پاکستان میں بنتی نئی تاریخ

علی احمد جان

جب سے یہ حکم صادر ہوا ہے کہ بھلے بھلے اور سب اچھا کی خبریں دے کر اگلے دو تین سال تک ملک کا روشن چہرہ دکھایا جائے اس کے بعد ہم نے بھی اچھا اچھا سوچنا شروع کیا ہے تاکہ شبھ شبھ بول سکیں۔ پاکستان ریلوے کی دور مار میزائل بنانے کی پوشیدہ صلاحیت سے لے کر اگلے کچھ سالوں میں پاکستانیوں کی خلا میں گھومنے پھرنے کی ایسی خوشخبریاں ہیں کہ ہم خوشی سے کہیں مر ہی نہ جائیں۔

ملک میں ہر کام تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کے منتخب ہونے سے پہلے ہی اس کے احکامات پر عمل در آمد کرتے ہوئے ان کے حلف لیتے ساتھ ہی ہندوستان  کے ساتھ ملحقہ کرتار پور کا بارڈر کھول کر سکھ یاتریوں کو گورو نانک کی جنم بھومی تک رسائی دی گئی۔نہ صرف یہ بلکہ اس کے افتتاح کے انتظامات بھی وزیر اعظم کے دفتر پہنچنے سے پہلے ہی ہوچکے تھے۔فیتہ کاٹنے کے لیے صرف وزیر اعظم کے شیروانی پہننے کا انتظار تھا۔

تاریخ میں پہلی بار جنوبی پنجاب کے قبائلی علاقے سے ایک بلوچ سردار کو پنجاب جیسے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ محلات اور بڑی بڑی کوٹھیوں  والے تو  حکمرانی کرتے ہی رہے ہیں مگر پہلی بار ایک ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا جس کے گاؤں میں پانی اور گھر میں بجلی نہ ہونا ہی اس کی اس عہدے کے لیے معیار تھا۔ یہ بھی تاریخی واقعہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی گاؤں میں رہنے والی ماں کو بھی اعتبار نہیں کہ اس کا بیٹا شہباز شریف کی جگہ لے چکا ہے۔

تاریخ میں پہلی بار نوجوانوں کے لیے ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے۔ مگر گزشتہ دس سالوں میں زرداری اور شریف سارا پانی، بجلی اور گیس چوری کر گئے ہیں تو شاید ان نئے گھروں میں موم بتی کی روشنی میں تاریخ میں پہلی بار لگائے ایک ارب درختوں کی لکڑی جلا کر روٹیاں پکانے کے بعد طہارت کے لیے برسات میں چھتوں پر کھڑے ہو کر اشنان ہی کیا جاسکے گا۔

رہی بات ان گھروں کے بنانے کے لیے زر کی تو آئی ایم ایف کی آنٹی نے رقم دینے کا وعدہ کیا ہے جس کو لینا موجودہ حکومت کا اور چکانا مستقبل کی حکومتوں کا کام ہوتا ہے۔ ملک میں پہلی بار کروڑوں کے اشتہار چھپوا کر لاکھوں کی گاڑیاں اور بھینسیں نیلام کر کےجو سادگی اپنائی گئی اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے سر پر تاج سجانے سے قبل ہی اصلی والی ریاست مدینہ کے متوقع حاکم بھی اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر وارد ہونے کو ہیں۔

تاریخ میں پہلی بار وزیر اعظم ہاؤس میں جو یونیورسٹی قائم کی گئی تھی وہاں طلبہ کے امتحانات ملتوی کروا کر شاہ عرب کے لیے لنگر کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سابقہ مغل بادشاہوں کی نیلام کردہ گاڑیوں کو دوبارہ کریم اور اوبر سے کرائے پر اٹھا کر مدینہ سے آئے شاہی مہمانوں کی آمد و رفت کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔

ملک کا واحد صنعتی اور تجارتی شہر کراچی جہاں کبھی دیواروں پر ہمارے وزیر اعظم کے بارے میں صرف بالغان کے لیے نعرے لکھے جاتے تھے وہاں سے عامر لیاقت، فیصل واڈا اور علی عمران جیسے ہیرے ہاتھ آئے ہیں۔ تہذیب اور شائستگی کی علامت شہر کے یہ منتخب نمائندے جب بولتے ہیں تو ان کے لبوں سے ایسی پھلجھڑیاں پھوٹتی  ہیں کہ اس سال کراچی میں موسم بہار نے بھی واپس آنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔

