کیا پیپلز پارٹی محدود ہورہی ہے؟

لیاقت علی

پیپلزپارٹی ایک صوبے کی پارٹی بن گئی ہے۔ ایک صوبہ بھی کہاں یہ تو صرف اندورن سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ سب زرداری کا کیا دھرا ہے۔ یہ زرداری کی کرپشن اور غلط پالیسوں کا اعجاز ہے کہ پیپلزپارٹی جیسی ملک گیر سیاسی جماعت صوبائی پارٹی میں تبدیل ہو گئی ہے۔

یہ اور اس سے ملتے جلتے الزامات،تبصرے اور بیانات ہمارے میڈیا اور پیپلز پارٹی اور زرداری کے مخالفین کا محبوب مشغلہ ہے۔ کیا پیپلزپارٹی کا اندرون سندھ تک محدود ہونا زرداری کی مبینہ غلط پالیسوں کی بدولت ہے یا اس کے پس پشت ٹھوس سیاسی، سماجی اور طبقاتی وجوہات اور محرکات ہیں؟ کیا پیپلزپارٹی اپنی تاریخ کے کسی دور میں ملک گیر سیاسی جماعت تھی یا یہ محض ایک مفروضہ ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہم عصر سیاسی و سماجی تاریخ کی روشنی میں تلاش کرنے کی بجائے ہمارے مین سٹریم پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اورسیاسی تجزیہ کاروں کا انحصار مفروضوں اور سنی سنائی باتوں پر ہے۔ جہاں تک تعلق ہے تحقیق و مطالعہ کا وہ عرصہ ہوا ہمارے سیاسی ڈسکورس سے مفقود ہوچکا ہے۔

پاکستا ن پیپلزپارٹی نومبر 1967 میں ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کی قیادت میں منظم ہوئی تھی۔ بھٹو صاحب نے اپنے سیاسی بیانیہ کی بنیاد کم از کم پنجاب کی حد تک بھارت دشمنی پر رکھی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت نے ستمبر 1965 کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند کی شکل میں بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک تھے۔ معاہدہ تاشقند بھٹو کے نزدیک معاہدہ امن نہیں بلکہ شکست کا نشان تھا۔ بھٹو کا اصرار تھا کہ معاہدہ تاشقند میں کچھ خفیہ شقیں تھیں جن پر جنرل ایوب خان نے جانتے بوجھتے ہوئے دستخط کئے تھے حالانکہ یہ شقیں پاکستان کے مفادات سے متصادم تھیں۔ بھٹو نے وعدہ کیا کہ وہ بر سر اقتدار آکر قوم کے سامنے ان خفیہ شقوں کو افشا کریں گے۔

بھٹو کے اس بھارت دشمن بیانیہ کو پنجاب میں بہت زیادہ پذیرائی ملی تھی کیونکہ پنجابیوں کی وہ نسل ابھی تک حیات تھی جوقیا م پاکستان کے موقع پر ہونے والے بدترین فرقہ ورانہ فسادات سے براہ راست متاثر ہوئی تھی۔یہ وہ نسل تھی جس کو تقسیم کی بدولت اپنا گھر اور شہر چھوڑ کر دربدر ہونا پڑا تھا۔ بھٹو کا بھارت مخالف بیانیہ اس نسل کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ چنانچہ پنجاب کا ایسا کوئی شہر اور قصبہ نہیں تھا جہاں پیپلز پارٹی کا تنظیمی یونٹ قائم نہ ہوا ہو۔ یہی وہ فضا تھی جس میں 1970 کا الیکشن ہوا تھا۔ پیپلزپارٹی ان دنوں اپنی مقبولیت کی انتہائی بلندیوں پر تھی لیکن اس کی یہ مقبولیت صرف پنجاب اور سندھ تک محدود تھی۔جہاں تک مشرقی پاکستان، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کا تعلق تھا تو وہاں پارٹی کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔

سنہ1970 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی 162نشستوں میں سے کسی ایک نشست پر بھی امیدوار نامزد نہیں تھا۔ اسی طرح مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کی کسی نشست پر بھی کسی امیدوار کو نامزد نہیں تھا۔صوبہ سرحد کی قومی اسمبلی میں 18نشستیں تھی۔ پیپلزپارٹی نے 16 نشستوں پر اپنے امیدوار نامزد کئے تھے ان میں سے صرف ایک سیٹ مردان۔1 سے عبدالخالق خان جیت سکے تھے۔

عبدالخالق خان اس وقت وفاقی وزارت داخلہ کے سیکرٹری روئیداد خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ اور تو اور پارٹی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو ڈیرہ اسمعیل خان سے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مفتی محمود سے ہار گئے تھے۔صوبہ سرحد کی صوبائی اسمبلی کے لئے پیپلزپارٹی نے 38امیدواروں کو نامزد کیا تھا جن میں سے صرف 2 ارکان کامیاب ہوئے تھے جن میں پارٹی کے صوبائی سربراہ حیات محمد شیرپاو (پشاور) اورعبدالصمد (مردان) شامل تھے۔ہارنے والے پارٹی امیدواروں میں صرف 8رنر اپ تھے باقی سب تیسرے، چوتھے اور بعض نشستوں پر پانچویں اور چھٹے نمبر تھے۔

بلوچستان کی قومی اسمبلی میں چار نشستیں تھیں۔ پیپلز پارٹی نے صرف ایک نشست پر اپنا امیدوار نامز د کیا تھا لیکن وہ بھی ناکام ہوگیا تھا۔ بلوچستان اسمبلی کی کسی نشست پر پیپلزپارٹی کا کوئی امیدوار نہیں تھا۔۔ پیپلزپارٹی کی اصل پارلیمانی طاقت کا اظہار پنجاب میں ہوا تھا۔پنجاب سے قومی اسمبلی کی 82 نشستوں میں سے 78 نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ان میں سے 62 امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔

پنجاب اسمبلی کی 180 نشستیں تھیں جن میں سے پیپلزپارٹی نے 166 نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیا تھا جن میں سے 116 امیدوار جیت گئے تھے۔یہ بہت شاندار کامیابی تھی۔ اسی طرح سندھ کی 27قومی اسمبلی کی نشستوں تھیں۔پیپلز پارٹی نے 25 نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیا تھا اور 18نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔سندھ اسمبلی کے 60 نشستیں تھیں جن میں پیپلز پارٹی نے 49امیدوار کھڑے کئے تھے جن میں سے 28 کامیاب ہوئے تھے۔

اگر 1970کے الیکشن کے نتائج کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی سیاسی قوت کا اصل مرکز پنجاب تھا اور اس کے بعد سندھ جو پنجاب سے کم تھا۔ بلوچستان اور سرحد میں پیپلزپارٹی کی موجودگی برائے نام تھی۔بھٹو کے عہد میں بھی پارٹی دو صوبوں تک محدود تھی۔ پاکستان میں کوئی پارٹی کبھی بھی ملک گیر مقبولیت کی حامل نہیں رہی اور مستقبل میں ایسا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔

Comments are closed.