان بننے سے بھی دودن پہلے12 اگست 1947 کو قائد اعظم کے دل میں نئی مملکت کے لئے ایک ترانے کا خیال آیا ۔ آپ نے اپنے ایک پرانے ہندو دوست جناب جگن ناتھ آزاد کو اس سلسلہ میں درخواست کی ۔ اُنہوں نے پوچھا کہ آپ کے دل میں اس کے لئے کیا خاکہ ہے آپ نے انہیں اس سلسلہ میں بریف کیا کہ ہمارے وطن کا ترانہ کس عظیم پیغام کا حامل ہونا چاہئے۔ انہوں نے ان نکات کو نوٹ کرلیا اور چند دن کے بعد ایک ترانہ لے کر قائد محترم کے پاس حاضرہو گئے۔

ترانہ اتنا شاندار اور جامع تھا کہ سنتے ہی آپ کے دل کو بھا گیا۔سو فیصد آپ کے دل کی ترجمانی تھی ۔آپ نے اسے سنا اور اور اسی وقت اُس کو منظور کردیا ۔چنانچہ اگلے 18 ماہ یہی ترانہ قومی ترانہ بن کر پاکستان کی فضاؤں میں گونجتا رہا ۔ پھر ہم مسلمان ہوگئے ۔ قرار داد مقاصد ہمارے ایمان کو بچانے کے لئے ٹھنڈی چھتری بن کر پھیل گئی۔ ہمیں ایک ہندوکے ہاتھ سے لکھے ترانے سے شرم آنے لگ گئی۔ چنانچہ نئی کمیٹی بنی نئے شاعر چنے گئے۔اور قوم کو ایک نیا ترانہ عطا ہو گیا مگر قائد کا ترانہ بھی ہا ر گیا۔

قومیں اور وطن ایک قاعدے قانون کے پابند ہوتے ہیں۔نئے وطن کی مضبوط بنیادیں اُٹھا نے کے لئے قائد محترم نے ایک منجھے ہوئے قانون دان جناب جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون مقرر فرمایا ۔ پھر ہم مسلمان ہو گئے ہمیں اپنے وزیر قانون جو ایک دلت ہندو تھا ،سے شرم آنے لگ گئی ۔ ہمیں احساس کمتری نے گھیر لیا کہ ہمارا وزیر قانون جو کہ ایک کافر اور وہ بھی دلت کافر جو کہ ہندووں میں بھی چھوٹی ذات ہے ہم نے غیر اعلانیہ بائیکاٹ کردیا اور انہیں سمریاں تک بھیجنا بند کر دیں ۔

قائد اس دنیا سے اٹھے تو ایک شام جوگندر جی نے بوجھل دل کے ساتھ اپنی چھوٹی سی گھٹڑی اُٹھائی اور پاکستان کو خیر آباد کہہ کر سلہٹ چلے گئے۔ نہ کوئی اداس ہوا نہ کسی نے پوچھا اور نہ کوئی منانے گیا ۔چند سال بعد یہی روگ وہ دل کو لگا کر خوموشی سے اس دنیا سے نکل گئے ۔ قائد کا وزیر بھی ہا ر گیا۔

