پاکستان میں غربت کی ذمہ دار پاک فوج ہے

پاکستانی میڈیا کے اینکر اور اس کے پروردہ دانشور و صحافی ہر وہ گفتگو کر سکتے ہیں جس میں سیاستدانوں، جن میں اب عمران خان کو بھی شامل کر لیا ہے، کو چور و کرپٹ کہا جائے لیکن اصل ایشوز پر خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں۔

چند دن پہلے بین الاقوامی ہفت روز ہ میگزین اکنامسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام کی غربت کی ذمہ دار پاکستان کی فوج ہے۔ پاکستان کے وسائل جو صحت ، تعلیم اور سماجی انصاف پر خرچ ہونے چائیں وہ ہتھیاروں کے حصول اور غیرضروری مہم جوئیوں پر خرچ ہورہے ہیں۔ پاکستانی ریاست نے تین بڑی جنگیں لڑیں لیکن بری طرح ناکام رہی لیکن اس کے باوجود ریاست اپنی پالیسیوں کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔

میگزین کی رپورٹ کے مطابق ۲۰ بلین سے زائد بچے سکول نہیں جاتے۔ پچھلے ۲۰ سالوں میں انڈیا اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کی ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستانی ریاست اگر اس دفعہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینےمیں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ ۲۲ واں موقع ہو گا لیکن اس کے باوجود پاکستان معاشی طور پر بحران کا شکار ہے۔

قرضہ کسی بھی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ قرضہ کس مد میں خرچ ہورہا ہے اگر تو یہ پیداواری سرگرمیوں میں استعمال ہو تو ملک کی معیشت ترقی کرتی ہے اور اگر اس سے ریاست ہتھیاروں کے حصول اور جہادی سرگرمیوں پر خرچ کرے تو پھر یہ وبال بن جاتا ہے۔

اکنامسٹ کی رپورٹ کے مطابق ریاستی پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے۔ ریاستی اداروں نے اپنی مہم جوئیوں کے لیے مخصوص مذہبی گروہوں کی سرپرستی کی انہیں ہتھیاروں سے لیس کیا اور نہ صرف جنوب ایشیائی خطے کو جہنم بنایا بلکہ اپنے ملک میں اقلیتوں کا قتل عام بھی کیا۔ دہشت گرد ی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اپنے ہی ملک کے ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والوں کو تحفظ دیا گیا۔ مرنے والے بچوں کے والدین آج بھی احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کے قاتلوں کو سامنے کیوں نہیں لایا جاتا۔

پاکستانی میڈیا کو بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کی تو بہت تشویش ہے ۔لیکن مذہبی قوتیں ملک کے اندر کیا کھیل کھیل رہی ہیں اس پر بات نہیں کرتے۔ پاکستانی ریاست کی پروردہ مذہبی جماعتوں نے ملک کی تمام اقلیتوں ہندو، سکھ ، عیسائی، شیعہ ، ہزارہ اور احمدیوں کا قتل عام کیا ہے۔ معمولی اختلاف پر گائوں کے گائوں ، کالونیاں اور گھر تک جلا دیے ہیں ۔ سندھ میں نوجوان ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے انہیں زبردستی مسلمان کیاجارہا ہے۔ ریاست اپنے ہی شہریوں کو جبری طور اغوا کر رہی ہے جن میں سے کچھ کی مسخ شدہ لاشیں کسی ویرانے سے مل جاتی ہیں ۔

قیام پاکستان کے بعد ہماری ریاست نے ایک بیانیہ تیار کیا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور بیرونی طاقتین اس قلعے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سازشیں کررہی ہے۔ لہذا ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے کے ہمیں ایک بہترین فوج اور ہتھیار چاہیں جو دشمن کے دانت کھٹے کر دے۔ اس مقصدکے لیے ملک کے تمام وسائل ہتھیاروں کے حصول پر صرف ہونے لگے ۔ آج ستر سال ہو گئے ہیں یہ سلسلہ تھمنے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔

لیکن ان ستر سالوں میں عوام کو احساس ہو گیا ہے کہ اس ملک کو ریاستی اداروں کی پالیسیاں ہی برباد کر رہی ہیں۔ جو سیاستدان اس بیانیے کے برعکس عوام کی بھلائی کا بیانیہ پروموٹ کرے یا ان ریاستی اداروں کی جہادی سرگرمیوں کو لگام دینے کی کوشش کرے تو وہ کرپٹ ، چور ، ملک دشمن اور غدار ہوتا ہے۔ویسے بھی ریاستی ادارےاپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیےعمومی طور پر پاکستان کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار سیاستدانوں کو ٹھہراتے ہیں۔

Comments are closed.