آدم زاد

ملک سانول رضا 

کچھ آدم زاد بیٹھے نظر آئے۔۔۔ کچھ بے زار سے، چند بےقرار سے
ایک کا چہرہ دوسرے کی نگاہوں کے سامنے، تو کسی کی دوسرے کی پُشت پہ نظر
نشستیں بھی بے ترتیب سی اور منبر بھی رکھا بے جا
جیسے گلیڈیئٹر کا تماشا دیکھتا
غلاموں کا ہجوم
مجبوری میں
شہنشاہ کی جی حضوری میں
تالیاں بجاتا۔

یا جیسے
ہمارے بچپنے میں سکولوں کے سٹیج پر رومال سے کبوتر نکالنے والا، 
اپنے منہ سے آگ اگلنے والا، 
ہماری حیرانیوں سے کھیلنے والا، 
اور آخر میں ہماری جیبیں خالی کرنے والا
لیکن اس وقت ہماری ساری حیرتوں کے محل چکنا چور ہو جاتے جب ابا کہتے
یہ ساری لفاظی،
یہ ساری بازی گری
تمہاری جیبیں خالی کرانے کے لئے ہوتی ہے میرے چاند
پھر ابا یہ شعر سناتے جو اس وقت ہمیں سمجھ نہ آتا 
واعظ کے اہتمامِ مناجات پہ نہ جا،
یہ تو تمام بندے پھنسانے کے ڈھنگ ہیں۔

آج دیواریں بتا رہی ہیں 
یہ رومی نہیں 
یہ سکولی نہیں 
یہ ایٹمی پاکستانی 
منظر ہے 
چناؤ ہے،
الیکشن ہے،
ووٹ ہیں،
انتخابات ہیں اور میلے لگے ہیں،
ٹھیلے سجے ہیں اور آخر میں ہماری جیبیں خالی کرانے کا سامان ہے ہماری ضرورتیں بڑھا کر ہماری اشتہا بڑھا کر ہماری مجبوریاں بڑھا کر۔ 

اس شور میں بچپن پلٹ پلٹ کر سامنے منظر میں دخل دیتا چلا آ رہا ہے 
میں صوبہ بناؤں گا، 
میں اپنی ٹوپی سے کبوتر نکالوں گا،  
میں نہریں کھدؤاوں گا، 
میں تاش کو نوٹ بناؤں گا، 
میں نوکریاں دوں گا، 
میں تلوار سے بچے کو دو ٹکڑے کروں گا، 
لیکن
آج تک تاش کا پتا نوٹ نہ بنا
بچے ٹکڑے نہ ہوا 
نہ کبوتر نکلا۔ 
البتہ میری جیب ضرور خالی ہوتی رہی۔ 
اس دوران کہا جاتا کوئی سانس نہ لے،
کوئی بات نہ کرے،
نہ کوئی پہلو بدلے، ورنہ کھیل الٹ جائے گا، بچہ ناحق مارا جائے گا۔

لیکن آج ایک جوان بول پڑا 
مجمعے پر سکتہ طاری ہو گیا 
دیدے پھاڑے ایک دوسرے کو دیکھتے سب سوچ میں پڑ گئے آج تو یقیناً بچہ مارا جائے گا 
جوان بولتا رہا، مجمع سانس روکے سنتا رہا۔

آپ نے ایوب کا ساتھ دیا 
البتہ آپ کی جیپ بدل گئی۔
میں نہ بدلا۔ 

آپ نے بھٹو کو اسی جیپ میں بٹھایا، 
آپ کی جیپ، پجیرو میں تبدیل ہوگئی۔۔ لیکن میں نہ بدلا۔

آپ نے ضیاء کے آگے سر جھکایا، 
آپ کی پجیرو، مِل بن گئی، 
میں نہ بدلا۔

آپ کو نواز نے نوازا، 
آپ کی سلطنت بڑھتی گئی مِلیں لگتی گئیں،
میں نہ بدلا۔  
آپ نے مشرف کو رہبر بنایا تو آپ کا خاندان آسمانوں کو چھونے لگا اور میری لئے زمین تنگ ہوتی گئی

اب تو آپ عرش پہ رب کے قریب ہیں اتنا تو کرم کیجیے

اصرافیل سے صور پُھنکوا دیجیے ،
اب روز روز مرا نہیں جا سکتا ایک ہی دفعہ قیامت بپا کرا دیجیے۔

اب مجمعے کی قوتِ برداشت جواب دینے لگی اور پھر آگ اگلنے والے منہ نے جس کا لباس مشرقی، رعونت مغربی، زباں بھی سرحد پار کی، لہجہ بھی بدیسی، عقیدے سے لے کر نام تک لباس سے لے کر زباں تک ہم مغربی اپنائے ہوئے ہیں حملے سے جو وہاں سے ہوتے ہیں لُٹیرے سے اُدھر سے آتے ہیں۔
آگ کے شعلے لفظوں میں ڈھلنے لگے بلکہ بار بار بہکنے بھی لگے، لیکن میری ماں بولی گرتوں کو ہمیشہ تھام لیتی ہے
بلند آہنگ سے آواز آئی
ابے او دو ٹکے کے بھوکے ننگے انسان 
کیا ہے تیرے پاس،
کون ہے تیرے ساتھ،
یہ دیکھ میرے دائیں طرف تیرے کالج کا پرنسپل بیٹھا ہے
اور جو ہمیں پنکھا جھل رہا ہے وہ تیرا پروفیسر ہے، 
ملک کے بہترین وکیل ہمارے ساتھ ہیں، چوٹی کے کاروباری لوگ ہمارے دوست ہیں۔
مایہ ناز انجینئر ہماری گاڑیاں چلاتے ہیں

