ہمارے قومی عفریت

شہزاد عرفان

پچھلے دنوں پنجاب میں سرکاری ریاستی دہشتگردی کا بدترین واقعہ ہوا  پورے  ملک نے ایک قوم کی طرح اس درد کی لہر کو اپنے اندر محسوس کیا ـ دیگر صوبوں میں اس طرح کے آئے دن واقعات پر  کیا ہم  اس درد کو  ایسے ہی محسوس کرتے ہیں ؟  جواب نفی میں ہے۔ ہم یہ کبھی نہیں جان پاتے  کہ بلوچستان سندھ اور پشتون خواہ اور اب  پنجاب میں بھی ہمارے   فوج کے ادارے کس قانون و آئین کے تحت لوگوں کو گھروں میں گھس کر انہیں اُٹھا لے جاتے ہیں ۔

انھیں کس عدالت میں کب  اور  کیسے پیش کیا گیا ہے ؟ پیش بھی کیا گیا ہے یا  نہیں ؟ یا پھر  وہ  لاشیں جو مہینوں بعد پہاڑوں پر گلی سڑی ملتی ہیں  انہیں وہاں کون اور کیوں چھوڑ جاتا ہے ؟۔   جنکے ورثاء خواتین اور بچے  وہ جو کبھی کراچی کی سڑکوں پر تو کبھی بلوچستان کی اور پھر آخر میں اسلام آباد کی سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ احتجاج مہینوں بھر بلکہ سالوں بھر سے چل رہے ہیں  حکومتیں چھینی جا رہی  ہیں بنائی جا  رہی ہیں۔

آرمی چیف اپنی مدت ملازمت پوری کر کے کب کے مکہ مدینہ کی گلیوں میں اسلام کا سپاہی بن کر حجازیوں سے ماہوار تنخواہ پر فائز ہوچکے ہیں ۔ ان کی جگہ نئے فوج کے   چیف کب سے پاکستان کی کمان سنبھال چکے۔ جج صاحبان سرکاری حُکم کی تعمیلات میں پاکستان کو مدینے کی ریاست بناتے اور اسلامی ڈیم کا  چندہ کٹھا  کرتے  اپنے تاریخی فیصلے رقم  کرکے  ریٹائرڈ ہوکر گھر جا چکے ان کی جگہ نئے تیارشدہ ججوں نے بھی اپنی ڈیوٹیاں سنبھال لیں مگر ان مظلوم و لاچار بیواؤں یتیموں کی آہ و پُکار سننے والا کوئی ابھی تک  مائی کا لعل پیدا نہیں ہوا    ۔ ہمیں یہ سب کچھ  میڈیا نہیں دکھاتا  اور نہ ہی انہیں اجازت  اور جرائت ہے کہ وہ  ہمارے سانجھے درد کے احساس کو جگا پائے ۔

جن چند  ایماندار صحافیوں نے جرات کی بغاوت کی وہ  معتوب ٹھہرے وہ  اب یو ٹیوب  اور انٹرنیٹ پر اپنے پروگرام کر رہے ہیں  جو باقی بچے ہیں وہ خوشامد دولت اور چاپلوسی میں  ٹی وی اینکرز  کے نام سے عوام کے روحانی پیشوا  کا درجہ رکھتے ہیں یہ سیاسی پیر اور پنڈت بھی ہیں اسلامی سکالرز بھی ہیں گانے بھی گاتے ہیں اگر انکی شکلیں اچھی ہوتیں تو یہ فلمی ہیرو  بننے کا  شوق بھی پورا کرتےہیں۔

