چیف جسٹس کا توہین آمیز رویہ

لیاقت علی ایڈووکیٹ

ہیلتھ کئیرکمیشن کے بورڈ آف کمیشن کے ارکان کی نامزدگی کے بارے میں پٹیشن کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثا رنے انتہائی عامیانہ اندازمیں پوچھا کہ کہاں ہےحسین نقی؟۔

جب حسین نقی روسٹرم پرآئےتوچیف جسٹس نےانتہائی غصیلےاوربازاری اندازمیں ان سے پوچھا آپ کیا ہیں؟ چیف جسٹس کا حسین نقی سے یہ پوچھنا کہ آپ کیا ہیں اس بات کا اظہارتھا کہ انھوں نےضابطہ دیوانی (سول پروسیجر کوڈ )کےسوا کبھی کچھ نہیں پڑھا اوران کا سماجی اور سیاسی علم نہ ہونے کے برابرہے۔

حسین نقی پاکستان میں سیاسی اورجمہوری حقوق کے لئے کی جانے والی جدو جہد کا نام ہے۔ حسین نقی کوئی ایک شخص نہیں بلکہ وہ تحریک ہے جو پاکستان کے شہریوں کے لئے بلا لحاظ عقیدہ اورسیاسی وابستگی مساوی سماجی، قانونی اورآئینی حقوق چاہتی ہےاوریہ تحریک بلا توقف ہرعہد میں جاری رہی ہے۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ چیف جسٹس اس سے بے خبر ہیں۔دراصل چیف جسٹس پاکستان کے شہریوں کے آئینی اورقانونی حقوق کے لئے برپا کی گئی کسی تحریک کا حصہ کبھی نہیں رہے۔ بطوروکیل وہ اشرافیہ کے وکیل رہے اوراسی اشرافیائی تعلق کی بنا پر انھیں ہائی کورٹ اوربعد ازاں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا۔ان کی پیشہ ورانہ ترقی اور بطور جج تقرری میں نواز شریف کا بہت اہم اور بنیادی رول ہے۔

حسین نقی نے چیف جسٹس سے جب یہ کہا کہ ان کی بات سنی جائے تو چیف جسٹس نےانتہائی متکبرانہ اندازمیں کہ آپ کی جرات کیسے ہوئی ہم آپ کو توہین عدالت کا نوٹس دیں گے۔جس پر حسین نقی کو عدالت سے معافی مانگنا پڑی۔ چیف جسٹس کی حسین نقی پر برہمی کا موجب جسٹس( ریٹائرڈ ) عامررضا اے خاں بنے تھے جو ہیلتھ کئیر کمیشن کے چئیرمین ہیں۔

حسین نقی نے بطور رکن ہیلتھ کئیر کمیشن چئیرمین سے اختلاف کیا تھا اور مبینہ طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ استعفی کے مطالبے کو چیف جسٹس نے جسٹس عامر رجا اے خان کی توہین قراردیتے ہوئے حسین نقی کو اپنے غصے اور توہین کا نشانہ بنایا۔

جسٹس عامر رضا اے خان ہماری عدلیہ کا ایک سیاہ کردار ہیں۔یہ صاحب بھٹو کے خلاف پی۔این اے کی تحریک کےدوران وکلا کے پلیٹ فارم سے بہت زیادہ سرگرم عمل تھے۔ جب جنرل ضیا نے مارشل لا نافذ کیا تو یہ مارشل لا کو خوش آمدید کہنے والوں میں پیش پیش تھے۔جسٹس یعقوب علی خان چیف جسٹس سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے کے بعد بننے والے چیف جسٹس شیخ انوارالحق ،جسٹس عامر رضا اے خان کے خالو تھے۔

مارشل لا حکام نے انھیں ایڈووکیٹ جنرل اور بعد ازاں ہائی کورٹ کا جج بنایا تھا یہ صلہ تھا بھٹو کے عدالتی قتل کا جس میں ان کے خالو نے بنیادی رول ادا کیا تھا۔ نوازشریف نے جسٹس عامر رضا اے خان کو جنرل ضیا کا ورثہ سمجھتے ہوئے گلے سے لگایا ہوا تھا اور انھوں نے ہی انھیں ہیلتھ کئیر کمیشن کا چئیرمین بنایا تھا۔

عدالت میں وہ تمام ججز جو اپنا رشتہ غیر جمہوری قوتوں سے جوڑتے ہیں ان کے لئے جسٹس عامر رضا اے خان رہنما اور گرو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حسین نقی پر چیف جسٹس کی برہمی کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.