ہم ایتھوپیا سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں

بیرسٹرحمید باشانی

چند برس قبل میں نے ایتھوپیا پرایک کالم لکھا تھا۔  کالم میں میں نےعرض گزاری کہ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک ایتھوپیا سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔  جواب آں غزل کے طورمجھے کچھ لوگوں کے غصے سے بھرے پیغامات وصول ہوئے کہ میں نے یہ مشورہ دیکر ایک عظیم قوم کی تذلیل کر دی ہے۔  مجھے بتایا گیا کہ اب ہم ایک ایٹمی قوت ہیں۔ اتنے گئے گزرے نہیں کہ ایتھوپیا جیسے بھوکے ننگے ملکوں کے تجربات کے محتاج ہوں۔

 یہ پیغامات ایسے لوگوں کے تھے جو واضح طورخبط عظمت میں مبتلا ہیں۔  یا جو برتری کی مغالطے کا شکار ہیں۔  ان کی خدمت میں مکررعرض کیا کہ آپ ایتھوپیا کے بارے میں جو چاہِیں سوچیں، مگر اس ملک میں سارے انڈیکیٹرز یہ بتا رہے ہیں کہ یہ ملک حیرت انگیز تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے، اور اس کی اس ترقی کا راز جاننے یا ایک آدھ دانش کی بات سیکھ لینے میں آخرحرج ہی کیا ہے۔  مکررجواب ملا کہ ہم کیا کسی سی کم ہیں کہ  ان سے سیکھتے پھریں۔  ہمارے پاس فلاں فلاں علمائے کرام، سائنس دان، اور دانشور حضرات ہیں۔  اس کے بعد مجھے کچھ کہنے کا یارہ نہ رہا۔  

آج جب ایتھوپیا کے وزیر اعظم کو نوبیل امن ایوارڈ دیا گیا تو مجھے وہ گفتگوہ یاد آئی۔  وزیر اعظم کو یہ انعام  اریٹیریا سے امن ڈیل کی وجہ سے ملا۔  مگر اس کے کئی دوسرے شانداراقدامات بھی ہیں۔  اس نے  اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ بد ترین تصادم ختم کیے اور امن کی طرفف قدم بڑھایا۔  اس نے صومالیہ سے سرحدی تنازاعات ختم کیے۔  ملک کے اندر سیاسی قیدیوں کو رہا کیا۔ دہشت گردی کے خلاف قوانین میں ترامیم کیں۔  میڈیا کو مکمل آزادی دی۔  سول سوسائٹی کے متحرک کردار کی حوصلہ افزائی کی۔  مگر ایک وزیر اعظم کی کہانی سے زیادہ خود ایتھوپیا کی کہانی زیادہ دلچسب ہے۔

 ابھی کل ہی کی بات ہے یعنی سن2000میں ایتھوپیا دنیا کا تیسراغریب ترین ملک تھا۔  اس کی کل سالانہ جی ڈی پی صرف چھ سو پچاس ڈالر تھی۔  اس کی کل آبادی کا نصف غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پرمجبورتھا۔  یہاں دنیا میں غربت کی بلند ترین شرع تھی۔  پھر یہاں پر جو تبدیلی آئی وہ حیرت انگیز تھی۔  آئی یم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق سال2000 سے لیکر2016تک ایتھوپیا دنیا میں تیزترین رفتار سے ترقی کرنے والے ممالک میں سے ایک تھا۔  ترقی کی شرع اور رفتار کے اعتبار سےیہ دس ملین یا اس سے زیادہ آبادی رکھنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر تھا۔  جہاں تک مستقبل میں ترقی کی رفتار کا تعلق ہے تو آئی ایم ایف کےا ندازے کے مطابق سن2022تک ایتھوپیا کا جی ڈی پی چھ اعشاریہ دو کی شرح سے بڑھے گا۔  اوراگر یہ رفتار برقرار رہی تو مستقبل قریب میں ایتھوپیا ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔

ایتھوپیا کی تاریخ بڑی ہنگامہ خیزاوردردناک ہے۔  دوسری جنگ عظیم میں ایتھوپیا کی مزاحمتی تحریک نےانگریزوں کی مدد سے اٹلی کو باہر نکال کر ایک آزاد ملک بنایا۔ اس کے بعد کی تاریخ کے بیشتر دور میں اس ملک کو بد ترین قدرتی آفات، بد ترین قحط سالیوں، بد ترین آمریتوں، پڑوسیوں کے ساتھ طویل اور خونی لڑائیوں، بھوک ننگ اور زلت کا سامنا رہا۔  ان حالات و واقعات کی وجہ سے اس کا شمار دنیا کے بد قسمت ترین، لٹے پھٹے اور فاقہ زدہ ممالک میں ہوتا تھا، جن میں کسی اچھے مستقبل، امن اور خوشحالی کی کوئی امید باقی نہیں تھی، مگر سن 2000 کے بعد صورتحال تیزی سے بدلنے لگی۔

 ایتھو پیا کی جمہوریت کی طرف پیش قدمی تو نوے کی دھائی سے شروع ہو گئی تھی۔  مگر 2005 کے انتخابات میں پہلی بار ایک آزاداورشفاف انتخابات کے تحت یہاں پہلی جمہوری حکومت قائم ہوئی۔  اس کے بعد گاہے تشدد ، نسلی لڑائیوں اورہنگاموں اور پڑوسیوں کے ساتھ مسلسل لڑائی کے باوجود جمہوریت اور ترقی کی طرف پیش قدمی جاری رہی۔2005 سے لیکر 2019تک ایتھوپیا نے جو کچھ حاصل کر لیا وہ تیسری دنیا کے بیشتر پسماندہ اور ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک خواب ہے۔

