فلاحی ریاست کا تصور اور سوشل ڈیموکریسی

بیرسٹر حمید باشانی

پاکستان میں انتخابات کی آمد آمد ہے۔ یہ کہنے اور سننے کا موسم ہوتا ہے۔ عوام اور ان کے راہنماؤں کے درمیان مکالمے کا موسم ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ مکالمہ زیادہ تر یک طرفہ ہی ہوتا ہے، جس میں رہنما بولتے ہیں، اور عوام سنتے ہیں۔ ہماری طرح مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی انتخابات سے قبل سیاست دان اپنے انتخابی منشور کا علان کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے بر عکس ایسا شاذو نادر ہی ہوتاہے کہ وہ اپنے انتخابی منشور پر عمل نہ کریں۔

مغرب کے انتخابات میں وعدے بھی ایسے کیے جاتے ہیں، جو حقیقت پسندانہ اور قبل عمل ہوں۔ منطق اور دلیل کی کسوٹی پر پورا اترتے ہوں۔ عموما سیاسی جماعتیں ایسے وعدوں سے گریز کرتی ہیں، جس کے لیے وسائل اور اسباب موجود نہ ہوں۔ اور اعداد و شمار کی روشنی میں یہ ثابت نہ کیا جا سکے کہ اس کے لیے درکار وسائل میسر ہیں۔

ہمارے ہاں دلائل اور اعداد و شمار کے بجائے سیاست دان عوام کے جذبات ابھارنے پر زور دیتے ہیں۔ جذبات ابھارنے کے لیے جوش خطابت سے کام لیا جاتا ہے۔ اس جوش خطابت میں ایسے وعدے کیے جاتے ہیں، جن میں سے بیشتر نا قابل عمل ہوتے ہیں، جن کے لیے وسائل ہی نہیں ہوتے۔ اس لیے ہمارے ہاں انتخابی سیاست جھوٹ اور فریب کی سیاست بن کر رہ گئی ہے۔

مغرب کے اور ہمارے انتخابات میں دوسرا بڑا واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنے انتخابی منشور بیان کرنے سے زیادہ مخالف امیدواروں یا جماعتوں کی خامیوں پر سارا زور خطابت لگاتے ہیں۔ ہماری سیاست اپنے اچھے کاموں کے بجائے دوسروں کی کمزوریوں پر چلتی ہے۔ ہم عوام کو یہ نہیں بتاتے کہ ہمیں کیوں ووٹ دو، اس کے بجائے ہم انہیں بتاتے ہیں کہ مخالفین کو کیوں ووٹ نہ دو۔ 
سیاست مغرب میں ہو یا مشرق میں، اس کا نقطہ ماسکہ عوام کی فلاح و بہبود ہے۔ دنیا میں کسی بھی حکومت کا بنیادی اور لازمی فریضہ عوام کی فلاح و بہود ہی ہوتاہے۔ عوام کی فلاح ایک وسیع تصور ہے۔ مختلف لوگ فلاح کی مختلف تعریف کرتے ہیں۔ لیکن کچھ کم از کم نکات ایسے ہیں، جن پر سب کا اتفاق ہے۔

ان میں بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو سماجی اور معاشی بہبود کے فروغ اور تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کی پابند ہے۔ فلاح و بہبود کا تصورمساوات اور دولت کی منصفانہ تقسیم سے مشروط ہے۔ انسان کی فلاح و بہبود کاتصور صرف فلاحی ریاست کا قیام سے مشروط نہیں۔ فی زمانہ کئی دوسری قسم کی ریاستیں، جو فلاحی نہیں، مگر انسانی فلاح و بہبود کی دعوے دار ہیں۔

برصغیر میں آج تک اگرچہ کوئی فلاحی ریاست قائم نہ ہو سکی ، مگر یہاں اس کا تصور بہت ہی پرانا ہے۔ تیسری صدی قبل مسیح میں اشوکا کے دور میں فلاحی ریاست کے کچھ تصورات پر عملدرآمد کی کوشش ہوئی۔ اشوکا عام لوگوں کو بہت اہمیت دیتا تھا۔ وہ کہتاتھا کہ وہ اپنی رعایا میں موجود ہر جاندار مخلوق کا مقروض ہے۔ اس کا ہر کام اس قرض کی ادئیگی کی کوشش ہے، جو اس پر واجب الادا ہے۔ اشوکا کے دور میں عوام کی فلاح و بہبود ، یہاں تک کہ قیدیوں کے بہبود کے لیے اقدامات کیے گئے۔

برصغیر میں اعلی قیادت میں اس تصور کی موجودگی اس بات کی دلالت ہے کہ ریاست و سیاست کے میدان میں اس وقت بر صغیر قدیم تہذیبوں کا ہم پلہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب مغرب میں افلاطون اور ارسطو کے خیالات کا سحر تھا۔ ہمارے پڑوسی چین میں کنفیوشس اور سن زو کا طوطی بولتا تھا۔ اس دور میں چانکیہ کا نام ایک ایسے دانشور کے طور پر ابھرا جو فلاحی ریاست کا تصور رکھتا تھا۔

چھ سو سال قبل مسیح ہمارے ہاں ایک بڑی اور دنیا بھر میں تسلیم شدہ یونیورسٹی تھی۔ راولپنڈی سے کوئی پندرہ سولہ میل دور ٹیکسلا میں قائم یہ یونیورسٹی اس وقت علم دوانش کا گڑھ تھا۔ قدیم بابل، یونان، چین اور شام سے طلباء یہاں پڑھنے آتے تھے۔ کوئی ساٹھ سے زائد سے زیادہ مضامین یہاں پڑھائے جاتے تھے۔ ان میں فلسفہ اور سیاست بھی تھا۔ ریاست اور حکومت بھی تھا۔