جب الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا حبس بے جا میں ہو تو   عوام کے پاس اور کوئی طریقہ ہے بھی تو نہیں کہ سچ اور حقیقت کو جان پائیں۔  پاکستان میں اب نہ تو کوئی نظریاتی سیاسی انقلابی تحریک نظر آتی ہے اور نہ ہی  کہیں کوئی انقلابی ادب تخلیق کرنے والا ادیب  کا پتہ ملتا ہے ۔ کسی سیاسی جماعت میں اتنا دم باقی بچا نہیں  کہ وہ عوام  کی طاقت بن کر ان کے حقوق کی جنگ لڑسکے ۔۔ اگر ہم  عوام کا  درد  سمجھتے  تو ہم باقی صوبوں  میں بسنے والی اقوام کی ہلاکتوں پر چیخ اُٹھتے  جیسے آج ساہوال کے واقعہ پر  چیخ رہے ہیں ـ اگر پاکستان صوبوں کی قومیتوں کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ ہے جسکے نتیجہ میں یہ وفاق ہے  تو پھر  اسے   وفاقی یکجہتی نہیں کہتے اور نہ ہی اسے ایک قوم کہتے ہیں   بلکہ اس نام نہاد قومی  لاعلمی کو   صوبائی پرستی  ،نسل پرستی، قوم پرستی، تعفن زدہ صوبائی عصبیت کہتے ہیں ۔۔۔

کل  منظور پشین کی تنظیم  پی ٹی ایم  کراچی کے عہدداروں پر جھوٹے مقدمات کے پرچے درج کئے ہیں انہیں ہراس کیا جارہا ہے کیوں کہ وہ پشتونوں  کے حقوق کی بات کرتے تھے۔۔۔  ابھی چند دن پہلے فورسسز نے بلوچستان کی طرح  رحیم یار خان میں شب خون مارا اور  سرائیکی نیشنل پارٹی کے عہدیدار سپوکس پرسن احمد مصطفٰے کانجو کو دنیا کے سامنے اُٹھا کر لے گٖئے اور غائب کردیا گیا جس کا آج تک کوئی پتہ نہیں ہےــ 

اہل خانہ کا رو رو کر برا حال ہے کیوں کہ وہ بلوچوں پشتونوں سندھیوں اور بنگالیوں کی تاریخ سے واقف ہیں کہ اسکے ساتھ کیا حشر ہوگا  کیوں  ـ وہ سرائیکی حقوق کی بات کرتا تھا   وہ   پنجابی نہیں تھا کسی مذہبی جماعت کا  ملا بھی نہیں تھا   بلکہ ایک روشن خیال ترقی پسند سوچ رکھنے والا نوجوان تھا یعنی ریاستی بیانیہ کے مطابق اپنے اندر پانچوں شرعی عیب رکھتا تھا  ساتھ ہی   پنجابی اسٹبلشمنٹ کے خلاف پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی بات کرتا تھا لہذا  اسے یہ کہہ کر اُٹھا لیا جاتا ہے کہ پاکستان اور فوج کے خلاف بات کرتا تھا ۔

قومی اور مقامی اخبارات میں اس واقعہ کی خبر کوئی چھاپنے کے لئے تیار نہیں  ۔  یعنی جو بھی اپنے حقوق کی بات کرے اُسے اُٹھا لو    ـ اسے ہی  ریاستی دھشت گردی کہتے ہیں جو پاکستان کے تمام صوبو ں کی عوام کے ساتھ ایک  سوچی سمجھی سازش کے تحت بھرپور مہم کے طور پر جاری ہےـ  ایک مقدس گائے ہے جسکی پوجا پاٹ پر  عوام کو  مجبور کیا جارہا ہے  ـآج  ساہیوال میں دن دیہاڑے بچوں سمیت معصوم افراد کو دہشت گرد بنا کر گولیوں سے بھون دیا گیا      جس پر پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا کہ ساہیوال میں گاڑی پر فائرنگ انٹیلی جنس اطلاعات پر کی گئی اور یہ آئی ایس آئی و سی ٹی ڈی کی مشترکہ کارروائی تھی، مارے جانے والوں کے ورثا کو دو کروڑ معاوضہ دیں گے ـ

 ۔۔۔۔۔  وزیراعظم یہ کہتا ہے کہ بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ۔۔۔۔ فواد چودھری کہتا ہے کہ دھشت گردوں نے عورتوں کو دھشت گردی کے لئے استعمال کیا گورنر پنجاب کہتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ایسے واقعات دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں۔۔۔۔ اور وزیراطلاعات فیاض چوہان کہتا ہے دھشت گردوں کے بھی بچے ہوتے ہیں ۔۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ  سی ٹی ڈی حکام نے پہلے انہیں  اغوا کیا پھر  بے دردی سے قتل کیا اور قتل کے بعد اپنے بیانات کو مستقل تبدیل کرتے رہے۔

