سرمایہ داری : فطرت کی استعماری تخریب کی واحد مجرم

تحریر: العین باجوAlain Badiou 


انگریزی سے ترجمہ : خالد محمود

مختلف وجوہات کی بنا پر آج یہ بات عام ہوچکی ہے کہ کہ بنی نوع انسان کے خاتمے کا اعلان کردیا جائے۔ایک مثالی مسیحائی سمت میں ماحولیاتی تخریب جاری رہتی ہے تواس برے جانور یعنی انسانی ارادے کی شکاری زیادتیاں جلد ہی اس زندہ دنیا خاتمہ کر دیں گی۔ٹیکنالوجی کی لہر نے تمام کام کی غلط سلط خودکاریت،شاندار ڈجی ٹائیزیشن،خودکار آر ٹ ، قاتل پلاسٹک اور فوق الانسان ذہانت کا وعدہ کر رکھا ہے۔نتیجے کے طور پر، ٹرانس ھیومن ازم اور پوسٹ ھیومن ازم جیسی اقسام نمودار ہوتی ہیں۔اس مناسبت سے یہ حیوانیات کی طرف واپسی ہے۔ چاہے کوئی اس طرف پیشن گوئی تکنیکی ایجادات کی رو سے کرتا ہے یا پھر مادرِ فطرت پر حملوں پرنوحہ کناں ہے۔ 

میں ان تمام پیشن گوئیوں کو نظریاتی جھنجھناہٹ گردانتا ہوں جن کا مقصد انسانیت کو درپیش اصل خطرات کو مبہم رکھنا ہے،یعنی ایک ایسا تعطّل جس کی طرف عالمی سرمایہ داری ہمیں دھکیل رہی ہے۔حقیقت میں یہ وہ سماجی ہئیت ہے جو اکیلی اسے خالص ذاتی منافع سے جوڑتے ہوئے قدرتی وسائل کے استحصال کی اجازت دیتی ہے۔اس وقت انواع حیات کو درپیش خطرات،آب و ہوا کاقابو سے باہر ہونا اور تازہ پانی کے ذخائر کا ایک نایاب خزینہ بنتے جانا ،یہ سب ارب پتی شکاریوں کے بیچ بے رحم مسابقت کی ضمنی پیداوار ہیں۔اور سائنسی ترقی کی قابل فروخت ٹیکنالوجی کی غلامانہ بد نظمی کی بھی کوئی الگ وجہ نہیں ہے۔

ماحولیات پر خطبات جو اپنی مبالغہ آمیز پیشین گوئیوں کے باوجود اُن اطمینان بخش وضاحتوں کو مہمیز کرتے ہیں جو اکثر اوقات ایسا پراپیگنڈا بن کے رہ جاتا ہے جس سے ملٹی نیشنل کمپنیاں اور وہ ممالک مستفید ہوتے ہیں جو اپنے عظیم تر منافع کی خاطر اپنی تجارتی اشیاء کے خالص اور قدرتی ہونے کا آپ کو بردارانہ یقین دلانا چاہتے ہیں۔علاوہ ازیں، ٹیکنالوجی کی غیر تعقلی عقیدت اوراس میدان میں مسلسل کامیابیاں جس میں ڈجیٹل انقلاب سب سے نمایاں ہے ہمیں بیک وقت یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ ایک طرف ہم اس آفاقی آلسی جنّت کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں مدد گار روبوٹس کی بدولت کوئی کام نہیں رہے گا اور دوسری طر ف الیکٹرانک خیال انسانی عقل کو پیس کے رکھ دے گا۔

آج ہمیں کوئی ایسا میگزین نہیں ملتاجو اپنے حواس باختہ قارئین کو قدرتی ذہانت پر مصنوعی ذہانت کی ناگزیریت پیش نہ کرتا ہو۔فلسفے کے آغاز سے ہی ہم اس تحیر میں ہیں کہ لفظ ’’قدرت‘‘ کیا بتاتا ہے۔اسکا مطلب ہو سکتا ہے، رومانوی خواب آور غروب آفتاب ؛ لوکریشس کی ایٹمی مادیت(De Natura Rerum )؛اشیاء کی قربت اور دوستی؛سپینوزا کی وحدت الوجودیت؛کسی ثقافت کا معروضی معکوس؛ شہری مشتبہ چالاکی کے برعکس دیہاتی دہقانی منظر(فلپ پیٹن نے کہا تھا :دھرتی ، یہ جھوٹ نہیں بولتی)؛ بائیالوجی طبیعات سے اپنے فرق میں؛تکوینیات کی نسبت ہمارا ذرہ برابر کرّہ ارض؛دنیاوی عدم تغیر بمقابلہ اختراعی اضطراب؛ فطری جنسیت بمقابہ گمراہی ۔