یہاں سے بڑے بڑے سکالر تھے۔ ان میں ایک چانکیہ بھی تھا۔ چانکیہ کو اس وقت کی سیاست اور ریاستی امور کا عالم سمجھا جاتا تھا۔ اس نے فن حکمرانی اور سیاست پر معرکہ آرا مقالہ لکھا۔ ارتھ شاستر نامی اس کتابچے یا مقالے کو آپ اردو میں مادی کامیابی کی سائنس یا فن سیاست کا نام دے سکتے ہیں۔

ریاست کی خوشحالی چانکیہ کے فلسفے کا بھی نقطہ ماسکہ ہے۔ اس کے خیال میں عوام کی فلاح و بہبود حکومت کا فرض اولین ہے۔ حکمران کا یہ فرض ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود اور سلامتی کے لیے نظم وضبط اور انصاف قائم کرے۔ 

اسلامی تاریخ میں حضور محمد صلعم کی رہنمائی میں مدینہ کی شکل میں پہلی ریاست تھی، جو فلاحی خدوخال رکھتی تھی۔ خلافت راشدہ میں فلاحی ریاست کے تصورات کو اہمیت دی گئی اورعملی طورپر اپنایا گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شہریوں کے لیے کم از کم آمدنی کی حدمقرر کی۔ ہر عورت مرد اور بچے کے لیے دس درہم سالانہ مقرر کیے۔

حضرت عمر فاروق کے دور میں اس تصور کو اگلے درجے پر لے جایاگیا۔ انہوں نے بیت الما ل جیسا باقاعدہ ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد امیروں سے ٹیکس لیکر غربا اور مساکین کی مالی اعانت تھی۔ یہ سوشل سیکورٹی کی ایک ابتدائی شکل تھی، جس میں یتیم بچوں کی کفالت اور پینشن کا تصور موجود تھا۔ ان فلاحی اقدامات کے باوجود دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بڑھتی گئی ، اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور تک سماجی اور معاشی نا ہمواری ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب حضرت ابو زر غفاری رضی اللہ عنہ احتجاجا باہر نکلے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں خلافت راشدہ کے خاتمے کے ساتھ آہستہ آہستہ فلاحی ریاست کا تصوربھی کمزور ہوتا ہو گیا۔

یورپ میں فلاحی ریاست کا تصور تو پرانا ہے، مگر جدید اور موجودہ دور کی فلاحی ریاست یا سوشل سیکورٹی کے تصورات پر انیسویں صدی کے آخر میں کام شروع ہوا۔ دلچسب بات یہ ہے کہ یہ کام دائیں بازوں کے قدامت پرستوں نے کیا۔ پروفیسر رابرٹ پیکسٹن نے اس موضوع پر بڑی تحقیق کی ہے۔

پروفیسر کا خیال ہے کہ فلاحی ریاست کے قوانین پہلی بار انیسویں صدی کے آخر میں قدامت پرستوں نے ، اور بیسویں صدی کے شروع میں فاشسٹوں نے متعارف کروائے۔ ایسا مزدوروں کو یونین اور سوشلزم سے دور رکھنے کے لیے کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بائیں بازوں کی سوشلسٹ پارٹیوں اور ریڈیکل دانشوروں نے ان اقدامات کی مخالفت کی۔

بسمارک نے 1881 میں جرمنی کو ٖ فلاحی ریاست بنانے کی ابتدا کی، مگر یہ کام کرنے سے پہلے اس نے جرمنی میں پینتالیس اخبارات بند کیے۔ جرمن سوشلسٹ پارٹی پر پابندی لگائی۔ یہی عمل چند سال بعد آسٹروہنگیرین سلطنت میں دہرایا گیا۔ پیکسٹن نے یہ دلچسب نقطہ بھی اٹھایا ہے کہ بیسویں صدی کی تمام جدید دائیں بازوں کی فاشسٹ اور مطلق ا لعنان ریاستیں فلاحی ریاستیں ہی تھیں۔ یہ سب ریاستیں مزدور اور سوشلسٹ تحریکوں کے خوف سے عوام کو بنیادی صحت، پینشن، سستی رہائش اور پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا کرتی تھی۔

ڈینش ماہر عمرانیات گوسٹا اینڈرسن کے خیال میں جدید ترقی یافتہ دنیا میں تین قسم کی فلاحی ریاستیں ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک، جن میں سویڈن، ڈنمارک، ناروے، فن لینڈ شامل ہیں۔ دوسری کرسچن ڈیمو کریٹک جیسے اٹلی وغیرہ اور تیسری لبرل ڈیموکریٹک ریاستیں ہیں، جن میں جاپان وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان جیسے تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کے لیے ایک سوشل ڈیموکریٹک فلاحی ریاست کا ماڈل مثالی ہو سکتا ہے۔ اس ماڈل کو اپنا کر بے پناہ غربت اور نا ہمواریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ موجودہ وسائل کے اندر رہتے ہوئے بھی کریپشن سے پاک ایک نسبتامنصفانہ سماج قائم کیا جا سکتا ہے، جس میں عوام کے سارے تونہیں ، لیکن بیشتر دکھوں کی دوا موجود ہے۔ بقول شاعر

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریزتھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے، بہت لادوا نہ تھے

Comments are closed.