پہلے یہ اعلان کیا کہ بچوں کو اغوا کیا جارہا  تھا ان کو بازیاب کرایا گیا ہے اور پھر ان کو دہشت گرد قرار دیا۔ مگر اصل حقیقت بیان کرنے سے وہ بھی قاصر ہیں کہ آخر انہیں کس ادارے نے سو فیصد یقین دلا کر مشترکہ کاروائی  کرنے کا عندیہ دیا یا آرڈر دیا؟ ۔ متاثرین نے اپنی ایف آئی آر میں سی ٹی ڈی اہل کاروں کے خلاف اغوا اور قتل کا مقدمہ درج کریا ہے ـ لواحقین پر  دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔حالیہ حکومت کے  یہ کل پرزے جس فیکٹری سے تیار ہو کر  پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں  انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انکی عوام کس جبر کا شکار ہے وہ  کیا سوچتے ہیں اور ان کے مسائل کا حل کس کے پاس ہے  ـ 

 ریاستی دھشت گردی میں مقدس اداروں کے خلاف  مقدمہ عوام کہاں درج کرائیں ۔۔۔۔ حکومت سرکار  اور ماں جیسی ریاست کے ادارے جنہوں نے اپنی عوام کے تحفظ کا حلف لیا ہے  جب وہ   سرکار  کے ہاتھوں  پہ عوام کا خون لگا ہو  اور سرکار ہی منصف  ہو  تو عوام کا پرسان حال پھر کون ہے  ؟۔۔۔۔۔ غربت بے روزگاری بیماریوں سے بدحال عوام اپنے بچوں کی روٹی کا سوچیں یا طاقتور بندوق بردار ٹولے سے نہتے ہاتھوں موت کی نیند سوئیں ۔۔ یہاں ہر شخص   کو  ایک ہی بات سمجھائی جا رہی ہے کہ بس اب کچھ نہیں ہوسکتا ۔ آخرت کی  سوچو میرے بھائی ۔۔۔۔۔۔ اللہ اللہ کرو ۔ ہم گناہ گار ہیں اس لئے ہمارا مقدر ہی خراب ہے ہماری  قسمت میں ایسا لکھا تھا سو وہ ہمیں  مل کر ہی رہے گاـ  اللہ سے معافی مانگو یہ سب ہمارے گناہ ہیں جس کا ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

  یہ وہ جملے ہیں جو پاکستان میں ہر مجبور محکوم شخص کو گلی گلی میں بیٹھا دوکاندار   مُلا درس کی صورت ڈراتا  رہتا ہے ۔۔۔اس ملک میں کوئی تو ایسی طاقت ہے   جس نے  مُلا کو  اپنے مضموم مقاصد کے لئے اپنا آلا کار بنا کر رکھا ہے  کہ عوام کو اپنے حقوق کےشعور  سے دور رکھا جائے  ان کو   فرقوں  اور  مذہبی تنظیموں میں بانٹ کر   ایسی مذہبی تعلیمات مٰیں الجھا  دیں جس مٰیں علم کی جگہ بنیاد پرستی کا ایسا  نشہ   ہو جو انہیں اپنے سیاسی اور قومی حقوق کی جوجہد سے دور کردے ۔۔اور  جو قوتیں ملک کو حب الوطنی اور اسلام کے نام پر لوٹ رہی ہیں عوام کا  دیہان  کبھی اس طرف نہ جاسکے ۔ہر طرف ایک سرد آہ ہے ایک درد ہے اور دبی دبی چیخیں ہیں جو  سب کو سنائی دیتی ہیں ۔مگر بولتا کوئی نہیں ۔

