جواہرلعل نہروؔکی ’’ غلطیاں‘‘ اوران پر سرظفراللہ خان کی گرفت

طارق احمدمرزا

بھارتی اخبارانڈیا ٹوڈے کی اشاعت بمؤرخہ 29ستمبر کے مطابق وزیرداخلہ امیت شاہ نے گزشتہ اتوار کو ایک تقریرمیں کہا ہے کہ کشمیر کو مسئلہ بناکر اقوام متحدہ میں لے کر جانا جواہر لعل نہرو کا انفرادی فیصلہ تھا۔ان کی یہ غلطی ہمالیہ سے بھی بڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سردارپٹیل کو 630 ریاستوں کو اکٹھا کرکے ایک ملک یعنی اکھنڈ بھارت بنانے کا فریضہ سونپاگیا تھا،جو انہوں نے پوراکردکھایالیکن نہرو کو صرف ایک کام دیا گیا(جموں کشمیر کاہندوستان میں ادغام۔ ناقل) لیکن وہ اسے نہ کرسکے۔یہ کام اگست سنہ 2019 میں مکمل ہو سکا۔ان کا اشارہ مودی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تحفظ دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمہ کی طرف تھا۔

امیت شاہ نے نہرو اور ان کی جماعت کانگرس کو مزید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید کہا کہ کشمیر کی تاریخ سے متعلق اصل حقائق چھپاکر جھوٹی تاریخ لکھی گئی اور افسوس اس بات کا ہے کہ جھوٹی تاریخ لکھنے والے و ہی لوگ تھیجوکشمیر کے معاملہ میںبھیانک غلطی کے مرتکب ہوئے تھے۔

وزیر داخلہ امیت شاہ سے قبل حکمران جماعت بی جے پی کے ترجمان شاہنوازحسین نے بھی ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہرلعل نہروکو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک بیان میں کہا تھاکہ جموں اورکشمیر کے ساتھ نہرو نے جو نا انصافی برتی اسے ہماری حکومت نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرکے انصاف میںبدل دیا ۔وزیرداخلہ امیت شاہ کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امیت شاہ نے سردار پٹیل کے ستر برس سے ادھورے چلے آرہے خواب کوپوراکرکے دکھا دیا۔ (انڈیا ٹوڈے)۔

قارئین کرام بھارتی وزیرداخلہ امیت شاہ نے مزعومہ’’ جھوٹی تاریخ‘‘ کا ذکر تو کردیا لیکن یہ نہ بتایاکہ سچی تاریخ کیا ہے ۔اسی طرح انہیں یہ بتانا بھی یاد نہ رہا کہ اگرنہرو کی غلطی کشمیر کو آرٹیکل 370کے ماتحت کر دینا تھی تو ناگالینڈ کو آرٹیکل 171کے ماتحت کس نے کیا،آسام کو آرٹیکل371B اورمنی پور کو آرٹیکل 371Cکے ماتحت کس نے کیاجو ان ریاستوںکو باقی ماندہ ہندوستان سے ممیزوممتازبناتے ہیں ۔ اسی طرح سکّم کو اس کی جداگانہ حیثیت آرٹیکل371 اور اروناچل پردیش کواس کا جدگانہ تشخص آرٹیکل 371Hکے ذریعہ دینا سردار پٹیل کی بھی ہمالیہ پہاڑ یا اس کی چھوٹی موٹی چوٹیوں جیسی ہی غلطیاں نہیں تھیں؟ ۔

دنیاکا کوئی ملک اپنی سرحدوں کے اندریا اس سے ملحقہ علاقوں کے عوام(اور ان کے رہنماؤں یاحکمرانوں ) کو جبری طورپرالحاق یا ادغام پرمجبورنہیں کرسکتا۔ایسا الحاق یا ادغام کبھی بھی دیرپا ثابت نہیں ہوا۔برصغیر ہندوپاک کی ہزاروں سال کی تاریخ اس پر شاہد ہے ۔ جبرکے زورپر قائم کیا گیا ’’اکھنڈ بھارت‘‘ خواہ وہ چانکیہ سلطنت کا تھا،مغلیہ سلطنت کا تھایا انگریزوںکا،موقعہ پاتے ہی اپنی کثیرالقومی،لسانی یا جغرافیائی اکائیوں میں ضروربٹا۔ایسی اکائیاں جن کی سرشت میں آزاد اور خودمختاررہنا اور اپنے ہمسائیوں سے برابری کی سطح پرتعلق بناکر رکھناشامل ہے۔

