پاک بھارت ۔مذہبی انتہا پسندی کے شکنجے میں

  اصغر علی بھٹی۔  مغربی افریقہ

گھوٹکی  دو روز سے جل رہا تھا۔ایک سکول، دو  مندر اور ، ایک تھانہ جلایا جا چکا ہے ابھی رینجرز نے انتظام سنبھالا ہے۔پچھلے دو دن ایک بچے کی نالائق  ویڈیو کی وجہ سے گھوٹکی کی گلیوں میں حیاو شرافت ننگے پاؤں  اورننگے سر  جبکہ جہالت ننگے بدن ماتم کرتی رہی ۔سوچتا ہوں خون لکیر کے اس پار گرے یا اُس پا ر، رنگ تو ایک ہی ہوتا ہے ۔

تڑپتی نعش خواہ جھاڑ کھنڈ کے تبریز انصاری کی ہو یا کوئٹہ کے میجر محمود کی جب پتھروں، اینٹوں اور چھروں سے اسکو چیر کر، اس کی انتڑیاں باہر نکالی جاتی ہیں تو دونوں ایک ہی طرح سے تڑپتے اور درد سے چیختے ہیں دونوں کی مائیں ایک ہی طرح سے آگ کے انگاروں پر لوٹتی ہیں۔ دونوں کو اتنی خوفناک موت دینے والوں کی آنکھیں ایک سی آگ برسارہی ہوتی اور چہرے  ایک سےمتوحش  اور درندگی ٹپکا رہے ہوتے ہیں ۔اس وقت وہ شکل سے انسان کم اور خونی درندے زیادہ نظرآ رہے ہوتے ہیں۔ دونوں موت کے اس ننگے کھیل پر ایک ہی طرح سے خوشیاں مناتے ہیں چیختے اور اچھلتے ہیں ۔

اب اس نعش کو  ہندوستان کا ہندو مولوی گائے ماتا کے تقدس کے نام  پر” ماب لنچنگ“ سے بربریت کی مثال بنادے یا پاکستان کا  مولوی ختم نبوت  اور عصمت  رسول کی حفاظت کے نام پر ،سفاکیت تو ایک سی ہی خون آشام ہو گی۔

      ہندوستان  کے شہر سہارن پور سے شائع ہونے والے جامعہ مظاہر علوم کا ترجمان رسالہ ” ماہنامہ مظاہر علوم “  اپنی جولائی 2019 کے ادارئے میں مسلمانوں کی حالت زار اور ہندو بلوائیوں کے حوالے سے رپورٹ لکھتا ہے کہ”  اس وقت پورے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ تشدد کے واقعات کی مسلسل خبریں آرہی ہیں ۔ مشتعل ہجوم بغیر کسی سبب کے اچانک کسی مسلمان پر حملہ آور ہوتا ہے اور پیٹ پیٹ کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیتاہے۔

اطلاع کے مطابق مغربی بنگال کے 24 پرگنہ ضلع میں 3 افراد کو چلتی ٹرین  سے ” جے شری رام “ نہ کہنے پر دھکیل دیا گیا۔اس سے قبل محمد مومن کے ساتھ مغربی بنگال میں یہی ہوا۔ گجرات میں ایک نوجوان کو بری طرح سے مارا پیٹا گیا جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہاہے۔

ابھی حال ہی میں جھاڑ کھنڈ کے تبریز انصاری کا وحشیانہ قتل اسی ہجومی تشدد ”  ماب لنچنگ “ کے نتیجے میں سامنے آیا۔اب ہندوستان میں آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے والے مخصوص ذہینیت رکھنے والے جنونی افراد کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اس طرح کے تشدد کے واقعات ان کے ہاتھ کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت اوراقتدار کے حامل افراد ان پر کوئی کاروائی کرنے کی بجائے صرف تماشائی بن کر اس کا کھلی آنکھوں مشاہدہ  کر رہے ہیں “۔( ماہنامہ مظاہر علوم  ص3 زیر عنوان ضرورت ہے کہ اب طرز فغاں بلبل بدل ڈالے تحریر عبد اللہ خالد قاسمی خیر آبادی جلد 25 شمارہ 4 یوپی247001)۔

اسی طرح مختلف رسائل و جرائد میں اسی قسم کی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔    ہندوستان سے آنے والی ان وحشت ناک خبروں کی وجہ سے آج ہر صاحب در د پریشان ہے اور ہونا بھی چاہئے  کیونکہ درد اور دکھ کسی رنگ ا ور مذہب میں جا کر بد ل تو نہیں جاتے ایک سے ہی رہتے ہیں ۔   سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے پاکستان کی مذہبی قیادت بھی  اپنے ان ہندوستانی بھائیوں کےدکھ  کومحسوس کرتی ہے ؟ اور کیا ان کے دل بھی اسی شدت کرب سے ہلکان ہیں جو  دلی،جھاڑکھنڈ اور اتر پردیش  کےتبریز انصاریوں کی والدائیں محسوس کرتی ہیں؟ میر ا سادہ سا جواب ہو گا نہیں ۔بالکل بھی نہیں۔ اور اگر کوئی بھی پاکستانی مولوی ایسا دعوی ٰ کرتا ہے تو  وہ غلط بیانی کر رہا ہے منافقت کر رہا ہے۔

آج برصغیر پاک و ہند میں اقلیت کے ساتھ جہاں جہاں ظلم ہو رہا ہے اس کے ذمہ داران یہ پاکستانی علماء ہیں ۔ اپنے ملک میں انہوں نے خود ڈنڈوں اور خنجروں سے اقلیتوں کے پیٹ پھاڑنے کے طریقے سکھائے ۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اقلیتوں کے گھر لوٹنے،ان کی عبادت گاہوں کو جلانے  اور ان کی عورتوں اور بچوں کو ذبح کرنے کو مذہبی فرائض میں شامل کرکے جنتوں کی نویدیں سنائیں۔اور اس کو پوری تندہی سے پچھلے 70 سالوں سے عملی جامہ پہنایا۔آغاز کوئٹہ کے میجر محمود اور اوکاڑہ کے ماسٹر غلام محمد سے کیا پھر رہے نام  اللہ کا ۔ہر گوجرہ،ہر ننکانہ ۔ ہر لاہور ، ہر کوئٹہ، ہر احمدی ، ہرشیعہ ، ہرہزارہ اور ہرعیسائی کو ہم نے زندہ اینٹوں کے بھٹے میں ڈال کر جلایا۔

  کوئی بھی مجھ سے پوچھ سکتا ہے کہ یہ اتنا بڑا الزام آپ نے کس بھرتے اور کس ثبوت پر لگا دیا کہ  بائونڈری کے دونوں طرف گرنے والے مظلوم خون کا ذمہ دار پاکستانی علمائے کرام کو قرار دے دیا ۔میرا جواب دوٹوک ہے ۔یہ الزام نہیں حقیقت ہے  ۔ یہ میرے الفاظ نہیں علمائے کرام نے خود پاکستانی عدالت میں چیخ چیخ کر یہ بیانات دہرائے کہ اگر ہندوستان کا ہندو  بھی اپنے ملک میں ہندو قواعد نافذ کرکے مسلمانوں سے ملیچھوں اور چھودروں جیسا بد ترین سلوک کرے اور ان سے زندہ رہنے کے تمام حقوق چھین لے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن ہم اپنے ملک میں اسی طرح سے  دوسرے غیر مسلموں سے ایسا ہی سلوک کریں گے۔ ان کو ذمی بنا کر رکھیں گے۔ بلکہ دوسرے درجے کے شہری بنا کر رکھیں گے۔

Comments are closed.