مادری زبانوں پر چھائی لمبی رات

حسن مجتبیٰ

پاکستان سمیت برصغیر واقعی رہنے کی جگہ ہوتی اگر اس میں زبان کا تعصب نہ ہوتا۔ زبان کے تعصب نے ہندی اردو جھگڑے میں پہلے ہندوستان اور پھر اردو بنگالی جھگڑے نے پاکستان کو دو لخت کیا جس سے دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا۔

تاریخ سے سبق پاکستانی ارباب اختیار کہاں سیکھتے ہیں اور اسکے عوام الناس ہیں کہ اپنی اپنی ماں بولیوں کے حقوق اور زبان کی تنگ نظری کی بنیاد پر دیگر تاریخی و فطری حقوق سے محروم۔ پاکستان میں بچے اپنی اپنی ماں بولیوں یا مادری زبانوں میں تعلیم سے بھی محروم۔ تعلیم تو درکنار ایسی بھی زبانیں ہیں جو دھیرے دھیرے وقت گزرنے کے ساتھ معدوم ہوتی جارہی ہیں۔

سب سے بڑا ظلم اس پنجابی پر اپنے ہی اسکے بولنے والے بیٹوں نے روا رکھا جنہیں غلط یا برابر پاکستان پر اکثریتی راج کرنے والا کہا جاتا ہے۔ یہ کیسی قوم ہے جس کے اپنے بچے اپنی زبان بولنے ، پڑھنے ، لکھنے سے برسوں عشروں سے محروم ہیں۔ پنجابی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت اپنی ماں بولی یا مادری زبان میں بات کرنے پر شرمساریمحسوس کرتی ہے۔

مجھے مشرقی پنجاب کا تو معلوم نہیں لیکن پاکستانی پنجاب یا مغربی پنجاب میں اپنے ہی بیٹوں کے ہاتھوں دھتکاری گئی۔ بلکہ پنجابی زبان و ادب کی تحریک کو پیارے پاکستان میں مشکوک سمجھا گیا ۔ بلکہ اس تحریک میں تھوڑے بہت سرگرم لوگ معتوب ٹھہرائے گئے۔ کئی کیسوں میں غدار بھی۔ لیکن کئی لوگ بلھے شاہ کی اس دھرتی پر تھے جو اپنی ماں بولی اور پنجابی ادب کے تحفظ اور ترویج میں اگلے مورچوں پر رہے۔ کئی خاموش اور گمنام خدمتگار بھی رہے۔

عظیم شاعر امام دین مسعود کھدر پوش، استاد دامن، صوفی غلام مصطفی تبسم، شفقت تنویر مرزا، نجم حسین سید، فخر زمان، نسرین انجم بھٹی، میرے دوست ڈکٹر منظور اعجاز اور سید آصف شہکار، احمد سلیم، مشتاق صوفی، غلام محمد ہاشمی، ظفر یاب احمد، راجہ رسالو، زمان خان، افتی نسیم، نجم حسین سید کی اہلیہ ثمینہ، مظہر ترمذی، مصدق سانول (باوجود مادری زبان سرائيکی ہونے کے ) ، طاہر مہدی ، حسین نقی (مادری زبان اردو) آغا رفیق (حال ساکن نیویارک) ، مسعود قمر، ستار طاہر، امجد سلیم، عرفان ملک ، افضل راہی، کامران ندیم، ، با با عبیر ابوذری فقط چند نام ہیں جنہیں میں جانتا ہوں یا سنے ہیں۔

کسی نے فیض احمد فیض سے پوچھا تھا کہ انہوں نے پنجابی زبان میں شاعری کیوں نہیں کی تو فیض صاحب نے فرمایاتھا کہ بھائی پنجابی زبان میں جہاں بلھے شاہ اور شاہ حسین جیسے اتنے بڑے شاعر تھے وہاں ہماری دال کہاں گلنی تھی! شاید یہ حقیقت بھی ہو۔