اگرکشمیر کو آرٹیکل371 کے ماتحت کرنا نہروحکومت کی ہمالیہ ایسی بڑی غلطی تھی تواس سے کہیںبڑی اور دوسری غلطی کشمیر کے قضیہ کو اقوام متحدہ میں لے جانے کی تھی۔واضح رہے کہ راقم ’’غلطی‘‘ کی اصطلاح امیت شاہ کے بیان کے حوالہ سے محض محاورتاً کررہا ہے۔

یہ دوسری غلطی کیاتھی اور کس طرح سے ہندوستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑااس کا دلچسپ حال بیان کرتے ہوئے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعظم اور تحریک ’’نیا کشمیر‘‘کے داعی شیخ عبداللہ صاحب اپنی خود نوشت ’’آتشِ چنار‘‘میں لکھتے ہیں کہ:۔

۔’’جب ہندوستان کی فوجیں 47ء کے اواخرمیں قبائلیوں کو ہانکتی ہوئی پاکستانی سرحدوں تک پہنچ گئیں تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں ہند اور پاکستان کے درمیان کھلے بندوں اعلان ِ جنگ نہ ہوجائے ۔پہلے تو جناح صاحب سے رابطہ قائم کیا گیا لیکن دونوں ملک اپنے مؤقف پر اڑے رہے ۔پاکستان چاہتا تھا کہ رائے شماری سے پہلے ہندوستان کی فوجیں کشمیر سے نکل جائیں اور ہندوستان زوردیتا تھا کہ کوئی تصفیہ کرنے سے پہلے پاکستان تمام قبائلیوں کو واپس بلا لے۔اس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پنڈت نہرو کے مشورے سے وزیراعظم برطانیہ کلیمنٹ اٹیلی کو لکھا کہ وہ دونوں ملکون کے درمیان یہ قضیہ ذاتی مصالحت سے طے کرانے کے لئے فوری طورپرہندوستان کی طرف پروازکریں۔لیکن برطانوی وزیراعظم نے ایساکرنے سے انکار کردیا،اور اس تجویز کا بیج پھینک دیا کہ اس مسئلے کواقوام متحدہ کے سامنے پیش کردیاجائے۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن اپنے وزیراعظم کی رائے سے متفق تھے لیکن گاندھی جی اور سردارپٹیل اس کے حق میں نہیں تھے۔گاندھی جی کہتے تھے کہ ہمیں اپنے معاملے اغیارکے سامنے پیش نہیں کرناچاہیئے ا ور اگر ہند اور پاکستان کے درمیان تصفیہ نہیں ہوتا تو وہ کسی ایشیائی ملک کو مصالحت کے لئے کہہ سکتے ہیں۔سردار پٹیل کا خیال تھا کہ اقوام متحدہ صرف محفل آرائی کا سٹیج ہے اور وہاں کسی بات کا فیصلہ ہوتا ہی نہیں۔

بالآخر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی رائے غالب آئی اورمعاملہ سلامتی کونسل میں پیش ہوا۔31دسمبر47ء کو کشمیر پر پاکستانی حملے کا معاملہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے حکومت ہند نے عالمی ادارے کے نام لکھا:۔

۔’’اس ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لئے کہ کہیں حکومت ہند ریاست جموں کشمیر کی وقتی مصیبت کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال تو نہیں کرتی،حکومت ہند نے یہ بات صاف کردی ہے کہ جونہی ریاست جموں کشمیرکی سرزمین حملہ آوروں کو نکال کرخالی کرلی جائے گی اور امن و امان کے عام حالات ازسرنو بحال کرلئے جائیں گے،ریاست جمون وکشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے آزادہونگے اور وہ فیصلہ جمہوریت کے مسلمہ طریقہ کار رائے شماری یا اِ ستصوابکے ذریعے عمل میں آئے گا۔جس کی غیرجانبداری کو یقینی بنانے کے لئے یہ اقدام بین الاقوامی نگرانی میں کیا جائے گا‘‘۔

