پاکستانی میڈیا کا بحران، صحافی ’بھوکے مر رہے‘ ہیں

پاکستان کا میڈیا کچھ عرصے سے تہرے بحران کا شکار ہے، جس کی وجہ سے سب سے چھوٹے درجے کے ورکنگ جرنلسٹ اپنے روزگار کے حوالے سے پریشان ہیں۔ تقریبا تین ہزار سے زائد صحافی اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں۔

پاکستانی میڈیا کو ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت اور حکومتی اشتہارات پر انحصار نے انحطاط پذیر کر دیا ہے۔ مالی مسائل کے شکار پاکستانی میڈیا میں گزشتہ ایک برس کے دوران بیس ہزار میں سے تقریباﹰ تین ہزار سے زائد صحافی اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں۔ یوں جہاں پر میڈیا کے پیشے کو خطرات کا سامنا ہے، وہاں پر پاکستانی عوام کے جاننے کا حق اور اظہار رائے کی آزادی بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ 

موجودہ سیاسی منظر نامے میں بڑھتی ہوئی سینسرشپ نے بھی میڈیا کے پیشے کو متاثر کیا ہے۔ ان مسائل کا مجموعی نتیجہ یہ ہے کہ ورکنگ جرنلسٹ پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ اسی بنا پر آج سولہ جولائی کو صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی کال پر اسلام آباد سمیت پورے ملک میں صحافیوں نے ان مسائل پر بھرپور مظاہرے کیے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر افضل بٹ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ پورے ملک میں پریس فریڈم موومنٹ چلائی جائے گی، جس کی وجوہات میں ایک غیراعلانیہ سینسرشپ بھی ہے۔ صحافی کچھ بھی لکھتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہو جائے یعنی خوف و ہراس کی فضا ہے۔  دوسرا جو صحافی پریس فریڈم کی بات کرتا ہے اس کی کردارکُشی شروع ہو جاتی ہے، تیسرا پاکستان میں میڈیا ورکر کی جبری برطرفی اور چوتھی وجہ چار پانچ ماہ کی تنخواہوں میں تاخیری شامل ہیں۔

افضل بٹ نے مزید کہا کہ اسی موومنٹ کے تحت آج چاروں صوبوں کے پریس کلبوں اور چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے اور ریلیاں نکالی گئیں، سیاہ پرچم لہرائے گئے، بھرپور طریقے سےاحتجاج کیا گیا اور یوم سیاہ منایا گیا۔  دوسرے مرحلے میں ہم انہی مطالبات کے حوالے سے ملک بھر کے پریس کلبوں میں میڈیا کانفرنسز کا انعقاد شروع کریں گے۔

آزادی صحافت، جمہوریت اور آزاد عدلیہ پر یقین رکھنے والی، جو بھی قوتیں ہیں، ان کو ساتھ ملائیں گے، جن میں تاجر کمیونٹی، وکلا کمیونٹی، ڈاکٹر کمیونٹی، طلبہ، پولیٹکل ورکرز یعنی سول سوسائٹی شامل ہو گی۔  تاکہ یہ فرنٹ آہستہ آہستہ مضبوط ہوتا جائے اور ایک بڑی موومنٹ میں تبدیل ہو کر اس وقت تک کوشش جاری رکھی جائے، جب تک پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں ہو جاتا۔

اسی حوالے سے اقبال خٹک، جو ملک میں یورپین ادارے رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کے پاکستان میں نمائندے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کی عدم برداشت کی پالیسی کا ایک نتیجہ سینسر شپ کی شکل میں ہے، جس نے میڈیا کو سرکاری لائن کور نہ کرنے کی پاداش میں سرکار کی طرف سے دیے گئے اشتہارات کی واضح کمی ہے۔ سرکار کی طرف سے دیے جانے والے میڈیا کو اشتہارات دراصل عوامی ٹیکس کا پیسہ ہوتا ہے جس کی حساب کتاب میں شفافیت ضروری ہے۔

اقبال خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ملک کے سب سے بڑے جنگ گروپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنے کچھ اخبارات اور ٹی وی کے بیورو آفسز بند کر دیے، جن میں صحافیوں اور دیگر اسٹاف سمیت تقریبا چودہ سو لوگوں کی نوکریاں ایک ہی وار میں گئیں۔ اسی طرح ایکسپریس میڈیا گروپ اور دنیا میڈیا گروپ، جو کہ ملک کے تیسرے اور چوتھے بڑے میڈیا گروپس ہیں، نے دو سو سے زائد صحافیوں کو پچھلے چند ماہ میں نوکری سے نکالا ہے۔ تقریبا تمام میڈیا گروپس میں کام کرنے والے صحافیوں کی تنخواہوں میں پندرہ سے چالیس فیصد کمی کی گئی ہے، جس سے صحافیوں کے گھروں میں معاشی بحران پیدا ہو گیا‘‘۔