مجھے خدشہ ہے کہ آج قدرت، مندرجہ بالا تمام پرسکون باغات ،حویلیوں،جنگلی حیات کی سیاحتی دلکشی،ساحل اور پہاڑ پر ایک دلکش موسم گرما گزارنے کا نام دیتی ہے ۔اور کون یہ تصور کر سکتا ہے کہ انسان فطرت کے حوالے سے قابلِ مواخذہ ہے۔انسان جو ایک عام کہکشاں کے کنارے پر ایک اوسط نظام شمسی کے ثانوی سیارے پر ایک چھوٹی سی سوچنے والی چِپ ہے۔

فلسفے نے آغاز سے ہی تیکنیک اور فن کے متعلق سوچ بچار کیا تھا۔یونانیوں نے تکنیک اور ماہیت(Techne & Phusis ) کی جدلیات پر توجہ مرکوز رکھی۔انہوں نے انسانی جانور کو ایک نر سل کی نوعیت پر رکھا۔سب سے کمزور مگر سوچنے والی نرسل۔جس کا مطلب ہے کہ پاسکل سوچتا ہے: فطرت سے زیادہ طاقتور اور خدا کے نزدیک۔بہت طویل عرصے تک یونانیوں نے دیکھا کہ حساب رکھنے کے قابل جانور مادی نظام میں بہت ترقی کرے گا۔روبوٹس کے بارے میں بار بار کہا جاتا ہے کہ یہ مشین میں ترتیب دیے گئے حساب کے علاوہ اور کیا ہیں؟ حرکت میں قلمائے ہوئے اعداد؟ ہم جانتے ہیں کہ وہ ہم سے زیادہ تیزی سے حساب کر لیتے ہیں مگر یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے اسے صریحاً اسی مقصد کے لئے بنایا ہے۔

یہ بحث احمقانہ ہو گی کیونکہ ایک کرین بھاری ستون کو بہت بلندی پر لے جاتی ہے۔انسان ایک ایسے مضبوط پٹھوں کے مالک ٹرانس ھیومن کی تخلیق روکنے کے قابل نہیں، جو برق رفتاری سے حساب کرتا ہے یہ ناقابلِ تسخیر ذہانت کی نشانی سے زیادہ نہیں ہے۔ٹیکنولاجیکل ٹرانس ھیومن ہمیں دوبارہ سے دقیانوسی سائنس فکشن فلموں کا ان تھک کردار بنا دیتا ہے جس میں خالق اپنی تخلیق سے مغلوب ہو جاتا ہے۔وہ یا تو اس Ubermensch کی آمد کے سحر میں مبتلا ہے جس کا نطشے کے وقتوں سے انتظار ہے یا پھر اس سے خوفزدہ ہے اور مادر فطرت Gaia کے دامن میں پناہ لیتا ہے۔

آئیے چیزوں کو ایک قدم آگے لے چلتے ہیں۔انسانیت کو پچھلے چار یا پانچ ہزار سالوں سے ارکان ثلاثہ نے منظم کیا ہے: نجی ملکیت جو ایک قلیل اشرافیہ کے لئے بے پناہ دولت کا ارتکاز کرتی ہے؛ خاندان جس کے ذریعے دولت ورثے میں منتقل ہوتی ہے؛ ریاست جو فوج کے ذریعے جان اور مال کی حفاظت کرتی ہے۔یہ ارکان ثلاثہ ہیں جو ہماری نوع کی پتھر کے زمانے سے تشریح کرتے ہیں اور ہم اب بھی وہیں ہیں۔بلکہ پہلے سے زیادہ۔سرمایہ داری نیولِتھک ایج کی عصر ی شکل ہے۔یہ مقابلے منافع اور دولت کے ارتکاز کے ذریعے ٹیکنالوجی پر اجارہ داری عدم مساوات ،سماجی بیہودگی،جنگی قتلِ عام ،مضر نظریات کو انتہائی بلندی پر لے جاتی ہے۔ٹیکنالوجی کا استعمال ہمیشہ کلاس کے تنظیمی ڈھانچے کی تاریخی دسترس میں آتا ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تیکنیکی ایجادات ابتدائی حالات تھے اور پتھر کے زمانے کی مقتدرہ کا حتمی نتیجہ نہیں تھے۔ اگر ہم جاندار انواع کی منزل پر غور کرتے ہیں،منظم آبادیاں،زراعت،مویشی اور گھوڑوں کا پالنا،ظروف سازی،کانسی اوردھاتی ہتھیار،لکھنا،قوموں میں بٹنا،یادگار فن تعمیر،وحدانی مذاہب کم از کم اتنی ہی اہم ایجادات ہیں جتنا کہ سمارٹ فون یا ہوائی جہاز۔تاریخ میں جو بھی شے انسانی ہے تعریف کے لحاظ سے مصنوعی ہے ورنہ ہم پتھر کے زمانے کی انسانیت جس سے ہم اب واقف ہیں معاملہ نہیں کریں گے۔بلکہ حیوانیت کے ساتھ مضبوط قربت کی مستقل حیثیت جو طویل مدت تک قائم رہی غالباً خانہ بدوش قبائل کی صورت دو لاکھ سال تک قائم رہی۔

