اب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، حکومت کے نشانے پر

ایک ہزار ارب روپے کی روزانہ کرپشن اور دو سو ارب ڈالر کی بیرون ملک واپسی کی ناکامی کے بعد اب عمران خان کی حکومت کا اگلا نشانہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بن گیا ہے۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے اس پروگرام میں سرکاری افسران اور ان کی بیگمات کے نام سے جعلی اکاونٹ بنا کر رقم لینے کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔

عمران خان حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کرپشن کے خلاف کاروائی کرنے کا جو اعلان کیا تھاوہ تمام کا تمام جھوٹ ثابت ہو چکا ہے۔کرپشن کے الزامات کا پہلا نشانہ نواز شریف تھے چونکہ اب وہ ایسٹیبشلمنٹ کے ساتھ مک مکا کرکے باہر چلے گئے ہیں لہذا اب اس کا نشانہ ایک بار پھر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن رہی ہے جو کہ ایسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں بری طرح کٹھک رہی ہے۔ کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبہ سندھ اپنے وسائل مرکز کو سرنڈر کرنے کے لیے تیار نہیں جیسا کہ باقی صوبے کر چکے ہیں۔

یاد رہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پورے ملک میں جاری ہے جبکہ کرپشن کی اطلاعات صوبہ سندھ سے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ اس سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہوں ۔ان الزامات میں کتنی حقیقت ہے اس کا تب پتہ چلے گا کہ ان افراد کو فراڈ اور دھوکہ دہی کے جرم میں عدالت میں مقدمے دائر کیے جائیں۔حکومت کو چاہیے کہ جھوٹا پراپیگنڈہ کی بجائے ان جعلی لوگوں کو ایکسپوز کریں، ان سے رقوم واپس لیں اور انہیں فوری طور پر نوکری سے برخاست کیا جائے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیا ہے

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے شروع کیا تھا جس کا مقصد ملک سے غربت کا خاتمہ اور بالخصوص خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنا تھا۔ پروگرام کے تحت ملک بھر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تقریبا 52 لاکھ افراد کو سہ ماہی بنیادوں پر مالی امداد کی جاتی ہے۔ حال ہی میں اس امداد کو کابینہ نے افرط زر سے منسلک کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ملک میں مہنگائی بڑھنے پر امداد میں 500 روپے اضافہ کیا جائے گا۔

اس پروگرام کے تحت خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والی خواتین کی پانچ ہزار روپے کیش امداد کے علاوہ بعض مستحق افراد کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے پر 750 روپے کیش معاوضہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کی تعداد 23 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملک بھر کی قومی و سماجی معاشی رجسٹری بھی تیار کی جا رہی ہے، جس کا کام آخری مراحل میں بتایا جاتا ہے۔۔ دستاویزات کے مطابق، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا 2018-19 کے لئے سالانہ بجٹ 124 ارب روپے سے زائد رکھا گیا تھا۔

کچھ دانا دوستوں کا کہنا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام گداگروں کی کی بڑھوتری کا نادر پروگرام ہے۔ جبکہ بےنظیر انکم سپورٹ ایک مکمل سوشل سکیورٹی کا پروگرام ہے۔اس پروگرام کے دو مرحلے ہیں۔ پہلے مرحلے میں غریب گھرانوں کی نشاندہی کرکے انھیں ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے ۔

جبکہ دوسرے مرحلے میں ، جس کو وسیلہ روزگار پروگرام کہتے ہیں، ہرسال 35 لاکھ گھرانوں کو یکمشت سات لاکھ روپے کی ادائیگی کے ذریعہ اس پروگرام سے باہر کیا جاتا ہے اور کیا جارہا تھا۔ جن لوگوں کو یکمشت سات لاکھ روپے ادائیگی کی جاتی ہے ان کو کاروبار چلانے کے لئے تربیت اور نگرانی بھی کی جاتی ہے تا آنکہ ان کا کاروبار منافع بخش ہو جائے جب ان کا کاروبار منافع بخش ہو جائے تو انہیں امداد کی فراہمی روک دی جاتی ہے ہیں۔ لیکن نوازشریف دور میں اس پر کچھ قدغنیں لگا دی گئیں۔

بین الاقوامی مالیاتی اداروں سوشل سیکیورٹی پروگرام کو دنیا کے بہترین منصوبوں میں سے ایک منصوبہ قرار دیا گیا ہے۔یاد رہے کہ اس پروگرام کے فنڈز کا ایک روپیہ حکومت پاکستان ادا نہیں کرتی۔ اس کے لیے وسائل شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بین الاقوامی چیرٹی پروگرامز سے حاصل کیے تھے۔ اس لیے نواز شریف کی حکومت میں اور پی ٹی آئی کی حکومت میں اسے بند کرنا ممکن نہیں رہا۔جونہی حکومت اس پروگرام کو بند کرے گی اس کے لیے دستیاب فنڈز کی فراہمی معطل ہوجائے گی۔

Web Desk/قانون فہم کے قلم سے

Comments are closed.