تمہارے ساتھ کون ہے چار بیوہ، دو یتیم، آٹھ مزدور، دو کسان، بس یہ ہیں تمہاری قوت۔
اس سے پہلے کہ غصے کی آگ پورے مجمعے کو راکھ بنا دیتی، کانپتے ہاتھ جوڑے، لرزتی ٹانگوں سے ایک بوڑھا کھڑا ہوا اور بولا۔ 

اے شہنشاہِ معظم
اے ملکہ عالیہ
ساری حیاتی جان کی امان مانگتے عرض گزار ہوتے آئے ہیں آج ہماری زندگی اور موت میں فرق نہیں رہا آپ مالک ہیں جو سلوک روا رکھیں۔۔
فقط اتنا کہنے دیں ہے کہ اس بے ادب جوان سے بھول ہوئی ہے آپ کے مقام و مرتبہ کو جان نہیں سکا۔
آپ کی حیثیت کو پہچان نہیں سکا،
آپ طاقت ہیں اس لئے حقیقت ہیں،
آپ جہاں بیٹھیں
جسے بیٹھنے دیں
جسے اٹھا دیں
جسے لٹکا دیں، آپ سے کون پوچھتا ہے۔
رات دن دُکھیاروں، بیماروں کی نیّا کھینے والے نوجوان کو کیا معلوم ضمیر کیا ہوتا ہے،
اصول کسے کہتے ہیں
اقدار کس جانور کا نام ہے
اسے معاف کر دیجیے بادشاہ سلامت۔

میں اسے سمجھائے دیتا ہوں کہ آپ کا ضمیر کیا ہے
آپ کا خمیر کہاں سے اٹھا ہے۔ 
طاقت ور کا ساتھ دینا آپ کا ضمیر ہے۔ سُوکھے تالابوں سے اُڑ جانا آپ کا خمیر ہے۔
کمزوروں کو دبانا آپ کا اصول ہے۔ غریبوں کو پاؤں پہ رکھنا اور طاقتور کے پیروں پہ جھکنا آپ کا فلسفہ حیات ہے۔

پسینے کی بُو اور غربت کی آہوں کے بیچ رہنے والے جوان نے اقبال لہوری کا ایک شعر پڑھ کر سمجھ لیا ہے کہ سارے جعفر غدار اور سارے صادق عیار ہوتے ہیں۔
نانا میری ملکہ معظمہ
نا میرے آقا
اس نادان،
اس نا سمجھ کو کیا معلوم اب غداریوں، وطن فروشیوں کے زمانے لد گئے اب تو ووٹ بِکتا ہے، اب تو مِل لگتی ہے، اب سرمایہ چلتا ہے، جس پہ غلام رقص کرتا ہے۔

آپ نے بالکل سچ فرمایا، کہاں کے اصول،
کہاں کے ضابطے۔
آپ ہزار بار، لاکھوں مرتبہ اُدھر بیٹھیں اِدھر کھڑے ہوں جدھر چلے جائیں آپ کا ضمیر ہمیشہ آپ کا ساتھ دیتا ہے۔
سرکار عالی مقام!
ہمیں بخوبی معلوم ہے محلات کے ائر کنڈیشنز میں ضمیر سکون کی نیند سوتا ہے۔
آپ پارٹیاں نہ بدلیں تو ملک کی حفاظت کیسے ہو گی؟
کاروبار جہاں کیسے چلے گا؟
مملکت کی رکشا کون کرے گا؟
پہلے ہی ہم غریبوں کے ووٹوں، ضابطوں اصولوں کی وجہ سے مملکت دو لخت ہوئی تھی۔ پہلے ہی آپ کے دشمن کی عیاری اور عوام کی نمک حرامی کی وجہ سے آپ جنگیں ہارتے آئے ہیں۔

اے ہمارے ان داتا 
ہم نے ہی تو سرحدوں پر مرنا ہے،
سڑکوں پر زخمی ہونا ہے،
ہسپتالوں میں دم توڑنا ہے۔

ہم اپنے فلسفے طاقوں پہ دھرتے ہیں۔

آپ مملکت چلائیں، اس چلن میں اگر کبھی کبھی ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں، کبھی کبھی ایمان کی تجارت کر لیتے ہیں،
تو مملکت کی خاطر کرتے ہیں،
ہماری خاطر کرتے ہیں۔
معاف کر دیجیے سرکار۔ 
آئندہ گستاخی ہوئی تو ہمیں بھٹوز بنا دینا، ہمیں پھانسی لگا دینا۔

♦ 

Comments are closed.