سینسر شپ بحران کی وجہ سے ایک پرانا اور قابل اعتماد میگزین ‘ہیرالڈبند ہو رہا ہے اور اس کا اگلے مہینے آخری شمارہ آئے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ملک کے  اچھے صحافی، جن میں دی نیوز آن سنڈے کی ایڈیٹر فرح ضیا، ہیرالڈ کے ایڈیٹر بدر عالم، طلعت حسین، مطیع اللہ جان اور دیگر کو اپنے ادارے یا سینسرشپ یا معاشی بحران کے باعث چھوڑنے پڑے ہیں یا ان کے ادارے بند کر دیے گئے۔ مزید یہ کہ اعزاز سید اور احمد نورانی کو ان کے اپنے ادارے کی طرف سے سوشل میڈیا کے استعمال پر بندشوں کا سامنا ہے۔‘‘۔

آر ایس ایف کی پاکستان کے بارے میں ایک تازہ رپورٹ میڈیا اونرشپ مانیٹر ان پاکستان‘‘ کے مطابق 2017ء میں پاکستان کے پورے میڈیا کی ایڈورٹائزنگ مارکیٹ 87.7 بلین روپے تھی جبکہ حکومت میڈیا کو اشتہارات مہیا کرنے والا ایک اہم ذریعہ تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق 2013ء سے 2017ء  تک حکومت پاکستان نے پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کو 15.7 ارب روپے اشتہارات کی مد میں دیے۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد نئی حکومت نے اپنا اشتہاراتی بجٹ تقریبا ستر فیصد کم کر دیا ہے، جس سے میڈیا انڈسٹری شدید مالی مسائل کا شکار ہو گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2016ء سے 2018ء کے دوران میڈیا کی ایڈورٹائزنگ مارکیٹ ملکی معیشت زوال پذیر ہونے کی وجہ سے مسلسل سکڑ رہی ہے۔

جہاں پر 2016ء میں یہ مجموعی ایڈورٹائزنگ مارکیٹ 87.7 بلین روپے پر مشتمل تھی وہ 2017-18  میں تقریبا سات فیصد کم ہو گئی ہے اور اندازاﹰ 2019ء میں یہ تقریباﹰ تیس فیصد مزید کم ہو جائے گی اور یوں میڈیا کا معاشی بحران سنگین تر ہوتا جائے گا۔

میڈیا مارکیٹ کے ایک تجزیہ نگار احسان کمال نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، پاکستان کی مجموعی میڈیا مارکیٹ ٹیکنالوجی اور معیشت میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے بدل رہی ہے۔ جہاں اس صدی کے آغاز میں تقریبا بیس ہزار لوگ میڈیا مارکیٹ سے منسلک تھے، ان میں صحافیوں کی تعداد تقریبا دو ہزار تھی، اب تقریبا دو دہائیوں کے بعد میڈیا انڈسٹری میں مجموعی طور پر ڈھائی لاکھ لوگ کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے پچھلے سال تک تقریبا بیس ہزار صحافی شامل تھے لیکن خراب ہوتی ہوئی معیشت کی وجہ سے اور حکومت کی طرف سے ملنے والے اشتہارات میں نمایاں کمی کی وجہ سے تقریبا دس ہزار لوگ میڈیا انڈسٹری میں اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں جن میں تقریبا تین ہزار صحافی بھی شامل ہیں۔‘‘ 

دوسری جانب سرکار کی جانب سے بارہا کہا گیا ہے کہ نواز شریف حکومت نے اشتہارات کی مد میں غیر معمولی اضافہ کیا تھا جس کو برقرار رکھنا مشکل تھا۔ اس لیے حکومت اپنی اشتہارات کی پالیسی تبدیل کر رہی ہے اور اب میڈیا کے اصل سائز کے مطابق اشتہارات دیے جائیں گے۔ سرکار کا یہ بھی دعوی ہے کہ میڈیا بالکل آزاد ہے، نہ اس پر کوئی دباؤ ہے، نہ سینسرشپ نہ اور کسی قسم کی کوئی بندش۔

لیکن افضل بٹ کا کہنا ہے کہ غیر اعلانیہ سینسرشپ عروج پر ہے، پیمرا کہتا ہے میڈیا آزاد ہے، ہم نے کوئی پانبدی نہیں لگائی، پریس کونسل آف پاکستان کہتی ہے میڈیا آزاد ہے، حکومت کہتی ہے میڈیا آزاد ہے لیکن ہمیں پتا ہے کہ میڈیا آزاد نہیں ہے‘‘۔

DW

Comments are closed.