قائد کے ڈپٹی اسپیکر جناب چندولال اورگبن صاحب ، وزارت خارجہ کے خالق جناب سموئیل مارٹن صاحب، وزیر خارجہ چوہدری سر ظفر اللہ خاں ،وزیر ریلوے جناب فرینک ڈیسوزا صاحب سب کافروں سے ہمیں گھن آنے لگی ۔ سب کو نکال باہر کیا ہم جیت گئے صرف قائد ہار گیا۔
دیوبندی فرقے کے حکیم الامت جناب اشرف علی تھا نوی صاحب کے خلیفہ مجاز جناب عبد الماجد دریا بادی صاحب فرماتے ہیں کہ
’’
لاہور کے انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز سے
صدر پاکستان کے سائنسی مشیر پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کے لئے ایٹم برائے امن فاؤنڈیشن امریکہ نے جو 30 ہزار ڈالر کا گراں قدر عطیہ منظور کیا ہے اسے پاکستانی سائنس دانوں کے لئے وقف کر دیں گے جو سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے لئے پاکستان سے باہر جانا چاہیں گے ‘‘ اول تو انعام ایک مسلمان کو بجائے رقص ، موسیقی،مصوری، نقاشی، سنگ تراشی، اور آرٹ اور کلچر کی بجائے کسی سائنس کے شعبہ میں اور وہ بھی جنگ کی نہیں امن کی مد میں ملنا اور پھر اس ماہر سائینس کا اسے بجائے اپنی ذات پر صرف کرنے کے دوسرے طلبہ سائنس کے لئے وقف کر دینے کی مثال ایثار پیش کرنا ۔خبر کے یہ دونوں پہلو ندرت سے لبریز ہیں ۔ مصر عراق اور شام ایران ترکی افغانستان، کتنے ہی مسلم ملکوں کے لئے ایک نظیر شمع راہ کا کام دے سکتی ہے ‘‘ ( صدق جدید لکھنو اکتوبر 1968 )۔

اس 30 ہزار ڈالر کا تحفہ لانے والے اس سر پھرے کو ہم نے یہ کہہ کر بھگا دیا کہ پاکستان کا وزیر سائنس اپنے گھر کے معاملات میں اپنے باورچی سے مشورے نہیں کرتا وہ چلا گیا ۔وطن چھوڑ کر بوجھل دل کے ساتھ ۔دور میرے دل میرے مسافر گنگناتا پردیس پردیس کی خاک چھاننے لگا۔لیکن جلد ہی وہ ایک بار پھر سے ایک سہہ پہر ڈھیروں ڈھیر عزت ، دولت ڈگریاں اور ایک عد نوبل پرائز لے کر اپنے وطن میں آسودہ خاک ہونے کے لئے لوٹ آیا ۔ اب ہم مسلمان ہو چکے تھے ہمیں اس ناکارہ سائنسدان سے شرم آنے لگ گئی اور پھر ایک شام ہم نے اس کی قبر کے کتبے کو بھی اس کی روح کی طرح چھید چھید کر رکھ دیا ۔ کھرچی ہوئی اُداس قبر کا کتبہ بزبان حال کہہ رہا ہے کہ میرے قائد کا پاکستان ایک بار پھر ہا ر گیا۔ 

جج صاحب کتنی فکر ہے آپ کو ختم نبوت کی حفاظت کی ۔ اچھی بات ہے ہونی چاہئے۔ مگر یہ تو بتائیے اسلام کے اندر ختم نبوت ہے یا اسلام سے یہ کوئی جدا چیز ہے ۔ اگر اسلام کے اندر ہے اور اسلام کا ایک جز ہے تو پہلے اسلام کی لسٹیں تو بنا لیجئے۔ وہ کریہہ جرائم جو عیسائی یہودی تو کیا کوئی افریقہ کا وحشی بھی نہیں کرتا وہ ایک نعت خوان ،ختم نبوت کا عاشق کر رہا ہے ۔

سوچو اور یاد کرو اُس حدیث کو جب وہ شخص جواپنی بیٹی کو زندہ دفنانے کا حال بیان کر رہا تھا تو اللہ کا نبی کیسے تڑپ رہا تھا ۔ کیا قیامت کا سماں تھا ۔ تما م صحابہ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ۔سوچو یاد کرو ۔ اگر دل میں ذرا ایمان ہے تو سوچو۔ اتنی ہی عمر کی کتنی زینبیں اُس سے ہزار گنا درد کے ساتھ ، بے حرمتی کے ساتھ، کوڑے کے ڈھیروں پرپڑی ، آپ جیسے ججوں کی طرف دیکھ رہی ہیں ۔ ان مولوی اللہ وسایا جیسوں کی طرف دیکھ رہی ہیں۔

