پی ٹی ایم کے جلسے پر پاک فوج کی فائرنگ

پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں   اور پاک فوج کے درمیان ہونے والی ایک جھڑپ میں تین افراد ہلاک جبکہ پانچ فوجیوں سمیت 15 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

پی ٹی ایم نے الزام لگایا ہے پاکستانی فوج نے ان کے پرامن دھرنے پر حملہ کیا۔پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ نے کہا ہے کہ جب وہ دھرنے والی جگہ پر پہنچے تو سکیورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین پر فائرنگ کی گئی جس میں 30 کے قریب افراد زخمی ہوئے۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے پہلے مظاہرین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی گئی تاہم بعد میں براہِ راست فائر کھول دیا گیا جس سے ان کے کئی افراد زخمی ہوئے۔محسن داوڑ کے مطابق فائرنگ سے انھیں بھی ہاتھ پر معمولی زخم آیا ہے لیکن وہ محفوظ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔محسن داوڑ کے مطابق فوج نے ایم این اے علی وزیر اور وزیر قبائل کے سربراہ ڈاکٹر گل عالم کو گرفتار کر لیا ہے۔پاکستانی فوج نے بھی علی وزیر سمیت نو افراد کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ محسن جاوید داوڑ مفرور ہیں۔

نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق علاقے میں کرفیو کے نفاذ کے بعد وہاں ٹیلی فون سروس بھی معطل ہے جس سے آزاد ذرائع سےاطلاعات کے حصول میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما منظور پشتین کا کہنا ہے اتوار کو پیش آنے والا واقعہ ’ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے دی جانے والی دھمکی، آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے، کا تسلسل ہے۔ان کے مطابق ’گذشتہ کئی دنوں سے آئی ایس پی آر کی سوشل میڈیا ٹیمیں آج پیش آنے والے حملے کی راہ ہموار کر رہی تھیں۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ اس بزدلانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ پی ٹی ایم اپنی پرامن اور آئینی جدوجہد جاری رکھے گی‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے علی وزیر اور محسن دواڑ پر حملے کے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر ہم اپنے شہریوں پر لیبل لگانا شروع کر رہے ہیں، اپنے منتخب سیاست دانوں کو غدار قرار دے رہے ہیں تو پھر ہم ایک خطرناک راستے کی طرف بڑھ رہے ہیں‘۔ 

بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق وزیرستان سے بنوں پہنچنے والے بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ضلع کے دورافتادہ علاقے دتہ خیل تحصیل میں چند دن پہلے سکیورٹی فورسز کی طرف سے کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے خلاف مقامی قبائل دھرنا دے کر ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے پی ٹی ایم کے ارکان قومی اسمبلی اس دھرنے میں شرکت کے لیے آ رہے تھے تاہم انھیں مظاہرین سے ملنے سے روکا گیا۔ سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔

جن گرفتاریوں کے خلاف دھرنا دیا جا رہا تھا ان کا تعلق چند دن پہلے سرحد پار سے الواڑہ کے علاقے میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے میں تین سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد کیے جانے والے سرچ آپریشن سے ہے۔

جبکہ پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ پی ٹی ایم کے کارکنان نے ارکانِ قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں شمالی وزیرستان میں فوج کی خارقمر چیک پوسٹ پر گذشتہ روز گرفتار کیے گئے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو چھڑوانے کے لیے حملہ کیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق اس جھڑپ میں تین افراد ہلاک جبکہ 15 زخمی ہوئے جن میں پانچ فوجی بھی شامل ہیں۔سکیورٹی فورسز نے اس واقعے کے بعد مظاہرین کی قیادت کرنے والے پی ٹی ایم کے رہنما اور جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر سمیت دس افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ جبکہ محسن دواڑ تاحال روپوش ہیں۔

BBC

Comments are closed.