پرائیویٹ لا کالجز بمقابلہ میڈیکل کالجز

لیاقت علی

سنہ1977 تک لاہور میں صرف دو لا کالجز۔۔۔ یونیورسٹی لا کالج اور حمایت اسلام لا کالج ہوا کرتے تھے ۔ یونیورسٹی لا کالج نہ صرف پنجاب بلکہ شمالی ہند میں قانون کی تعلیم دینے والا قدیم ترین ادارہ تھا۔ جب بھٹو نے تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لیا تو انجمن حمایت اسلام کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کو بھی قومیا لیا گیا۔

ضلع کچہری لاہور کے بالمقابل واقع اسلامیہ کالج سول لائنزانجمن کا ملکیتی کالج تھا جب یہ قومیا گیا تو انجمن نے اس کالج میں اپنا لا کالج بنا لیاجو حمایت اسلام لا کالج کہلاتا تھاجہاں شام کے وقت کلاسز ہوتی تھیں اورعام طورپرملازمت پیشہ افراد اس لا کالج میں داخلہ لیتے تھے۔ ضیائی مارشل لا کے بعد حمایت اسلام لا کالج کو یونیورسٹی لا کالج میں ضم کرکے وہاں شام کی کلاسز کا آغاز کیا گیا۔

اسی طرح 1974 تک صرف ایک میڈیکل کالج ۔کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج تھا جو انگریز دور میں قائم کیا گیا تھا۔ بھٹو حکومت نے پنجاب کے تین چار شہروں میں میڈیکل کالج قایم کئے۔ لاہورکاعلامہ میڈیکل کالج اورلائل پورحال فیصل آباد کاپنجاب میڈیکل کالج بھٹو دور میں قائم ہوئے تھے۔
جماعت اسلامی جنرل ضیا کے مارشل لا کی شریک کار تھی۔ لہذامارشل سرکار کی پشت پناہی سے نہ صرف جماعت اسلامی نےبحیثیت سیاسی جماعت بلکہ اس کے وابستگان نے بھی دھڑا دھڑ تعلیمی ادارے قائم کر لئے۔ دو دہائیاں قبل شائد پہلا پرائیویٹ لا کالج جماعت سے وابستہ افراد نے وارث روڈ پر لاہور لا کالج کے نام سے قائم کیا تھا۔

ایک دفعہ پرائیویٹ لا کالجزقائم کرنے کا سلسلہ جو شروع ہوا تو پنجاب بھر میں لا کالج کھمبیوں طرح اگنا شروع ہوگئے۔ جنرل ضیا کےدور ہی میں لا کالجز کے ساتھ ساتھ میڈیکل کالجز بھی پرائیویٹ سیکٹر میں بننا شروع ہوگئے تھے اورآج یہ صورت حال ہے کہ میڈکل کالجز، لا کالجز سے تعداد میں زیادہ ہوگئے ہیں۔

میڈکل کالجز میں عام طور پر ذہین اور تعلیمی طور میدان اعلی کارکردگی کے حامل طالب علموں کو داخلہ ملتا ہے جب کہ لا کالجز میں داخلہ لینے والے عام طور پر وہ طالب علم ہوتے ہیں جو تعلیمی میدان میں پسماندہ ہوتے ہیں اور جنھیں کہیں اور داخلہ نہیں ملتا تو وہ لا میں داخلہ لے لیتے ہیں پرائیویٹ لا کالجز نے ایسے طالب علموں کے وارے نیارے کردیئے ہیں فیس دو،داخلہ لو اور تین سال بعد ڈگری لے لو۔

لا کالجز میں داخلہ لینے والے طلبا کی اکثریت چھوٹے زمین داروں اور کسانوں کے بچوں کی ہوتی ہے۔ جنھیں چودہراہٹ، سما جی اونچ نیچ اور صنفی امیتازوراثت میں ملا ہوتا ہے۔دیہی پس منظر سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان وکلا جوعام طور پر کم زور معاشی اور سماجی فیملی بیک گراونڈاورکمزور ایکڈیمک بیک گراونڈ کے حامل ہوتے ہیں دوسروں پر ناروا رعب ڈال کر، بات بے بات لڑائی جھگڑا اور مار کٹائی کرکے اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دیہات سے آنے والے یہ نوجوان واپس اپنے گاوں جانے کی بجائے شہروں میں اپنے قدم جمانے کی جدوجہد کرتے ہیں اور اس جدوجہد کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو طاقت کے زور پر ہٹا دینا چاہتے ہیں۔وہ ذہانت اور قابلیت کی بجائے گٹھ بندی کے زور پر اپنا کام کرانے پر یقین رکھتے ہیں۔وہ چھوٹے چھوٹے جتھوں کی شکل میں کام کرتے اور عدالتوں اور ججوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ان کے برعکس پرائیویٹ میڈیکل کالجز سے فارغ التحصیل ہونے والے ڈاکٹرز کھاتی پیتی فیمیلیوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ پچاس لاکھ روپےسے اوپر فیسوں کی مد میں دے کر ڈاکٹرز بنے ہوتے ہیں اس لئے وہ بھی بے جا تفاخر کا شکار رہتے ہیں کیونکہ انھیں کمانے کی اتنی شدت سے ضرورت نہیں ہوتی جتنی کہ ایک نوجوان وکیل کو ہوتی ہے کیونکہ ان کے گھر میں ضرورت کی ہر چیز نہ صرف موجود بلکہ وافر طور پر موجود ہوتی ہے۔وہ غرور تکبر اور احساس برتری کا شکار ہوتے ہیں۔ انھیں مریضوں سے ہمدردی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی وہ جلد سے جلد اپنا پرائیویٹ کلینک یا ہسپتال بنانے کی دوڑ میں لگے ہوتے ہیں۔ وہ سرکاری ہستپال میں آنے والے مریضوں کو گھٹیا اورکمینہ سمجھ کر ان کی تذلیل کرتے اور اس میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

اگر بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وکلا اور ڈاکٹروں کے مابین یہ لڑائی دو مختلف سماجی اور معاشی پس منظر کے حامل پروفیشنل گروپوں کے مابین ہے۔

Comments are closed.