یہ کمال ڈر  خوف اور  اس دھشت کا ہے جو ریاست نے اپنی عوام کے دلوں میں بٹھا رکھی ہے یہ طرز حکمرانی ایسٹ انڈیا کمپنی کی اپنی  کالونیوں میں تھی یا قدیم بادشاہوں اور فوجی آمروں کے یرغمال ممالک میں ہوتی ہے  ۔۔۔۔  ذرا سوچیں یہ دھشت گرد پہلے تو نہیں ہوا کرتے تھے مگر  یہ اچانک کہاں سے آجاتے ہیں اور اچانک  غائب ہوجاتے ہیں ؟    آخر  کون ہے  جو اپنی عوام کے خلاف یہ دہشت گردی کرا رہا ہے؟

ــــــــ  اگر  انٹر نیٹ پر   یا لائبریریوں میں پرانے اخبارات کا ریکارڈ  اُٹھا کر دیکھیں تو   کئی مذہبی جماعتوں کے انتہاپسند  دہشت گرد ہمارے اداروں کے بڑے  افسران کے ساتھ محمود و ایاز بن کر ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں  ۔ریاست انہیں  آج بھی ریاستی اثاثہ قرار دیتی ہے۔ یہ جو اصل دہشت گرد  ہیں جو  ایک طرف  تو  ریاست کی گود میں کھیلتے ہیں اور دوسری طرف  قوم پرستوں مذہبی اقلیتوں اور کمزور طبقات  پر   قہر بن کر انہیں مٹانے پر تلے ہیں  ان قاتلوں کے خلاف نہ ریاست کچھ  کرتی ہے  اور عوام میں کبھی کوئی بات نہیں کرتا   ۔

یہ دراصل   ایک مخصوص  آمرانہ سوچ کا حامل سرکاری بیانیہ ہے  ایک ایسی ڈاکٹرائین ہے جو عوام کو  ریاستی طاقت کا غلام بنانا چاہتی ہے    عوام کے ذہنوں میں جبراَ  یہ بیانیہ ٹھوس دینا چاہتے ہیں  ۔۔یہ جو پشتون خواہ، بلوچستان،اور سندھ میں  آئے دن  لوگ مارے جا رہے ہیں گھروں سے اٹھائے جا رہے ہیں کیا یہ سب کے سب دھشت گرد تھے یا ہیں ؟ ۔ اگر یہ فوجی عدالتیں اپنے ہی پالے ہوئے دھشت گرد ملاؤں   کے لئے بنائی گئیں تھیں  تو کیا ان کا کچھ بگڑا  ؟

درندے احسان اللہ احسان کو دولہا بنا کر ٹی وی پر پیش کیا جاتا ہے جو لجاتے شرماتے مسکراہٹوں کے ساتھ سکون سے کہتا ہے کہ۔۔۔۔مجھ سے غلطی ہوگئی ہے مجھے معاف کردیں۔اللہ کی مرضی اسی میں تھی کہ میں ایسا کام کروں ۔۔۔۔ مگر مجھے احساس ہے کہ میں نے غلط کیا ۔۔۔۔۔۔اس درندے   کو بار ہا میڈیا کے سامنے عوام سے معافی دلوانے کی سرتوڑ کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔۔ وہ  خونخوار درندہ آج بھی اس امید پر  زندہ پائندہ اپنی معافی کا طلبگار بیٹھا ہے کہ وہ ریاست کا اسٹریٹجک اثاثہ ہے اور اسے بچا لیاجائے گا  ۔یہ وہ دھشت گرد ہیں جنہیں ریاست نے تیار کیا ہے  ان میں سے کچھ  اپنا حصہ نا ملنے پر صاحب کے خلاف ہوگئے ۔۔۔۔۔

دوسرے قسم کے وہ دھشت گرد جو ابھی بھی ریاست کا قیمتی اثاثہ کہلاتے ہیں جنہیں دنیا دھشت گرد ڈکلیئر کر چکی ہے مگر ہمارے اپنے ہیں ہمارے مہمان ہیں اور قیمتی ہیں تیسری قسم میں وہ دھشت گرد ہیں جنہیں ہندوستان اور افغانستان پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے اور  چوتھی قسم کے وہ دھشت گرد ہیں جنہیں صرف  ریاست دھشت گرد کہتی ہے اور سمجھتی ہے ۔ یہ وہ ہیں جو  خود  مشرقی پاکستان کے بعد پاکستانی تاریخ کی بدترین  ریاستی دھشت گردی کا شکار چلے آرہے ہیں ۔  

