کیا افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا؟

رحمان بونیری

افغانستان میں امن کی راہ میں حائل کیا رکاوٹیں ہیں ؟

فریقین کے مابین ستمبر 2018 سے ابتک پانچ ملکوں میں دس ملاقاتیں ہوچکی ہیں، واشنگٹن سے ماسکو تک انا جانا لگا رہا ، بیانات اور فرمان جاری کئے گئے ، مگر افغانستان میں صلح کی عمل کو ابھی تک وسوسوں کے پڑاؤ سے آگے نہیں بڑھایا جاسکا۔

اسکی وجوہات کئی ایک ہوسکتی ہیں مگر اشرف غنی حکومت کا اس امن منصوبے سے باہر رکھا جانا تمام وسوسوں کو جنم دیتا ہے۔ ایسے میں جب طالبان کو امریکیوں، روسیوں، چینیوں، عربوں، پاکستانیوں اور سابقہ افغان حکمرانوں سے ملنے پر اعتراض نہیں تو اشرف غنی سے نہ ملنا چہ معنی دارد؟

اس کا جواب طالبان یوں دیتے ہیں کہ موجودہ افغان حکومت افغانوں کی اصلی نمائندہ حکومت نہیں ہے اور یہ کہ جب تک ایک بھی خارجی عسکر افغانستان کی سرزمین پر موجود ہو امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن باخبر لوگ اسکو مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ طالبان اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے مابین ایک عبوری حکومت کی قیام پر بات چیت چل رہی ہیں۔ اس حکومت میں طالبان سمیت کئ افغان شخصیتوں کو حصے دار بنایا جا ئے گا۔

افغانستان کے قومی امور کے مشیر حمداللہ محب نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں الزام لگایا تھا کہ افغان امن مزاکرات میں غنی حکومت کو دانستہ طور پر الگ رکھا گیا ہے تاکہ زلمے خلیلزاد خود وائسرائے بن سکے۔ ہر چند کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے حکومتی اور عوامی سطح پر بہت بیتابی دیکھی جاسکتی ہے مگر افغان حکومت شروع ہی سے زلمے خلیلزاد کے طریقوں پر اعتراض اٹھاتی رہی ہے۔

صدر غنی ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ افغانستان میں امن کے لیے بات چیت افغانوں کے مابین ہونی چا ہیے ۔ وہ طالبان سے بھی وقتاً فوقتاً کہتے رہے ہیں کہ ہتھیار ڈال دیں، افغان سماج کا حصے بنیں اور غیروں کی خوشامد چھوڑ دیں ۔

کچھ مبصرین کا ماننا ہیں کہ واشنگٹن میں حمداللہ محب کی کاٹ دار اور گرج دار لہجے کو افغان حکومت کی جانب سے امریکا اور طالبان کو ایک واضح پیغام کے طور پر دیکھنا چا ہیے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خلیلزاد کی شاپینگ بیگ میں عبوری حکومت کا کوئی سودا ہے تو افغان اسے کبھی بھی نہیں خریدیں گے۔

عبوری حکومت کی چہ میگویاں غلط نہیں معلوم ہو رہی ہیں کیونکہ واشنگٹن سے لیکر اسلام آباد تک عبوری حکومت کی آوازیں سنائی دی جارہی ہیں۔

پالستان کے وزیراعظم عمران خان نے رواں مہینے باجوڑ میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئےکہا تھا کہ افغانستان میں بہت جلد ایک نئی حکومت بن جائے گی ۔ خان صاحب کے مطابق اس حکومت میں تمام افغانوں کو نمائندگی ملے گی، افغانستان میں لڑائی ختم ہو جائے گی اور امن قائم ہوجائےگا۔

امریکا نے افغان امن منصوبے میں پاکستان کا کردار ہمیشہ ہی سے اہم ترین سمجھا ہے۔ ایسے میں جب اسلام آباد بھی افغانستان میں ایک نئی حکومت کی قیام کی بات کررہا ہے تو غنی حکومت کی بے چینی قدرتی امر ہے۔ البتہ ابھی تک نہ تو خلیل زاد اور نہ ہی کسی اور نے اس بات کی تصدیق کی ہیں کہ افغانستان میں عبوری حکومت بنائی جارہی ہے یہی وجہ ہیں کہ چھ مہینے گزرنے کے باجود ہر جانب صرف وسوسے ہی پیدا ہورہے ہیں۔

Comments are closed.