چنانچہ ہندوستان کی طرف سے مقدمہ پیش کرنے کے لئے پہلاوفد گوپالاسوامی آئینگر کی قیادت میںروانہ ہوا۔پاکستانی وفد کی قیادت وزیرخارجہ چودھری سرظفراللہ خان کر رہے تھے۔مجھے بھی ہندوستان کے وفد میں شامل کیا گیا۔میرے لئے یہ سمندرپارجانے کا پہلا موقع تھا۔

سرظفراللہ خان ایک ہوشیاربیرسٹر تھے۔انہوں نے بڑی ذہانت اور چالاکی کا مظاہرہ کرکے ہماری ایک محدودسی شکایت کو ایک وسیع مسئلے کا روپ دے دیا اور ہندوستان پاکستان کی تقسیم کے سارے پرآشوب پس منظر کو اس کے ساتھ جوڑ دیا۔ہندوستان پر لازم تھا کہ وہ اپنی شکایت کا دائرہ کشمیر تک ہی محدودرکھتا لیکن وہ سرظفراللہ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گیا۔اور اس طرح یہ معاملہ طول پکڑ گیا۔بحثابحثی کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔ہمارے کان پک گئے اورہمارا قافیہ تنگ ہونے لگا۔ہم چلے تو تھے مستغیث بن کرلیکن ایک ملزِم کی حیثیت کٹہرے میں کھڑے کر دیئے گئے‘‘!۔آتشِ چنارصفحہ 471 تا  473

پروفیسربال راج مادھوک سابق بھارتی پارلیمینٹیرین نے اس صورتحال کا ’’سلیس زبان ‘‘میں نقشہ کچھ یوں کھینچاکہـ:۔

۔’’چہ عجب کہ انہوں (مراد شیخ عبداللہ۔ناقل)نے اور اسی طرح نہرونے مختلف مواقع پرجو تقاریر کی تھیں اورجوبیانات جاری کیئے وہ ظفراللہ کے ہاتھ میں آکر ایساڈنڈابن گئے جس سے انہوںنے انڈیاکیخوب پٹائی کی

(بحوالہKashmir The Storm Centre of the world, by Bal Raj Madhok صفحہ53 )

قارئین کرام کیا یہ المیہ نہیں کہ جس مستغیث کو پاکستان کے اس وقت کے کامیاب ترین وکیل اور وزیرخارجہ سرظفراللہ خان نے ملزم کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا، اسے بعد میں آنے والا کوئی بھی پاکستانی وزیرخارجہ یا حکمران سزاتو کیا دلواتا،الٹا پھر سے مستغیث بن جانے سے نہ روک سکا۔کشمیر اور پاکستان کا یہ کیس اب بھی اتنا ہی مضبوط ہے مگر افسوس کہ قابل وکیل سے محروم ہوچکاہے۔اور اب تو یہ کیس ہی پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔جس کا ثبوت ستربرس بعدپاکستانی وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میںکی گئی حالیہ تقریرہے۔

یہاں یہ انتہائی دلچسپ (اور قابل ِ ماتم)تاریخی تواردبیان کرنابھی عین مناسب ہوگا کہ سنہ 1947 ء میں پاکستانی وزیرخارجہ سرظفراللہ خان کی کامیاب سفارتکاری کے نتیجہ میں ہندوستان عالمی پلیٹ فارم پہ اسی طرح تنہارہ گیا تھاجس طرح آج بدقسمتی سے پاکستان رہ گیا ہے۔سرظفراللہ خان کے مضبوط اور برحق دلائل کے بعدبرطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک بجا طورپرہندوستان کی سنجیدگی کو مشکوک اندازسے دیکھنے لگ گئے تھے اور بعد میں اقوام متحدہ نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے بارہ میں کئی قراردادیں بھی منظور کرلیں۔اس پر’’شیرِکشمیر‘‘ شیخ عبداللہ نے اپنی بے بسی کا اظہاربعینہٖ اسی طرح کیا تھاجس طرح آج کے پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے یہ کہہ کر کیا کہ آج کی دنیا کومسلم امہ کے محافظوں سمیت اپنے تجارتی مفادات زیادہ عزیزہیں۔

دیکھیں ستربرس قبل شیخ عبداللہ صاحب اسی طرح کھسیانے ہوکردُورکی کون سی کوڑی ڈھونڈ کر لائے تھے؟۔لکھتے ہیں:۔