 خبط عظمت میں مبتلا دانشوروں سے پیشگی معزرت کے ساتھ ایک بار پھرعرض ہے کہ ہم ایتھوپیا کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔  جن شعبوں میں ہم یہ استفادہ کر سکتے ہیں ان میں ایک تعلیم ہے  تعلیم ایک ایسا میدان ہے، جس میں اگر ہم ایتھوپیا کے نقش قدم پر چلیں تو اس شعبے میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

  ایتھوپیا نے کئی برس قبل یہ اعلان کر کہ دنیا کو حیران کر دیا کہ ایتھوپیا اپنے کل بجٹ کا پچیس فیصد تعلیم پر خرچ کرے گا۔  اوراس بجٹ کا نصف پرائمری تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔  اس موضوع پر سال2017 میں عالمی بینک نے ایک رپورٹ پیش کی تھی۔  اس رپورٹ کے مطابق سال2005سے2017تک ملک میں اعلی تعلیمی اداروں میں داخلوں کی شرح میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔  ایتھوپیا نے جب تعلیم میں انقلاب کے عزم کا ارادہ کیا تھا تو اسوقت پورے ملک میں کل ملا کر آٹھ سرکاری اعلی تعلیمی ادارے تھے۔  2017 تک ان کی تعداد چھتیس ہو چکی تھی۔

 حکومت نے اعلی تعلیم کی جو پالیسی اپنائی وہ ستر تیس کے نام سے مشہور ہوئی۔ ستر تیس کا مطلب یہ تھا کہ ستر فیصد طلبا کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جائے گی، اور باقی تیس فیصد کو سماجی سائنس اور  فنون عامہ یا علم و ادب پڑھایا جائے گا۔  یہ پالیسی عالمی ضروریات کے تناظر میں بنائی گئی تھی، اور دنیا میں موجود جدید رحجانات سے میل کھاتی ؛ چنا نچہ اس پالیسی نے حیرت انگیز اورفوری نتائج دیے۔ بہت ہی مختصر وقت میں ایتھوپیا ایک قابل رشک رفتار سے ترقی کی راہ پر چل پڑا۔

ہمارا ایک سنگین مسئلہ ماحولیاتی تباہی اورآلودگی ہے۔ اس میدان میں بھی ایتھوپیا سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے کہ اس شعبے میں بھی اس نے حیرت انگیز کارنامے سر انجام دیے ہیں۔  ماحولیاتی الودگی پر قابو پانے کے لیے ایتھوپیا نے پودے لگانے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔  اس نے بارہ گھنٹوں میں تین سو پچاس ملین پودے لگا کر بھارت کا سال2017 کا ریکارڈ توڑ دیا،  جو انہوں نے بارہ گھنٹے میں چھیاسٹھ ملین درخت لگا کر قائم کیا تھا۔  درخت لگانے سے کیا کیا معجزے ہو سکتے ہیں ؟ ہم سب یہ جانتے ہیں، ہم ہر سال دس بلین ٹن سے زائد کاربن ہوا میں پھنکتے ہیں، اور ایک تحقیق کے مطابق اگر دنیا میں پانچ سو ارب درخت لگائے جائیں تو فضا سے کل کاربن کا ایک چوتھائی کم ہو سکتا ہے۔

ہمارے ہاں خوراک ایک بڑامسئلہ ہے،  خصوصا بچوں میں خوراک کی کمی ایک بہت ہی سنگین مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں بچے سٹنٹ ہو رہے ہیں، اور قدرتی نشونما نہین پا سکتے۔  ان کی بے خوراکی ان کی ماؤں کی کوکھ سے شروع ہو تی ہے۔ ہمارے ہاں لاکھوں عورتیں حمل کے دوران کم یا ناقص خوراکی کی وجہ سے آئرن کی کمی کا شکار ہوتی ہیں۔  ہماری طرح ایک وقت میں ایتھوپیا میں یہ مسئلہ کہیں زیادہ سنگین رہاہے، اس ملک میں کئی قحط پڑے ہیں، اور ماضی میں لاکھوں لوگ بھوک و ننگ کی وجہ سے مرتے رہے ہیں۔  اس مسئلے پر قابو پانے کے لیےایتھوپیا نے اس سلسلے میں پروڈیکٹیو سیفٹی نٹ پروگرام کے تحت حیرت انگیز اقدامات کیے۔ اس پروگرام کے تحت بچوں کی خوراک کے بارے میں والدین کی با قاعدہ تعلیم کا بندو بست کیا، یہ پروگرام بطور ماڈل اپنایا جا سکتا ہے۔

 ایتھوپیا سے جو کام نہیں سیکھنا چاہیے وہ حکمرانوں کا مطلق العنانیت کی طرف بڑھتا ہوا رحجان ہے۔  بد قسمتی سے دنیا کے کئی دوسرے ممالک کی طرح ایتھوپیا میں بھی حکمران جمہوریت کے کامیاب تجربے کے باوجود مطلق العنانیت کی طرف مائل ہیں۔  سال2015 سے اس رحجان میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔  اس وقت کی حکومت اختلاف رائے کو برادشت نہیں کر رہی تھی۔  اور اس پر کچھ خاص نسلی گروہوں یا علاقوں کی سرپرستی کا بھی الزام تھا۔

 سال2015سے لیکرمطلق العنانیت کے خلاف احتجاج کرنے والے پانچ سو سے زائد لوگ پولیس کے ساتھ تصادم میں مارے جا چکے ہیں۔  مگر سال2018سے لیکر موجودہ وزیر اعظم نے کچھ اصلاحات کا آغاز کیا ہے، جس سے امید کی ایک کرن پیدا ہوتی ہے۔ 

Comments are closed.