یہ   پچھلے پانچ ہزار سالوں سے اپنی قدیم دھرتیوں پر آباد ہیں ۔ان کی آبائی سرزمین پر پاکستان قائم اور آباد ہوا ۔ اسلام کے نام پر ہجرت کرکے  باہر سے آنے والوں کو انہوں نے محبت سے اپنے وسائل بانٹے انہیں عزت اور وقار دیا  مگر بدلے میں  انہیں غربت بیماری تنگدستی بے روزگاری اور ناخواندگی  اور  مایوسی ملی۔ان کے قدرتی وسائل ان سے چھین لئے گئے ۔پاکستانی افسرشاہی ، پنجابی اشرافیہ اور فوجی اسٹبلشمنٹ  نے  انہی میں سے طاقتور طبقات کو مزید ریاستی طاقت دے کر انہیں ان پر مسلط کردیا۔قبائلی سرداروں اور جاگیرداروں پیروں وڈیروں کے مالک اور خالق یہی ہماری اسٹبلشمنٹ ہے جو چاروں صوبوں میں ان کو زندہ رکھتی ہے   تاکہ نسل در نسل یہ طاقتور  طبقات مظلوم  عوام کو  ذہنی اور جسمانی غلامی کا طوق لٹکائے زندگی گزارنے پر مجبور رکھیں ـ ہم روز بلوچستان اور پشتون خواہ میں  آئے دن معصوم افراد کی لاشوں اور  گمشدہ افراد کے لواحقین کا واویلا رونادھونا دیکھتے اور سنتے ہیں انہیں اسی طرح دھشت گرد قرار دے کر ناحق قتل کیا جا رہا ہے انکی نسل کُشی کی جارہی ہے۔

کیا ہم کبھی ان کی تکلیف کو محسوس کرپائے ہیں جیسے آج اس درد کو پنجاب کے کونے کونے میں محسوس کیا گیا ہے؟   وردی مافیا کے خلاف اپنی بقاء کی جنگ لڑنے والوں کو  آج غدار، دھشت گرد ملک دشمن کہہ کر دن دیہاڑے قتل کیا جارہا ہے۔ کیا ساہیوال کا واقعہ  ریاست کی  دھشت گرد  نہیں تھی  ؟ کیا یہ بچے دہشت گرد تھے؟ ۔۔ عوام ابھی تک پولیس یا سی ٹی ڈی کو  اس کاروائی کا مکمل ذمہ دار سمجھ رہی ہے  تحقیقی کمیٹیاں بھی بن چکی ہیں پولیس والے بند بھی ہوچکے ہیں مگر کوئی بھی آخر تک یہ منہ نہیں کھولے گا  کہ کس ادارے نے انہیں مخبری کی ۔۔۔

ان اداروں اور ان افسران کو بھی منظر عام پر لانا چاہئیے جو اس آپریشن کے ماسٹرمائنڈ تھے جنکے حکم  اور  کنفرمیشن پر کاروائی عمل میں لائی گئی ہے ۔۔  اس  واقعہ میں ملوث  اصل مجرمان کو عوام سے چھپایا جا رہا ہے کیوں کہ مقدس ادارے کا مورال اور کارکردگی پر سوال اٹھ سکتا ہے ۔۔ سینئر پولیس آفیسر کو اس گاڑی میں بیٹھے ہوئے افراد پر گولیاں چلاتے وقت انتہائی اطمینان  ہوگا  کہ وہ دھشت گردوں پر ہی گولیاں برسا رہا ہے اور اپنے وطن کی خدمت اور شہریوں کی جان کی حفاظت میں اپنی ڈیوٹی دے رہا ہے جس ادارے کو مقدس گائے بنا کر دن رات پوجا جاتا ہے بھلا اس کے خلاف کون منہ کھولے۔۔

