قصہ دو سو ملین ہجوم کا

آمنہ اختر

سال ۲۰۱۹ کا ہے گلوبل ولیج میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس  کی آبادی ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔کہیں  اونچے اونچے شاپنگ پلازے اور ان میں غیر ملکی برانڈ کی دوکانیں، کرسٹل سے بنے برقی قمقمے سے غیر ملکی برانڈ کے کپڑوں اور اشیا پر روشنیاں بکھیر کر گاہگ کو لبھا رہی ہیں تو دوسری جانب  کھانے کی اشیا ہیں کہ لوگ اپنی جیبوں سے پیسے نکال کر صرف ایک  پلیٹ  خریدنے کے لئے بے قرار ہیں ۔یہ کھانا ان کے پیٹ بھرنے کے لئے نہیں بلکہ ایک اچھی سی تصویر لینے اور تسکین کے لئے ہے کہ ہم نے بھی اس دکان سے آخر کار کھا ہی لیا ہے یعنی اپنی اوقات اونچی کرنے کے ڈھنگ ہیں جو وہ تصویروں میں محفوظ کر کے  اپنے دل دماغ کو سکون دیں گے۔

ان مہنگے پلازوں کے باہر بیشمار گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں جن کی لائینیں سیدھی کروانے کے لئے سستی افرادی قوت دستیاب ہے ۔ان پلازوں میں ہجوم باہر کے ہجوم سے کم ہے مگر یہ پلازے اپنے اندر پاکستان میں ریت رواج اور اسلامی ثقافت میں کچھ تبدیلی کی فضا بکھیر رہے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں سر مایہ دارکی نظر میں سوائے پیسے کہ کوئی اور مقصد نہیں   مگر  اسلامی ملکوں میں  وہ چاہے ان کے ہوائی اڈے ہوں یا شاپنگ مال ،یہاں سیکولر ملکوں کی پیداوار اور ثقافت جیسے شراب اور   مغربی  لباس کو رواج دے ر ہے ہیں ۔لوگ آپ کو ہر رنگ میں نظر آئیں گے کہیں کہیں غیر ملکی بھی نظر آتے ہیں مگر  ان غیر ملکیوں میں زیادہ تعداد چائنہ کے لوگوں کی ہے ۔

ان پلازوں کے باہر کپڑوں سے بنی جھونپڑیوں میں انسانی  لوگ ہی ہیں جو آباد ہیں ۔مگر ان جھونپڑیوں والوں کے مقدر صرف بھیک مانگنے میں ہی پورے ہو جاتے ہیں ۔زرعی زمینیں لوگوں سے خرید کر ہاوسنگ سوسائٹیاں بنانے والے اونچی اونچی دیواروں سے اس بات کو باور کروا رہے ہیں کہ سر پر چھت اسی کی ہو گی جس کے مقدر میں پیسہ ہے دوسرے اپنی جھونپڑیاں بنائیں اور اپنے مقدر خدا سے مانگیں ۔

جہاں پاکستان میں سماجی اور معاشی طور پر انسانوں کے بہت سے طبقے ہیں وہاں اب غریب بھی بہت سے طبقوں میں بٹ گئے ہیں ۔یہ غربت کا وہ طبقہ ہے جہاں عورتیں اور مرد دونوں جنس بیچ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں ۔ مگر کچھ بھی ہو ہوا کی آلودگی ،پانی کا زہر آلود ہونا ، کھانے کی اشیا کا ملاوٹ زدہ ہونا وہ کسی بھی سماجی اور معاشی طبقے کو آنے والے سالوں میں تندرست  زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہنے دے گا ۔

مافیا کی مثالیں میکسیکو اور برازیل جیسی ہی بدتر ہیں۔اور مافیا کی بھی بہت سی قسمیں ہیں جن میں کاروباری مافیا ،پلاٹ خالی کروانے والا مافیا، زمینوں سے بھتہ لینا والا مافیا ،اپنے علاقے میں بدمعاشی قائم رکھنے کا مافیا،ٹھیلے والوں سے بھتہ وصول کرنے والا  مافیا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔

کچھ سال پہلے کی بات ہے جب ان کاموں میں زیادہ بڑی تعداد مرد حضرات کی تھی مگر اب چونکہ غربت کے ساتھ ساتھ دوسروں لوگوں کو بھی کنٹرول میں رکھنا ہے اور اپنے ساتھ ہوئی زیادتیوں کا بدلا بھی لینا ہے اس لئے عورتیں بھی بھر پور طریقے سے اپنے مردوں کا مافیا کے کاموں میں ہاتھ بٹا رہی ہیں ۔اسلحہ اپنے پاس رکھنا اپنی حفاظت اور دوسرے کو دبانے کی ضمانت ہے جو کہ اب عورتیں بھی اپنے پاس رکھنے لگی ہیں گو کہ یہ تعداد ابھی کم ہے مگر آنے والے سالوں میں ملک کا نظام جوں کا توں رہا تو ہر عورت اور بچہ اسلحہ رکھنے میں ہی صرف اپنی جان کو محفوظ پائے گا ۔

 اردو ہے ہماری زبان !

 جی نہیں سرکاری سکولوں کا نصاب انگریزی میں کر دیا گیا ہے ۔یہ اور بات کہ خاندان والوں کو پوری اردو یا پنجابی کی بھی سمجھ آتی ہو یا نہ آتی ہو وہ اب انگریزی سیکھ کر بچوں کی پڑھائی میں رہنمائی کریں گے ۔یہ کیسے ممکن ہو گا اسکا کوئی واضح لائحہ عمل موجودہ  حکومت دینے کے قابل  ہے ہی نہیں  ۔

گھر گھر میں مولوی کی بے حیائی کے چرچے ہیں مگر مائیں ہیں جو بچوں کی ان کی مذہبی تدریس کے دوران نگرانی کرتی ہیں مگر ان کی کوتاہی   بچے کو کہاں  پہنچا دے گی اس سے وہ باخبر  بھی ہے مگر مجبور ہیں کہ وہ قرآن کا تلفظ مولوی سے ہی درست کرواے۔اس لیے مذہبی تعلیم کی ٹیوشن  ادا کی جاتی ہے ۔یعنی عبادت کا عمل بھی ایک طبقاتی عمل سے گزر کر کرنا پڑتا ہے ۔

ابھی بچوں کی جنسی تعلیم میں رہنمائی ہوئی نہیں مگر ننگی فلمیں اور تصویریں بچوں اور بچیوں کی زندگیوں کو دیمک کی طرح کھا رہی ہیں ۔جس  ملک میں شادی شدہ افراد کو فیملی پلاننگ کی تربیت سے محروم رکھا گیا ہو۔اور  ڈاکٹر حضرات فیملی پلاننگ مذہبی طور پر غلط قرار دے کر ان کی رہنمائی نہیں کرتے وہاں نوجوان بچیوںاور بچوں  کی جنسی سرگرمیوں کی صورت میں ہونے والی کوتاہیوں کی اصلاح کیسے ممکن ہو گی ۔ان مسائل سے کیسے نمٹنا ہے۔

افسوس اس سے کیا غرض ہو مجھے اور آپ کو بس ایک ہجوم دکھائی دیتا ہے جو کہ کھاتا، پیتا ،  چلتا  ،روتا ،ہنستا نظر آتا  ہے ۔ وہ  آپ کی آنکھ سے اوجھل  نہیں ہوتا ،کم بھی  نہیں  ہوتا بلکہ بڑھتا چلا جا رہا ہے!اور اب سنہ دوہزار بیس  میں ہے ۔

Comments are closed.