آسیہ بی بی کی کہانی انہی کی زبانی

حسن مجتبیٰ

ضلع ننکانہ کے چھوٹے سے گاؤں اٹاں والی کی نورین (آسیہ بی بی) کو نو سال برس قبل کیا پتہ تھا کہ اسے اپنے گاؤں کے قریبی کنویں سے بھرے پانی کے گلاس کی وجہ سے توہین مذہب کے قوانین کے تحت سزائے موت سنائی جائے گی۔پہلے شیخوپورہ جیل کی دیواروں اور پھر اس کی کال کوٹھری میں اپنی زندگی کے نو برس گزارنے پر مجبور آسیہ بی بی کو یقین نہیں تھا کہ اک دن اس کی بے گناہی پیارے پاکستان جیسے ملک میں ثابت ہو جائے گی۔

اسی کال کوٹھری سے آسیہ بی بی نے اپنے دل کی حالت کچھ یوں بیان کی تھی’’میں واقعی نہیں بتا سکتی کہ میرے محسوسات کیا ہیں، خوف تو ہے لیکن اب میں اس سے اس طرح نہیں کانپتی جیسے یہ خوف پہلے میری چھاتی کو لرزایا کرتا تھا۔ اب میں پرسکون ہوں۔ اب میں پہلے کی طرح بات بات پر پریشان نہیں ہوتی۔ آنسو اب بھی میری آنکھوں میں ہیں اور بہت ہیں لیکن میں سسکیاں نہیں لیتی۔ میرے آنسو میرے کوٹھری کے ساتھی ہیں۔ وہ مجھے یاد دلاتے ہیں کہ میں نے ہمت نہیں ہاری۔ نیز کہ میں ناانصافی کا شکار ہوں اور میرے آنسو مجھے یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ میں بے قصور ہوں‘‘۔

یہ الفاظ آسیہ بی بی کی اپنی کہانی کی کتاب میں ہیں جو اس کی قید کے دوران اس کی دوست بن جانے والی ایک خاتون فرانسیسی صحافی ایزابیلا تولے نے اس کے ساتھ  اس امید سے لکھی کہ شاید یہ  کتاب آسیہ بی بی کو بچا لے، شکریہ مادام ازابیلا!۔

کتاب کا نام ہے پیالے بھر پانی پر سزائے موت

اس فرانسیسی صحافی نے آسیہ بی بی کی قید اور پھر سزائے موت کی خبریں میڈیا میں پڑھیں اور پھر اسے آسیہ بی بی سے ہمدردی پیدا ہوئی۔ یہ ایک عورت کی عورت سے ہمدردی تھی، ایک انسان کی دوسرے بے بس انسان سے ہمدردی تھی۔ اس خاتون صحافی نے پاکستان آنے اور آسیہ بی بی سے دوستی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن خاتون صحافی آسیہ بی بی سے کبھی ملی نہیں اور نہ ہی مل سکتی تھیں۔ پاکستانی حکام کیسے چاہتے کہ ایک غیرملکی صحافی کو توہین مذہب کے الزامات میں سزائے موت کا انتظار کرنے والی اسیرہ سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ لیکن اس صحافی خاتون نے آسیہ بی بی سے دوستی کا ایک ہی طریقہ نکالا کہ آسیہ بی بی پر کتاب لکھی جائے۔ آسیہ بی بی کی کہانی آسیہ بی بی کی زبانی۔

سابق صدر آصف علی زرداری کے دور صدارت میں مقتول وفاقی وزیر شہباز بھٹی اس سے قبل آسیہ بی بی کے وکیل بھی تھے اور وہ محض اس مسیحی عورت کے وکیل ہونے کی بنا پر طالبان کے ہاتھوں قتل ہوئے، جیسا کہ انہوں نے اس کے قتل کے ذمہ داری قبول بھی کی۔ تو شہبار بھٹی کی معرفت فرانسیسی صحافی خاتون اور سزائے موت کی قیدی آسیہ بی بی کے مابین رابطہ ہوا۔

طے یہ ہوا کہ ہر دو ہفتے بعد آسیہ بی بی سے ملاقات کو جانے والا اس کا شوہر عاشق مسیح فرانسیسی صحافی کے سوالات جیل  لے جائے گا اور آسیہ بی بی کے جوابات لے آئے گا۔ اسی طرح آسیہ بی بی کی کہانی مکمل ہوئی جسے مکمل صیغہء راز میں رکھا گیا۔ بقول شریک مصنفہ فرانسیسی صحافی خاتون کی کتاب کا ایک ایک صفحہ آسیہ بی بی کو پڑھ کر سنایا گیا اور اس پر ان کے دستخط بھی لیے گئے۔

ایک سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب آسیہ بی بی کی نو برسوں پر مشتمل یادداشتوں پر مشتمل ہے اور اس کا انگریزی سمیت کئی دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ اس کتاب کی تمام رائلٹی آسیہ بی بی کے شوہر اور بچوں کو ملی ہے۔ بقول  اس فرانسیسی صحافی کے اس کتاب سے حاصل ہونے والی آمدنی آسیہ بی بی کے خاندان کے گزارے کے لیے کافی ہے اور اس سے آسیہ بی بی کی جسمانی طور پر معذور بیٹی کا بہتر علاج ممکن ہوا۔

آسیہ بی بی اس کتاب میں کہتی ہیں، ’’میں نے کبھی توہین نہیں کی۔ میں بے قصور ہوں۔ میں نے زندگی بھر ایسا کوئی جرم نہیں کیا۔ میں ساری دنیا کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں پیغمبر اسلام کا احترام کرتی ہوں۔ میں ایک عیسائی ہوں اور خدا پر یقین رکھتی ہوں لیکن سب کو کسی پر بھی یقین کا حق حاصل ہے‘‘۔

آسیہ بی بی نے اسی کتاب میں لکھا تھا کہ اس کی قید محض جیل کے دیواروں کے پیچھے ہونا نہیں بلکہ اسے اپنے بچوں سے جدا کرنے کے مترادف ہے، جنہیں وہ پنجابی شہزادوں کی کہانیاں سنایا کرتی تھیں، جو اس نے اپنی ماں سے سنی تھیں۔

کسے خبر تھی کہ وہ قیدی عورت، جس نے کہا تھا کہ وہ اب آسمان پر ستارے کبھی نہیں دیکھ سکے گی، خود ایک دن ستارہ بن جائے گی۔

امید و انصاف کا ایک ستارہ پاکستان کے اندھیرے افق پر بھی شاید چمکا ہے۔ لیکن کیا آسیہ بی بی کی طرح ملتان جیل میں قید پروفیسر جنید حفیظ اور ان جیسے کئی دیگر ملزمان بھی دیکھ پائیں گے؟

DW.COM

Comments are closed.