۔’’۔۔۔ہمیں بہت جلد معلو م ہو گیا کہ سیکیورٹی کونسل نے ہمیں فروعی معاملات میں الجھا دیا ہے۔وہاں کشمیر کے معاملے کی بجائے ہند پاکستان کا وسیع تر سوال اٹھایاگیااور ایجنڈے میں بھی اس کا یہی نام رکھا گیا۔برطانیہ کی اس دیوانگی میں ایک پرکاری کی ادامضمرتھی۔وہ اگر پاکستان کا اس قدرحمایتی بن گیا تھا تو اس کی ایک خالص تجارتی وجہ تھی۔نپولین بونا پارٹ نے انگریزوںکو دوکانداروں کی قوم قرار دیا تھا۔اور یہاں پر و ہ پھر اپنی نسلی جبلت کا مظاہرہ کررہے تھے۔مشرقِ وسطیٰ میں عرب ممالک کا ایک پورابلاک ابھر رہا تھا۔جن کے پاس تیل کی وافر دولت تھی۔برطانیہ کا وزیرخارجہ ارنٹ بیون پاکستان کو ایک مسلم ملک کی حیثیت سے عرب ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لئے ایک پل کے طورپر استعمال کرناچاہتا تھا۔اور اسی لئے برطانیہ کا اقوام متحدہ میں نمائیندہ ہندوستان دشمنی میں پیش تھا۔‘‘۔(آتشِ چنار صفحہ 474)۔

اس سے قبل آپ اپنانزلہ بھارتی وفد کے دیگر اراکین،یعنی اپنے ہی ساتھیوں پر خوب گراچکے تھے۔چنانچہ پاکستانی وفد میںشامل آزاد کشمیر کے سابق صدرسردارابراہیم خان صاحب اپنی تصنیف’’ کشمیر کی جنگ آزادی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:۔’’ سلامتی کونسل کے اجلاس میںناکامی کے بعدبھارتی مندوب سرگوپال سوامی آئینگر اور شیخ عبداللہ کے درمیان آپس میں سخت کلامی بھی ہوتی رہی کیونکہ شیخ عبداللہ صاحب سر آئینگرپر الزام لگاتے تھے کہ وہ پاکستان کے مندوب اور وزیرخارجہ چوہدری ظفراللہ کامقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘‘۔

بہرحال شیرِ کشمیر شیخ عبداللہ صاحب کے حواسوں پرپاکستانی وزیرخارجہ اسقدر حاوی ہوچکے تھے کہ ان کویادہی نہ رہا تھا کہ’’ دکاندار‘‘ برطانیہ کو عرب بلاک سے پیارکی پینگیںچڑھانے کے لئے کسی پل کی ضرورت ہی نہ تھی۔سلنطت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعدحجازمیں براہ راست برطانیہ کی ہی مدد سے قائم کی ہوئی سعودی بادشاہت ان کایہ مقصد پاکستان سے کہیں بہتراور احسن طورپر پورا کررہی تھی اوراب تک کررہی ہے۔

اگر شیخ صاحب کی یہ منطق یا دلیل درست تسلیم کر بھی لی جائے توبھی اپناسرپیٹ لینے کو جی چاہتاہے کہ سنہ سینتالیس کا نوزائدہ پاکستان ،جو سرظفراللہ خان کے الفاظ میں ’’نہ تومردہ پیدا ہواتھا اور نہ اسے مشین (انکوبیٹر) کی ضرورت پڑی،باوجود نوزائدہ ہونے کے اگر خالص دوکاندارانہ یعنی تجارتی کشش اور مفادات کا حامل تھا توحیف درحیف کہ اس نے آج اپنی یہ حیثیت بھی کھو دی ہے۔آج برطانیہ کی بھی اورعرب بلاک کی بھی تجارتی وابستگیا ں ہندوستان کی طرف پھرچکی ہیں اور ’’ہمارے شاہ صاحب‘‘ وہی الفاظ دھرارہے ہیں جو’’ اُن کے شیخ صاحب‘‘ نے ستربرس پہلے پاکستان کے بارہ میںکہے تھے !۔

شاہ صاحب کے اس قسم کے بیان نے عرب ممالک اور دیگر دوست ممالک کو ایسا ناراض کیا کہ انہیں بھارت کیخلاف انسانی حقوق کے بارہ میں قرارداد لانے کی حمایت کے لئے درکاردرجن بھرممالک بھی ڈھونڈلانا ناممکن ہوگیا۔

٭

Comments are closed.