لتا منگیشکر،۔۔۔’عجیب داستاں ہے یہ

شیرازراج 

میں نے لتا جی کو پہلی مرتبہ اپنی ماں کے پیٹ میں سنا تھا۔

میرے امی ابو کی شادی عشق کی تھی، دونوں انتہائی سریلے تھے اور ایک ایسے عہد میں طلوع ہوئے تھے کہ جب زمانہ کروٹ بدل رہا تھا، اور ہند و پاک کا ادیب، شاعر، داشور، فلم ساز، افسانہ نگار،۔۔۔۔۔ ایک ڈیڑھ دہائی تلک بٹوارے کا ماتم کرنے کے بعد، نئے خواب تراش رہا تھا، نئی موتیں ڈھال رہا تھا، نئے دیوی دیوتاوں کو جنم دے رہا تھا۔

یہ خواب ایک انجانی اور ان بوجھی بے قراری اور تیقن میں آنکھوں، دلوں، لفظوں، شعروں، نغموں اور نعروں سے چھلکے پڑتے تھے۔ اسی ذمانے اور اسی نسل کا ایک نوجوان پیڑ راج، اور اس کی نو بیاہتا حسینہ عالم، روزلین راج دن رات رومانوی دوگانوں میں ڈوبے رہتے تھے،۔۔۔’تصویر تری دل میں جس دن سے اتاری ہے’، ’اچھا جی میں ہاری چلو مان جاو نا’،۔۔۔۔’دل جو نہ کہہ سکا، وہی راز دل کہنے کی رات آئی‘،۔۔۔’ناچے گا آنگن میں چھم چھم ننھا سا منا ہمار۔‘۔

روزلین جان باسکو نے روزلین راج بننے سے پہلے جس گھر میں زندگی گزاری وہ گلبرگ لاہور کی مین بلیوارڈ پر، ’شاہراہ انقلاب‘ کا پتہ بتانے والے ایک خواب گرد، ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر سے پانچ منٹ کی پیدل مسافت پر تھا۔ وہیں سے یہ نیم شاعر، نیم صحافی اور نیم انقلابی، پیٹر راج خراماں خراماں ڈاکٹرمبشر کے گھر پہنچا جہاں ایک خواب آور، خواب ساز، ذوالفقارعلی بھٹو ایک نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھ رہا تھا اور ملک بھر کے خواب ذدوں کی امنگوں کا محور بن گیا تھا۔ سن تھا س67 اور تاریخ تھی 30 نومبر۔ اس سے تین ماہ قبل پیٹر راج ایک بیٹے کا باپ بن چکا تھا۔

لارنس روڈ پر واقع سینٹ انتھونی ہائی سکول کے ملازمین کے لیے مختص فلیٹوں کی جس کشادہ چھت پر کھیلتے میرا ابتدائی بچپن گزرا، اس چھت پر ایک خطرناک بوڑھے کا قبضہ تھا جو بلند شہر کا راجپوت اور گورے صاحب کا چپڑاسی ہونے کی نخوت سے ابھی تک نکل نہیں پایا تھا۔ یہ میرا دادا تھا جسے ہنستے مسکراتے ہوئے انتہائی بزرگ ہونے کے بعد ہی دیکھا گیا۔ اس کے گوشت پوست کے انسان ہونے کا شائبہ اس وقت البتہ ہوتا تھا جب وہ چھت پر پڑی چارپائی پر بیٹھا، سروتے سے چھالیا کاٹتے ہوئے، بعض اوقات بے اختیار گنگنا اٹھتا تھا،

نا در دینا، تا نا دے رے نا،۔۔۔۔ـ‘

اسی چھت کے ایک کونے سے کیتھڈرل چرچ کے بلند میناروں سے پرے، ریگل چوک کی مسجد شہدا کا مینار بھی دکھائی دیتا تھا۔ ایک روز اس مسجد اور اس سے ملحقہ مال روڈ سے اٹھتے نعروں کی گونج اس چھت تک پہنچ گئی تھی۔ میں نے اپنی پھوپھی سے پوچھا تھا کہ یہ لوگ کیوں چیخ رہے ہیں۔ پھوپھی تو خاموش ہو گئی لیکن چچا نے بتایا تھا کہ یہ نو ستارے ہیں جو مہہ کامل کو گرانا چاہتے ہیں۔ میری پھوپھیاں اور چچا، نوجوان لڑکے لڑکیاں، کیتھڈرل چرچ کی مشہور زمانہ کوائر کے درخشاں ستارے تھے۔ سبھی سریلے تھے۔ میری ایک پھوپھو سے ہر جگہ مدن موہن کی یہ غزل سنی جاتی تھی،

یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے۔۔۔۔۔۔خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیےـ‘

