میں مولانا طارق جمیل بنوں گا

محمد حنیف

گزشتہ سال دینی تعلیم حاصل کرنے والے ایک ذہین بچے سے پوچھا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ اس نے بغیر کسی توقف کے جواب دیا، مولانا طارق جمیل۔

لاکھوں، کروڑوں پاکستانیوں کی طرح مولانا میرے بھی پسندیدہ مبلغ ہیں۔ نہ کبھی حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں نہ دھرنا دیتے ہیں، نہ تفرقہ پھیلاتے ہیں۔ ہر طرف محبتیں پھیلاتے ہیں، مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں اور تو اور قبر کے عذاب سے بھی کم ڈراتے ہیں۔

ان کا بیان سنیں (ان کے بیان ہر خاص و عام کے لیے یوٹیوب پر موجود ہیں) تو ایسا لگتا ہے کہ گناہ گار کسی تھری ڈی سکرین پر جنت کے مناظر دیکھ رہا ہے۔ قیامت کے دن بخشش کے ایسے وعدے کرتے ہیں کہ پاپی سیٹھ بھی اپنے آپ کو جنتی سمجھنے لگتے ہیں۔ حوروں کا سراپا ایسے بیان کرتے ہیں کہ بولی وڈ کے ستارے بھی شرما کر رہ جاتے ہیں۔

مجھے ان کی محفل میں بیٹھنے کا شرف کبھی بھی حاصل نہیں ہوا۔ صرف ایک دفعہ ایئرپورٹ پر دیکھا تھا جہاں مسافر سامان والی بیلٹ پر اپنے سوٹ کیس بھول کر مولانا کے ساتھ سیلفیاں بنوا رہے تھے۔ میرا ڈرپوک دل دور سے دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔

ہجوم بڑھتا رہا لیکن مجال ہے کہ ماتھے پر ایک شکن بھی آئی ہو بلکہ ان کی شریر مسکراہٹ اور شریر ہوتی گئی اور مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ مولانا علما کے شاہ رخ خان ہیں۔ کوئی اور علم دین شاید اس تشویش میں آجائے لیکن مجھے یقین ہے کہ مولانا طارق جمیل صرف مسکرا دیں گے۔

حاسدین اکثر اعتراض کرتے ہیں کہ مولانا فلمی ستاروں، کرکٹرز اور سیٹھوں سے خاص رغبت رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال کسی نے غیر ملکی دورے کے دوران ان کی تصویر پھیلائی جس میں وہ ایک بہت ہی لمبی سی لیموزین سے اتر رہے ہیں۔ کسی نے کہا اور درست کہا کہ کون سی حدیث میں لکھا ہے کہ لیموزین میں بیٹھنا منع ہے۔

اگر ان کے میزبانوں نے اتنی بڑی گاڑی بھیج دی تو وہ کیا اب یہ کہیں کہ نہیں واپس لے جاؤ میں تو سوزوکی آلٹو میں ہی بیٹھوں گا۔ کسی اور بدزبان نے کہا کہ اتنی بڑی بھی نہیں تھی اس میں تو ان کے حصے کی ساری حوریں بھی فٹ نہ آئیں۔

مولانا طارق جمیل گنہگاروں اور دنیا داروں کے مولانا ہیں۔ جو صالح ہیں انھیں تبلیغ کی کیا ضرورت۔ سیاسی نفرتوں میں بٹے اس معاشرے میں شاید وہ واحد عالم دین ہیں جو عمران خان کے ڈرائنگ روم میں افطاری کے بعد امامت بھی کر لیتے ہیں اور مرحومہ کلثوم نواز کی نماز جنازہ بھی پڑھا لیتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کو یقیناً ایسی شخصیتوں کی ضرورت ہے جو فروعی اختلافات سے بالاتر ہوکر برکتیں بانٹ سکیں۔ ریاست کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ وہ ہمارا قومی اثاثہ ہیں۔ وقتاً فوقتاً دفاعی اور سویلین اداروں میں ان کا خطاب کروایا جاتا ہے۔ چند سال پہلے ایف بی آر کے سارے بڑے بڑے دفاتر میں ان کا بیان براہ راست نشر کیا گیا اور اس خطاب کے بعد ایف بی آر کے افسران کی کارکردگی یا ان کے کمیشن پر کوئی فرق پڑا ہے یا نہیں اس میں مولانا کا کوئی قصور نہیں۔

