مُلا گردی اور آسیہ مسیح

آمنہ اختر

مولویوں کا سیلاب بدتمیزی ہے کہ جس کو روکنے کے لئے پاکستانی عام لوگوں کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔کچھ ڈرے بیٹھے ہیں کچھ اندر ہی اندر کڑھ رہے ہیں مگر حل کسی کے پاس نہیں ہے۔پاکستان کی عوام کا حال تو یوں ہے کہ کسی نے ایک چھپکلی پکڑی اب اس کو وہ چھوڑے تو لوگ بزدلی کے طعنے دیتے ہیں اگر کھائے تو زہر موت کا سبب بنتا ہے ۔

آج کے پاکستان کی صورت حال دیکھ کر لگتا ہے مذہب کے نام پر بنائے گئے ملک کو اب سنبھالے رکھنا بہت مشکل ہے ۔ایک تو ماحول کی آلودگی ،آبادی کا بوجھ ،دوسرا مذہب کا طوق لوگوں کے گلوں میں ڈال کر اس کو وقت کے مطابق ڈھیلا کرنا کوئی بھول ہی گیا ہے کہ کسی دن لوگوں کی گردنیں تعداد میں بھی زیادہ ہوں گی اور موٹی بھی مگر افسوس صد افسوس اب تو کاٹنے کے علاوہ کوئی اور حل نظر ہی نہیں آتا۔ مگر کون اور کس کی گردن کاٹے گا ۔ اس کا فیصلہ کرنے والا بھی کوئی نہیں ۔بس بغیر کسی سمجھ بوجھ کے ہر کوئی ایک دوسرے کی گردن کاٹنے پر لگا ہے ۔اکہتر سال پہلے کے مسائل آج زیادہ گمبھیر لگ رہے ہیں پہلے تو لوگوں سے ہجرت کروائی گئی تھی ۔کیونکہ ہندوستان میں غیر مسلموں نے مسلمانوں کو تنگ کیا ہوا تھا ۔اب ان چھوٹی اقلیتوں کو کہاں ہجرت کروانی ہے جنہیں مسلمانوں نے تنگ کیا ہوا ہے ۔ اور کیسے ہو گی ،یقینا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

جب سماج میں زبان مذہب اور ثقافت کے درجے ہوں گے تو اس میں تبدیلی کی گنجائش انتہائی کم ہو جاتی ہےبرداشت کا پیمانہ بہت مخصوص اور خیالات جمود کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ایک منجمد خیالات کے سماج میں انسانی دماغ تازہ ہوا کو محسوس کرنا ختم ہو جاتے ہیں ۔ نئے خیالات تو دور کی بات پہلے سے موجود خیالات کی کانٹ چھانٹ بھی کرنا ممکن نہیں رہتی ۔انسانی دماغ اور زندگی میں تبدیلی کیلئے مختلف مذاہب ،زبانوں اور ثقافت کا امتزاج ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کی ایک زندہ حیات کے لیے زندہ رہنے کے لئے ہوا پانی اور نیند ۔

آسیہ مسیح کی مقدمے کا چرچا ہوا ۔ پاکستانی خبروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ اس نے کام کی جگہ پر پیاس لگنے کی صورت میں اپنی مزدور ساتھیوں کے گلاس میں پانی پی لیا تھا۔مسلمان مزدور عورتوں نے اس پر اعتراض کیا جس سے بات اس قدر بڑی ہوئی کہ آسیہ مسیح کو محمد کی شان میں کچھ غلط کہنے پر جیل کی قید ہوگیئ ۔اب جب کہ شواہد کے مطابق بات سامنے آئی ہے اور آسیہ مسیح کی بے گناہی ثابت ہونے پر اسے آزاد کیا جائے تو مولویوں نے اپنا شور مچا رکھا ہے۔ان مولویوں کو کس قانون کے تحت اور کس نے حق دیا ہے کہ وہ ملک کی املاک اور عام پاکستانی مسلمان یا اقلیتی پاکستانی کی زندگی کا خانہ خراب کریں ۔

آسیہ مسیح کو کسی بیرون ملک بھیج کر سیاسی پناہ دلا دینا مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ اس کو پاکستان کے اندر ہی آزاد زندگی کا موقع دیا جاے تو تبدیلی ہو گی ۔ اس کو اور اس کے خاندان والوں کو آزاد زندگی کا حق اور حل ملنا چاہیے ۔ ہمیں اس بات سے باخبر رہنا چاہیے کی آسیہ مذہبی اور غیر شعوری سوچ کا پہلا شکار نہیں ہے اس سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے معصوم انسان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور چڑھتے رہیں گے ۔

جب تک مذہب مولوی کے ناکارہ اور غیر اخلاقی سوچ سے باہر نہ نکلا ۔ تب تک انسان انسان کی بے حرمتی کرتا رہے گا ۔ آسیہ مسیح ہو یا ایک عام پاکستانی مسلم عورت مولویوں کی اجازت ہمارے لیے کوئی معنے نہیں رکھنا چاہیے۔ان مولویوں کی حدود مسجد کی درودیوار سے باہر بالکل نہیں ہونی چاہیں ۔انسانی مسائل اور ذاتی جھگڑے کس طریقے سے نبٹانے ہیں یہ حکومت کے ادارے ہی کر سکتے ہیں اور انہیں کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گا اور ہمیں عام عوام کو آج ہی مل بیٹھ کر ان مولویوں کو ان کے مدرسوں اور مسجدوں میں دھکیل کر ان کی بے جا کی ملکی مسائل یا مذہبی حدود میں مداخلت کو بند کرنا ہو گا۔

وقت گواہ ہے وہ ملک جنہوں نے مذہب اور ثقافت کو انسان کی ضرورت جانا ہے ۔انہوں نے انسانوں کو تندرست رکھنے کے لئے ان کی ذہنی اور روحانی ضرورت کو مسجدوں ،گرجاگروں،مندروں ۔سیناگو گ وغیرہ کی عمارتیں تعمیر کر کے پورا بھی کر رہے ہیں بلکے ساتھ ہی اسی اصول کو اپنائے اور بہتر رکھنے کے لئے مسلسل سماجی اور حکومتی سطح پر بحثیں باقاعدگی سے کرواتی ہیں ۔اگر مذہب کو ان جدید ملکوں میں سرکاری درجہ نہیں ہے تو وہاں اس کی تعلیم اور عملی طور پر اپنانے میں بھی کسی طرح کی پابندی بھی نہیں ہے۔

Comments are closed.