فائز عیسیٰ کو فیض آباد دھرنے کے فیصلے کی سزادی جارہی ہے

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سے ملک کا سیاسی درجہ حرارت پھر سے بڑھنے کا امکان ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ جسٹس عیسیٰ کو فیض آباد دھرنے کے خلاف فیصلہ دینے پر سزا دی جارہی ہے۔ کئی حلقوؒ نے مزاحمت کا عندیہ دیا ہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق جسٹس فائزعیسیٰ کے خلاف دو دن پہلے صدر ِ مملکت عارف علوی نے ریفرنس بھیجا تھا، جس کے مندرجات کا علم خود فاضل جج کو بھی نہیں ہے اور انہوں نے خط لکھ کر صدرِ مملکت سے اس ریفرنس کی تفصیلات مانگی ہیں۔

ریفرنس کی خبر نے ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو ایک بار پھر بڑھا دیا ہے۔ سپریم کورٹ بار کونسل کے اجلاس نے ریفرنس پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں ارکان کی اکثریت نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے رائے دی ہے۔

سیاسی جماعتیں بھی اس ریفرنس کے خلاف مزاحمت کا عندیہ دے رہی ہیں۔ ن لیگ کے سینیئر رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ صرف فائز عیسی کا معاملہ نہیں بلکہ عدلیہ کی ساکھ کا معاملہ ہے، ’’جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو دلیری اور جرات دکھانے کی سزا دی جارہی ہے۔ انہوں نے اور شوکت صدیقی نے ایک ایسے وقت میں انصاف پر مبنی فیصلے دیے جب ہر طرف تاریکی تھی۔ نہ صرف سیاسی جماعتوں کو بلکہ سول سوسائٹی اور میڈیا کو بھی کھل کر جسٹس فائز عیسٰی کی حمایت کرنی چاہیے‘‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ریفرنس طاقتور حلقوں کی ناراضگی کی وجہ سے ہے یا پھر مسئلہ کوئی اور ہے،’’فی الحال تو ریفرنس صدر پاکستان عارف علوی نے بھیجا ہے تو بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ کام حکومت کا ہے۔ تاہم بعد میں یہ پتہ چلے گا کہ اصل میں اس ریفرنس کے پیچھے کون ہے۔‘‘

کئی سیاسی مبصرین کا خیال بھی یہی ہے کہ اس ریفرنس کے خلاف مزاحمت ہو سکتی ہے، جس سے پی ٹی آئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ تجزیہ نگار حبیب اکرم کے خیال میں پی ٹی آئی کی حکومت نے ریفرنس دائر کر کے اپنے ہی پیر پر کلہاڑا مار لیا ہے، ’’پی ٹی آئی حکومت اب عدلیہ کو کنڑول کرنا چاہتی ہے اور میری اطلاعات یہ ہیں کہ جسٹس کے کے آغا اور  قاضی عیسیٰ کے علاوہ بھی کچھ اور ججز کے خلاف ایکشن ہوگا، جس سے حکومت کے لیے ایک بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ ویسا ہی ایکشن ہے جیسا کہ مشرف نے افتخار چوہدری کے خلاف لیا تھا‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ طاقتور حلقے فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر جسٹس فائز سے ناراض ہیں، ’’اور یہ فیصلہ اس ریفرنس کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس ریفرنس کی سماعت کے حوالے سے بھی غیر معمولی پھرتی دکھائی جارہی ہے۔ ثاقب نثار کے خلاف بھی ریفرنس تھا لیکن اس کی کبھی شنوائی نہیں ہوئی۔ تاہم حکومت کا یہ اقدام مزاحمت کو دعوت دے گا اور پی ٹی آئی کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔‘‘

ملک میں اس مسئلے پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ وہ کونسے عوامل ہیں، جنز کی وجہ سے طاقت ور حلقے جسٹس فائز عیسی کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ فیض آباد دھرنے کا فیصلہ اس ریفرنس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ سول سوسائٹی اس تاثر کو درست قرار دیتی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکڑ مہدی حسن نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کوبتایا، ’’یہ تاثر ہے کہ ریاست کے طاقتور ادارے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے فیض آباد دھرنے کے فیصلے کی وجہ سے ناراض ہیں۔ میرے خیال میں یہ تاثر درست ہے اور ممکنہ طور پر ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے یہ ریفرنس داخل کیا جارہا ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو حکومت کو ان کے خلاف لگائے جانے والے الزامات سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔ خود معزز جج نے بھی یہ مطالبہ کیا ہے‘‘۔

تاہم پاکستانی میں عدالتی رپورٹنگ کے جانے پہچانے چہرے مطیع اللہ جان کے خیال میں فیض آباد کا دھرنا ایک وجہ ہے، ’’میرے خیال میں دوسری وجہ یہ ہے کہ طاقت ور حلقے نہیں چاہتے کہ فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنیں۔ اور انہیں روکنے کے لیے بھی یہ ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں اس کی بھر پور مزاحمت ہو سکتی ہے باوجود اس کے کہ بار کونسل میں طاقت ور حلقوں کے کچھ چمچے موجود ہیں‘‘۔

DW

Comments are closed.