ایک کو پانیوں پر چلنے والے جہازوں اور دوسرے کو پانی سے بجلی پیدا کرنے کی تاریخ از سر نو رقم کرنے کی ذمہ داریوں سے سر فراز کر کے ہمارے مردم شناس وزیر اعظم  نے ان داناؤں کی ساحل سمندر پر زندگی گزارنے کے تجربے اور ان کی جوہر آب دانی سے بھر پور فائدہ اٹھاکر یہ ثابت کر دیا کہ ایسے گوہر نایاب کو ڈھونڈ نکالنا ان جیسے عظیم رہنما  کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ فواد، چوہان، واڈا، زیدی،عامر لیاقت تو مشتے از خراورے ہیں۔یہاں تو ہرشخص اپنی مثال آپ ہے کس کس کی مدح لکھیے؟

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر ایسی اکائیاں ہیں جن کے انتظامی اختیارات اسلام آباد میں بیٹھنے والی وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم کے پاس ہوتے ہیں۔ وفاق سے ملنے والے بجٹ اور نوکریاں اور ججوں کی تعیناتی کے سب اختیارات وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان کے پاس  ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم، گلگت بلتستان کے گورنر اور وزیر اعلیٰ کو اپنے ماتحت ملازمین کی طرح جب چاہے وہ پیشی پر بھی بلا لیتا ہے۔

ایسی کلیدی وزارت تاریخ میں پہلی بار ایک ایسے وزیر کو ملی ہے جس کی دانائی اور فہم کے ہم کیا سب ہی معترف ہیں  جو پانی کو بھی چھوٹی مکھی کا شہد ثابت کر سکتا ہے۔ شرح خواندگی میں ملک بھر سے آگے رہنے والے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے ایسے وزیر با تدبیر کا ملنا بھی تاریخ میں پہلی بار ہے جس پر وہاں کے لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر وزیر اعظم کو دعائیں دے رہے ہیں۔ اگر یہ وزیر اور کچھ عرصہ رہا تو انشاللہ کشمیر کی آزادی کے علاوہ دہلی کے لال قلعے پر بھی بہت جلد سبز ہلالی پرچم لہرائے گا۔

تاریخ میں پہلی بار سعودیہ سے امریکی ڈالر اور سعودی ریال جہاز بھر بھر کر آ رہے ہیں۔ ان ڈالروں کو رکھنے کی ہمارے پاس شائد جگہ کم پڑ جائے اس لیے امریکی تیل پیچنے والی کمپنی آرامکو سے کہا ہے کہ وہ ہمارے لیے گوادر میں تیل صاف کرنے کی ریفائنری لگائے تاکہ چین سمیت اس خطے کے سارے ملکوں کو تیل کی فراہمی ہم کریں۔ چین جو خود کو بڑا سیانا سمجھتا تھا کہ گوادر میں اپنے تیل صاف کرنے کے کارخانے لگا کر ہم پر رعب جمائے گا اب اس کو بھی تاریخ میں پہلی بار ہم سے ہی تیل خریدنا پڑے گا۔

پاکستان میں لمحہ لمحہ بنتی اس نئی تاریخ کا احاطہ ایک نشست یا ایک تحریر میں ممکن نہیں۔ مستقبل میں جب مورخ لکھے گا کہ ملک میں ایک ایسا وزیر اعظم بھی آیا تھا جو پھٹی قمیض پہن کر صرف پچپن روپے فی گھنٹہ کے خرچے والے ہیلی کاپٹر پر سفر کیا کرتا تھا تو دوسرے ممالک کے وہ صدور اور وزرائے اعظم بھی انگشت بدندان رہ جائیں گے جو دفتر جانے کے لیے بائیسکل جیسے مہنگی سواری اور ذاتی چھٹیوں کے دوران بچوں کے ساتھ خیموں جیسی مہنگی رہائش اختیار کیا  کرتے تھے۔ مورخ لکھے گا کہ ملک کی کابینہ میں ایسے وزیر بھی تھے جو سرکاری زمین پر باڑ لگا کر خود رکھوالی کرتے ہوئے در اندازوں سے لڑ کر تھانے کچہری تک پہنچ گئے اور وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔

مورخ یہ بھی لکھے گا کہ ایک ایسا وزیر اعظم تھا جو بہت ایماندار تھا، اس کی نیت صاف تھی مگر حکومت کرنے  کے واسطے یہ خوبیاں نہیں بلکہ اس کی خامیاں بن گئیں کیونکہ وہ جن کے ساتھ مل کر حکومت کرنا چاہتا ہے ان کی اپنی بھی ایک تاریخ  ہے جس سے وہ رو گردانی نہیں کرنا چاہتے۔

Comments are closed.