ایک خوفناک دقیانوسی قدامت پسندی اتنی ہی دیر سے موجود رہی ہے جتنی دیر قدیم کمیون کا مغالطہ آمیز تصور قائم رہا ہے۔آج ہم جانتے ہیں کہ دوستانہ قدیم معاشروں میں بچّے ،عورتیں ،مرد اور ضیعف افراد، چوہوں،مینڈکوں اور ریچھوں سمیت بردارانہ انداز سے رہتے تھے۔وہاں کچھ بھی مصنوعی تھا ہی نہیں۔یہ سب کچھ بہرحال ایک مضحکہ خیز رجعت پسند پراپیگنڈا ہے جب کہ ہر چیزاس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ مذکورہ معاشرے تشدّد سے بھرپور تھے۔کیونکہ وہ مستقل طور پر اپنی بقا کی خاطر کمزور کر دینے والی ضروریات کے نیچے جُتے رہتے تھے۔

آج یاد کریں تو کپکپی طاری ہوتی ہے کہ مصنوعی کا قدرتی پر اور روبوٹ کا انسان پر ، غلبہ بھی بعینہ غیر مستحکم رُجعت اور حقیقی بے معنویت ہے۔آئیے ان دہشتوں اور پشین گوئیوں کا مقابلہ کرتے ہیں:ایک سادہ کلہاڑی،ایک تربیت یافتہ گھوڑا اور آبی پودوں کا نشانیوں بھرے کھیت اور انگلیوں سے تیز گنتی کرنے والا گنتارے کا کیا ذکر جو اس سارے معاملے میں پہلے سے ٹرانس اور پوسٹ ھیومن ہے۔

ہمارے عہد کا سوال یقیناً قدامت پرستی کی طرف یا ٹیکنالوجی کے غلبے کی وجہ سے مسیحانہ دہشت کی طرف واپسی ہے اور نہ ہی سائنس فکشن کے فاتح روبوٹ کی جانب مریضان توجہ ہے۔اصل سوال ہے پتھر کے زمانے سے مرحلہ وار اور فوری خروج کے امکانات ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہزار سال پرانا یہ نظام،اربوں انسانوں کی خستہ حالی کو برداشت کرتے ہوئے ،پیشوائی اور مقابلے کو تقویت دیتا ہے ؛ اس پر ہرقیمت پر قابو پانا ہے۔نہ کہ اس جنگی جنون کو کھلا چھوڑ دیا جائے جس کا نیولِتھک ظہورٹیکنالوجی کی آڑ میں 1914-1918 اور 1939-1945 میں لاکھوں انسانوں کی موت کی صورت ہوا تھا جو اب مزید بڑھ جائیں گی۔ 

میرے لئے یہ سب محض ٹیکنالوجی یا قدرت سے متعلق نہیں ہے ۔بلکہ عالمی پیمانے پر معاشروں کی نئی تنظیم ہے۔اب یہ تجویز کرنے کاوقت ہے کہ غیرنیو لِتھک سماجی تنظیم ممکن ہے: انسانی زندگی کی ضروریات کے لئے تمام پیداواراور جائیداد کو نجی ملکیت میں دینے کی بجائے سب کے استعمال کے لئے عام رکھا جائے۔وراثت کے لئے خاندان نہ ہو اور مرتکز دولت کے انتقال کے لئے میعادی انتقال نہ ہو۔اشرافیہ کے تحفظ کے لئے کوئی ریاست نہ ہو۔کام کے لئے تنظیمی ڈھانچہ نہ ہو۔قومیں اور معاندانہ تشخص بھی نہ ہو۔ہر چیز کی اجتماعی تقدیر کے لئے اجتماعی تنظیم ہو۔اس کا ایک نام ہے ، خوبصورت نام :کمیونازم۔ انسانی زندگی پرنیو لتھک سماج جوپابندیاں عائد کرتے ہیں سرمایہ داری اس کا آخری مرحلہ ہے۔یہ نیولِتھک کاآخری پڑاؤ ہے۔اے خوبصورت انسانی جانورایک اور کوشش کرو تا کہ تم اپنے پانچ ہزار سالہ دور سے ایجادات کو مٹھی بھر لوگوں کی لگاتار خدمت سے باہر نکال سکو۔ 

مارکس کے بعد سے دو صدیاں گزر گئیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہمیں لازماً وہ نیا دور شروع کرنا ہے جس میں ناقابلِ یقین ٹیکنالوجی سب کی مساوی خدمت کے لئے،کام کی مساوی تقسیم،ہر شے میں اشتراک اورہر ایک کی دانش کے مطابق تعلیمی تصدیق میسر ہو۔

بیمار سرمایہ داری کی بقا کی خاطرنئے کمیونزم کی ہر پہلو سے ہر جگہ مخالفت کی جاتی ہے ۔بظاہر یہ عالمی جدیدیت اصل میں پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ جسے قدیم بلکہ بہت قدیم کہنا چاہئے۔
As published in Le Monde, 26. July 2018

Comments are closed.