مدن موہن ہی کا گیت، ’ لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو‘ بھی وہ بہت خوب گاتی تھیں بلکہ اب بھی گاتی ہیں۔ ہمارے خاندان کی ہر خوشی کے اجتماع میں کھانے اور ’پینے‘ کے علاوہ صرف گانے ہی گائے جاتے ہیں،۔۔۔۔رات رات بھر،۔۔۔سبھی چھوٹے بڑے،۔۔۔۔سب۔ 

میری زندگی میں ایسے دن کم ہی ہوں گے کہ جب میں نے لتا جی کا کوئی گیت سنا یا گایا نہ ہو۔ سریلا تھوڑا بہت میں بھی تھا اور رب کی اس مہربانی کے طفیل نہ کبھی تنہائی کا احساس ہوا اور نہ اس کیفیت کا تجربہ ہوا جسے بوریت کہا جاتا ہے۔ چھتوں، چوراہوں، گلیوں، چوباروں، کمروں، بیٹھکوں، تہہ خانوں، پارکوں (ہائے،۔۔۔لارنس گارڈن)، بسوں، سائیکلوں، گاڑیوں، ٹرینوں، ویگنوں، رکشوں، ہوائی جہازوں،۔۔۔۔پلازوں، دفتروں، ہالوں میں،۔۔۔۔ میزوں، کمپیوٹروں پر رپورٹیں، فیچر، ادارئے لکھتے ہوئے، انسانی، نسوانی، حیوانی حقوق پر ورکشاپیں، مکالمے، کانفرنسیں کرتے ہوئے،۔۔۔جلسے، جلوس، پمفلٹ، وال چاکنگ،۔۔۔۔اور لاہور کی ایک دیو مالائی پہاڑی پر، چاند سے مس ہوتے کھجور تلے، بھڑکتے الاو کے گردا گرد جوڑے، ادھے اور پورے کھولتے، پیتے اور پھینکتے ہوئے،۔۔۔۔یکے بعد دیگرے، یکطرفہ، دوطرفہ اور بعض اوقات سہہ طرفہ عشق میں روتے، بسکتے، ہنستے، ہنساتے ہوئے،۔۔۔۔

شراب راج‘ لاہور کا بدنام زمانہ ’گردہ نوش‘ تھا۔ محفل کوئی بھی ہو، چوتھے، پانچویں پیگ یا دوسرے تیسرے جوڑے کے بعد، میز، کتاب، سگریٹ یا ماچس کی ڈبیا بجاتے ہوئے اس نے جب بھی کوئی گیت چھیڑا، سماں باندھ دیا،۔۔۔۔اور اسے بلامبالغہ سینکڑوں گیت یاد تھے (اگر یقین نہ آئے تو اظہر جعفری مرحوم،طاہر اصغر مغفور، رضی حیدر مجبور، امیر جعفری مسحور، انوار ناصر مسرور، شفقت اللہ مخمور یا حسین عابد مفرور سے پوچھ لو)۔ گلبرک کے سینٹ لارنس سکول کے ڈیسک بجا کر گانے کا جو سفر شروع ہوا تو وہ برسلز میں آ کر ختم ہوا جہاں وہی شراب راج ایک پرچون کی دکان پر شراب بیچ رہا ہے اور اسے شراب چھوڑے سات برس بیت گئے ہیں، گردہ، چرس اور میری جوانا چھوڑے پانچ برس بیت گئے۔ سادی سگریٹ چھوڑے دو برس گزر گئے،۔۔۔۔جو باقی بچا ہے وہ چند رشتے ہیں، انکی یادیں ہیں، کچھ خواب ہیں اور کچھ آوازیں اور ان کی لہروں پر سوار کچھ گیت، غزلیں، ٹھمریاں، راگ راگنیاں ہیں جو دھیرے دھیرے اور دھیمے دھیمے رگ و پے میں اترتی رہتی ہیں اور تنہائی، بوریت یا رائیگانی کا احساس نہیں ہونے دیتیں۔

میں اگر آج لتا جی کے سرہانے جا سکتا تو انہیں بتاتا کہ میں نے جس ماں کے پیٹ میں انہیں پہلی مرتبہ سنا تھا، وہ چند برس پیشتر، ایک طویل عرصہ ہسپتال میں گزار کر مر گئی۔ آخر تک ہم ماں بیٹا کچھ نہ کچھ گاتے رہے۔ آخر کار، جب اس کا گلا بند ہو گیا، موت آتے آتے آنکھوں میں آ گئی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر، اس کے کان کے قریب سرگوشی میں وہی گانا گایا تھا جو شاید اس کے پیٹ میں سنا تھا،۔۔۔۔۔۔۔۔عجیب داستاں ہے یہ، کہاں شروع کہاں ختم،۔۔۔۔۔۔یہ منزلیں ہیں کون سی، نہ وہ سمجھ سکے نہ ہم،۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں چمک رہیں تھیں اور ان میں رچی موت ماند پڑ چکی تھی۔


Comments are closed.