ان کا کام تھا پیغام دینا۔ اب ہمارے ایف بی آر والے بھائی ہی ایسے ہیں کہ بیان سننے کے بعد سمجھا ہو گا اتنی مقدس ہستی کی صحبت میں دو گھنٹے گزرے ہیں اب تو بخشش پکی ہے۔ ٹیکس کلیکشن جیسے دنیاوی کام میں وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ۔

عقیدت کے اس پس منظر میں رمضان المبارک کے مہینے میں ایک ٹی وی اینکر کے پروگرام میں مولانا نظر آئے تو جم کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد صحافی بھائی سے تھوڑی ہمدردی ہوئی کیونکہ وہ بھی دینی مسائل کے بعد مولانا سے عمران خان کی حکومت کی کارکردگی پر سوال کرنے لگے۔ مولانا نے بار بار کہا کہ انھوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔

شاید پہلی دفعہ یو ٹرن کی دینی حیثیت پر بات ہوئی۔ عین دین ہے کیونکہ اگر پتہ چلے کہ غلط راستے پر ہو تو لوٹ چلو۔ مولانا نے بتایا کہ ایک دفعہ انھوں نے ٹی وی چینل کے مالک سے کہا کہ اپنے چینل پر جھوٹ بند کر دو تو اس نے کہا پھر تو چینل ہی بند ہو جائے گا۔

لیکن چینل بھی کھلا ہے اور مولانا بھی سچ بولتے ہیں۔ پروگرام کے آغاز میں ہی صحافی نے پوچھا کہ پاکستان میں اسلام کا بول بالا ہے پھر بھی ہمارے حالات ایسے کیوں ہوں؟ اس پر مولانا نے نہایت درد مندی سے فرمایا کہ دنیا کی تین بڑی طاقتیں اس لیے بڑی طاقت ہیں کہ وہاں پر انصاف ہوتا ہے۔

اپنے مرغوب عالم کو ٹوکنے کی جرات نہ مجھ میں ہے نہ صحافی بھائیوں میں۔

دنیا کی تین بڑی طاقتوں کا مولانا نے نام نہیں لیا لیکن ایک امریکہ ہے جو تاریخ کا نالائق طالب علم بھی جانتا ہے کہ قتل عام پر قائم ہوئی تھی اور سراسر ظلم پر زندہ ہے۔ روس پسپائی کے بعد پھر سپر پاور بنا پھرتا ہے۔ اس کی طاقت بھی کروڑوں لوگوں کی لاشوں پر بنی تھی اور آج کل مہا سیٹھوں کی کنیز ہے۔

چین بھی ایک بڑی طاقت ہے لیکن وہ چونکہ برادر لادین ملک ہے اور ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ وہاں مسلمانوں کو کس طرح کا انصاف میسر ہے تو اس کی بات نہیں کرتے باقی بچا بھارت تو وہاں پر انصاف کے معیار کے بارے میں مولانا اپنے مداح اور بولی وڈ اداکار عامر خان سے پوچھ لیں۔

جس طرح ہم گناہ گاروں کے لیے حکم ہے کہ دین کی بات صرف علمائے دین کو کرنے دیں (حالانکہ مولانا طارق جمیل اس طرح کی پابندی کے حامی نہیں ہیں) تو کاش ہمارے علمائے دین بھی دنیاوی معاملات پر بات کرنے سے پہلے کسی تاریخ یا سیاست کی کتاب سے رجوع کر لیا کریں۔

ورنہ ہو سکتا ہے ہم سب بڑے ہو کر مولانا طارق جمیل بن جائیں، ہم سب کی آخرت سنور جائے لیکن اس دنیا میں ہم راندۂ درگاہ ہی رہیں گے۔

BBC

Comments are closed.