لیکن کمال حسین نقی جیسے صحافی کا تھا کہ جن کی اپنی مادری زبان اردو تھی 1990 کے پنجاب میں جب نواز شریف کی حکومت تھی، پنجابی زبان کا پہلا روزنامہ سجن جاری کیا ۔ جس میں تمام کے تمام لوگ رضاکارانہ طور پرکل وقتی اور جز قتی کارکن تھے۔ اور ادارت سے لیکر اخبار کے ہاکر ہونے تک شریک تھے۔ لیکن پنجابی کے پہلے اخبار کی راہ میں سب سے زیادہ روڑے اسی صوبائی حکومت نے اٹکائے جسکے وزیر اعلیٰ نے اسوقت جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ بلند کیا ہوا تھا۔ آخرکار پنجابی عوام اور خواص کی اپنی زبان کی طرف بے مہری دیکھ کر سجن کو بند ہونا پڑا۔

سرائیکی زبان جو سندھ میں کئی لوگوں کی پہلی یا دوسری زبان ہے اور سندھ اورسرائیکی وسیب سمیت پختونخوا اور بلوچستان کے وسیع حصوں میں بولی جاتی ہے بھی اپنے اکثریتی بولنے والوں کی طرح اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے ۔ اس موقعے پر میرے مہربان بزرگ میر حسان الحیدری کو یاد نہ کرنا خود پر ظلم ہوگا کہ جنکا اپنی مادری زبان کی تحریک اور زبان کو نام سرائیکی دینے میں اہم اور تاریخی کردار رہا ہے۔

عزیز شاہد، عظیم سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی (اگر کسی کو سرائیکی وسیب اورسرائیکی زبان کے ساتھ سلوک اور بے قدری دیکھنی ہو تو وہ اسکے اس عظیم شاعر کی طرف اپنوں اور پرایوں کی طرف سے آج برتی جانیوالی بے حسی کی حد تک بے اعتنائی اور بیقدری دیکھے)، تاج محمد لانگاہ اور انکی صاحبزادی ڈاکٹر نخبہ لانگاہ (کہ جنکی تحقیق سرائیکی کی مزاحمتی شاعری پر ہے) ، ماسٹر فدا حسین اور انکے سرائیکی لوک سانجھ کےساتھی، شادن کے ظفر بلوچ، اشو لال فقیر، میرا دوست پروفیسر جاوید چانڈیو، نذیر لغاری، انور سن رائے، مظہر عارف، شاہد جتوئی ، طاہرہ مسعود ( بہاولپور صوبہ تحریک کی ستر کی دہائی کی جو کہ شاید کسے یاد بھی نہ ہوں) نے اپنی ماں بولی کی تحریک اور ترویج میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ یہ سب دوست بس مادری زبانوں کے دن پر یاد آنے لگے۔ اس سرائیکی شعر کی طرح:۔
ہوندے گھر دا رستہ کیویں یاد نہ رہسی
ڈوں تاں سارے جنگل آوندن
ترے تاں سارے دریا

یہ لوگ اس سرائیکی ایلیٹ کے برعکس تھے جو غلام مصطفیٰ کھر تھے کہ سردار فاروق لغاری ، بلخ شیر مزاری تھے کہ گیلانی قریشی یا کوئی اور بس جب کرسی سے محروم ہوتے تو محرو م سرائیکیوں کے حقوق یاد آتے اور انکی احساس محرومی کے طفیل جاکر اسلام آباد یا تخت لاہور کے راج سنگھاسن پر جلوہ افروز ہوتے پھر نہ وہ سرائیکی ہوتے نہ انکی مادری زبان کے اور نہ ہی اسکو ذریعہ تعلیم اور زبان سرکاری بنانے کے نفاذ کی کوشش کرتے۔

وہی حال سندھی وڈیروں کا ہے مجیب پیرزادہ کی طرف سے پیش کیے جانیوالے قومی زبان کے بل کو زرداری پی پی پی ہی کی حکومت میں قومی اسمبلی میں شکست ہوئی تھی۔