 یہ وہی خفیہ ایجنسیاں ہیں جنہوں نے اے آئی جی رائے طاہر کے ذریعے میر مرتضیٰ بھٹو جیسے شیر کو دن دیہاڑے سب کے سامنے قتل کیا جیسے اس نے ساہیوال میں اپنے آقاؤں کے حکم پر واردات کی ۔۔۔ اس کرایہ کے قاتل رائے طاہر   کو یقین ہے کہ جنہوں نے میر مرتضیٰ  جیسے اہم قتل کے کیس میں اس  کو بچا لیا تھا وہی اس مرتبہ ساہیوال کیس مین بھی بچا لیں گے۔ ساری کاروائی میں کسی نے ابھی تک اس ایجنسی ادارے یا ان کے کسی آفیسر کا نام نہیں لیا جس نے اس کرائے کے قاتل کو  اس واردات کا حکم دیا تھا ۔

یہ وہی ادارے ہیں جو    جو دن رات دھشت گردی کے نام پر بلوچستان پشتون خواہ اورسندھ میں مقامی سیاسی تحریکوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ڈگر پر کب سے کارفرما ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں بلوچستان میں وردی والوں کے ظلم جبر سہتے  اپنے پیاروں کی لاشیں اکٹھی کرتے اب وہ قبائلی مزاج میں بندوق اُٹھا کر اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں جن کو واپس ٹیبل پر لانے کے کئی راستے ہوسکتے تھے مگر ریاستی دھشت گردی جن کے منہ کو لگ چکی ہو وہ طاقت  اور عہدے کے نشے میں  گم خود کو خدا سمجھ بیٹھے  ۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ ابھی تک کسی کو نہیں بھولی  ۔اور بہادر نما فوج نے کچھ نہیں سیکھا   کہ کیسے  ہماری نوے ہزار بہادر افواج نے سینہ پر تو کیا  پیٹھ پر بھی گولی کھانا بھی گوارہ نہ کیا اور ہتھیار سمیت حالت رقوع میں جا پہنچے  ۔

تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات اس طرف اشارہ دے رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کو اب  بلیک میل کرنا شروع کردیا گیا ہے ۔ پاکستانمیں طاقت کا عدم توازن پیدا کرنے کے لئے عوام میں خوف و ہراس پیدا کیا جا رہا ہے ۔ لگتا ہے کہ بزرگ نوجوان کھلاڑی کی اب ضرورت باقی نہیں رہی ۔ جس  چہیتے  نوازشریف کی قربانی دیکر عمرانی ہیرا تراشا گیا  جسے  ماہرجوہریوں نے بڑی خوبصورتی سے انگوٹھی میں جڑا تھا وہ  اب  اپنی آب وتاب  کھونے لگا ہے۔۔ خیرات چندے کی مہم ہر طرح سے مکمل کی جاچکی ہے جہاں سے حاصل وصول  صفر سے زیادہ کچھ نہیں ۔ دنیا جان چکی ہے کہ پاکستان میں فوجی آمریت کا راج ہے اور بظاہر کٹھ پتلی حکومت  کے بین الاقوامی دورے چندہ مہم کے سوا کچھ نہیں ۔ جو ملک کا بچا کچھا وقار  تھا وہ بھی جاتا رہا   ۔۔۔

لہذا  اب سیاسی فضا تبدیل کی جا رہی ہے جس کے لئے مٹی دھول اُڑا کر ، اتنا ابہام اور خوف پھیلایاجا  رہا ہے کہ سب دھندھلا دکھائی دینے لگے۔۔مگر  بابوصاب ! عوام   قومی عفریت کو پہچان چکے ہیں جو  آدم بو آدم بو کرتا گھروں سے  معصوم بچے  اُٹھا  ے جاتا ہے  ۔۔ پاکستان کی قوم اور عوام تم سے کہیں زیادہ بہادر اور نڈر ہیں    یہ زمین زادے پچھلے پانچ ہزار سالوں سے زندہ ہیں اور تم جیسے کئی سکندر، قاسم، غوری، سُوری، اکبر ،لارڈ ، ضیاء، بُش، جیسے    آتے  اور جاتے رہے مگر یہ آج بھی اپنی دھرتیوں پر قائم و دائم زندہ کھڑے ہیں ۔  

Comments are closed.