مگر کیا ۔ وہ مولوی جنہوں نے شفیق باپ بن کر اُن کو قرآن پڑھانا تھا ،وہ ان معصوم اور تتلیوں جیسے جسموں کو کالے کتے بن کر بھنبوڑ رہے ہیں اور آپ نیرو کی طرح بانسری بجا کر لسٹیں بنا رہے ہیں ۔ اسلام کی حفا ظت کر رہے ہیں۔ ملک سے باہر جانے والوں کے نام پر جماعت احمدیہ کو گالی دے رہے ہیں ۔

آپ کی اگر عمر تھوڑی ہے تو ان مولوی اللہ وسایا سے پوچھ لیں یہ ربوہ کے پاس پچھلے تیس سال سے سر کھپا رہے ہیں احمدی احمدی ہی رہتا ہے وہ کبھی اُلٹ بازیاں نہیں لگا تا ۔ وہ اللہ پر اللہ کے دین اسلام پر پوری فراست اور حرارت سے کاربند رہتا ہے۔ اگر آپ کو شرم محسوس ہوتی ہے تو میں ایک لسٹ اور بتا دیتا ہوں وہ جو جرمنی کی چانسلر نے پیش کی تھی جب شام کے پکے مسلمانوں کے ہاتھوں پکے مسلمان خون میں لتھڑے جرمنی پناہ کے لئے پہنچے تو اُس نے پناہ دیتے ہوئے ایک لسٹ نما طمانچہ بھی مارا تھا کہ آج شام کے ملک سے مکہ زیادہ قریب تھا ۔ 

ختم نبوت 1953کی تحریک کے روح رواں ،مشہو ر رضا خانی عالم دین مدیر المنبر جناب مولوی عبد الرحیم اشرف صاحب اس سارے ہنگامہ کے گزرنے کے بعد ختم نبوت کی حفاظت کرنے والوں کے ایمان کی ترقی یا تنزلی کا حساب کتاب کرتے ہوئے اپنے دل کا کرب یوں بیان کرتے ہیں’’ جب ہم نے زبان سے اسلام کا نعرہ لگا یا اور عمل سے اس کی خلاف ورزی کی ۔ ہم نے شراب کو حرام کہا اور جی بھر کے شراب نوشی کی ۔ عدل کی دہائی دی اور ظلم کو معمول بنایا ۔ آخرت کا نام لیتے رہے اور دنیا کے حضور سجدہ ریز ہوئے ۔ اخلاقی برتری کے وعظ کہے اور بد اخلاقی کی پستی کی جانب لڑھکتے رہے ۔ جب قول اور عمل کا یہ تضاد انتہا تک پہنچا تو ہم تمام ترقیات کے باوجود ذلیل و زبوں حال ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم اپنی مفتوح قوموں کے غلام بنا دئیے گئے ‘‘ ( المنبر یکم دسمبر 1967 )۔

جج صاحب، 1953 سے ہر مولوی اللہ وسایا آپ جیسے ججوں اور جنرلوں کے ساتھ مل کر جماعت کا گلہ دبانے کے لئے نئی لسٹیں بناتا آیا ہے ۔جماعت پر ہر دروازہ بند کرتا چلا آیا ہے ہم پہلے بھی اپنے خدا کے ہی حضور سر بسجود تھے اور آئیندہ بھی رہیں گے لیکن صرف ایک بات کہتا چلوں آپ پہلے بھی ناکام رہے تھے اور آئیندہ بھی رہیں گے ۔ آپ اپنا پہلا سرمایہ بھی کھو چکے اور ظالم بن کر اپنا مستقبل بھی اللہ کی نظروں سے گرا دیں گے۔مودودی صاحب کے الفاظ میں نصیحت کے ساتھ ختم کرتا ہوں

’’یہ بات یاد رہے کہ اس اللہ تعالیٰ نے اپنے نام پر کبھی دنیا میں کھوٹے سکوں کو چلنے نہیں دیا ۔ کوئی قوم مسلمان ہونے کے باوجود ، نہ اسلام کی پیروی کرے ، نہ اسلام کے لئے کام کرے ۔تو اللہ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اُسے اپنی تائید خاص سے نوازے‘‘
(
ترجمان القرآن جولائی 1967 ص 8 )

2 Comments