افغان طالبان کا افغان شہر پر ایک اور بڑا حملہ

افغان طالبان نے اتوار کے روز ایک اور افغان شہر پر بڑا حملہ کیا ہے۔ جبکہ طالبان کا قطر کے شہردوحہ میں امریکا کے ساتھ امن مذاکراتی عمل جاری ہے مگر گزشتہ دو روز کے دوران ان کی طرف سے یہ دوسرے افغان شہر پر حملہ ہے۔

طالبان کی طرف سے صوبہ بغلان کے دارالحکومت پُل خمری پر یہ حملہ امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے اس بیان کے کئی گھنٹوں بعد کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے دوحہ مذاکرات کے دوران قندوز میں کیے جانے والے بڑے حملے کے خلاف متنبہ کیا تھا۔

خلیل زاد کے مطابق انہوں نے طالبان سے کہا، اس طرح کا تشدد کا سلسلہ رُکنا چاہیے۔‘‘ طالبان نے ہفتہ 31 اگست کو قندوز پر ایک بڑا حملہ کیا تھا۔

خلیل زاد اتوار یکم ستمبر کو کابل پہنچے تھے تاکہ افغان حکومت کو اس معاہدے کے بارے میں اعتماد میں لیا جا سکے جس کے بارے میں خلیل زاد اور طالبان دونوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مذاکرات کا تازہ راؤنڈ ختم ہو چکا ہے۔

امن مذاکرات کے ساتھ ساتھ طالبان کے حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان امن میں سنجیدہ نہیں اور وہ مذاکرات کے پردے میں افغانستان میں اپنا مکمل کنٹرول چاہتےہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طالبان کی طرف سے قندوز اور پُل خمری پر کیے جانے والے تازہ حملوں کو امریکا کے ساتھ مذاکرات میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ طالبان کے کنٹرول میں اس وقت افغانستان کا نصف کے قریب علاقہ ہے اور سال 2001ء کے بعد سے وہ وہاں مضبوط ترین پوزیشن میں ہیں۔

ناقدین نے متنبہ کیا ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کا ایک اہم نکتہ جنگ بندی بھی ہے، لیکن ممکنہ طور پر اس پر عملدرآمد نہیں ہو گا کیونکہ طالبان محض امریکی افواج کے افغانستان چھوڑنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شریک امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ فریقین امن ڈیل کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاہدہ طے ہونے سے افغانستان میں پرتشدد حالات میں کمی ہو گی اور تمام افغان دھڑوں کے درمیان بات چیت کے دروازے بھی کھل جائیں گے۔ اس کے بعد ہی افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان بھی براہ راست رابطہ کاری ممکن ہو گی۔ ابھی تک طالبان کابل حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔

امریکا کو امید ہے کہ اس معاہدے میں طالبان کی طرف سے افغانستان میں حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کے بعد وہاں تعینات امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو سکے گی۔

DW/Web news

Comments are closed.