بلوچی اور پشتو زبانیں توتھیں ہی حساس قومی معاملہ۔ اجمل خٹک، عبدالغنی خان، گل خان نصیر،بانو دشتیاری، آزاد جمال دینی، بلوچ دانشوادیب و استاد صبا دشتیاری رحیم بخش آزاد یہ لوگ جنہوں نے اپنی مادری زبان کو اپنی آنکھیں اور جانیں دی ہوئی ہیں۔ اجمل خٹک اور گل خان نصیر کو قید و بند سے گزرنا پڑا جو لاشک اپنی اپنی زبانوں پشتو او بلوچی کے قومی شاعر تھے۔سندھی شاعر نارائن شیام نے کئی برس قبل اپنی مادری زبان کے مستقبل پر کہا تھا۔

نہ مبادا کہیں یہ کتابوں میں دیکھیں
تھی سندھ اور سندھ والوں کی بولی

لیکن سندھ کے پاکستان کے قیام میں پیش پیش ہونے کے باوجود اسکی زبان کو کراچی سے شہر بدر ہونا پڑا، اسکے شاعر اور ادیب اپنی زبان اور ادب کی تحریک میں یا شعر اور ادب کی تخلیق پر جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ ایک طویل فہرست ہے: شیخ ایاز، رشید بھٹی، رسول بخش پلیجو، ابراہیم منشی ، سرویچ سجاولی، عبد الواحد آریسر، طارق اشرف، ایوب کھوسو یہ سب لوگ تھے جنکو اپنی تحریروں کی وجہ سے قید و بند سے گزرنا پڑا فقط چند نام ہیں۔یہ سب کچھ تب ہوا جب اس ملک میں ایک زبان کو مقدس اور باقیوں کو کفر سمجھا گیا۔ یہ کہیں نہیں ہوتا کہ ایک زبان مقدس اور باقی سارے شودر ٹھہرائے جاتے ہیں۔ غدار ٹھہرائے جاتے ہیں۔

اُردو شاندار زبان ہے ولی دکنی، میر و غالب سے لیکر فہمیدہ ریاض اور جاوید اختر تک سب کی زبان ہے لیکن اگر اس قومی زبان کے ساتھ ملک کی اصلی قدیمی تمام زبانیں بھی بنگلہ سمیت قومی زبانیں قرار دی جاتیں تو کیا مضائقہ تھا. ایسا کرنے سے ملک ٹوٹتے نہیں مضبوط ہوتے ہیں۔

زبانوں کے نام پر مارے جانیوالے بنگالی گبھروؤں کا گنج شہیداں اب تاریخ کا جصہ ہے ۔ اسی طرح اردو اور سندھی کے نام پر بھی اس ملک کے صوبہ سندھ میں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ سندھی کو سندھ  کی سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا مطلب اردو کا جنازہ نکالنا، ہر گز نہیں تھا جو کہ اصل میں ایک پرانی نظم تھی جو تقسیم سے قبل ہندی اردو کشمکش کے موقع پر لکھی گئی تھی جس نے1972میں جلتی پر تیل کا کام دیا تھا۔

ادھر سندھی زعما میں ایسے بھی تھے جنہوں نے اردو پڑھنا سندھ اور سندھی دشمنی قرار دیا نتیجہ یہ ہوا کہ سندھی نوجوانوں کی تین نسلیں اس حوالوں سے مکمل بے علم رہ گئیں۔ کیونکہ بہترین ادب اور سائنس یا سیاست پر کافی مواد اردو میں ہی تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اُردو والوں نے قرۃ العین حیدر سمیت جو اردو میں سچ لکھنے کہنے والوں سے کیا وہ بہت ہی افسوس ناک ہے۔

لیکن اصل خطرہ ان چار پانچ زبانوں سے زیادہ ان زبانوں کو ہے جو یو نیسکو کے نقشے میں مرتی ہوئی زبانیں ہیں، یا شدید خطرے میں گھری ہیں ان میں براہوی ، ہندکو کے علاوہ وہ زبانیں ہیں جو میں نےاور آپ میں سے کسی نے شاید ہی سنی ہوں، دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کوہستان کے علاقوں میں بولی جانے والی زبانیں جن میں چیلسو، ڈامیلی، گوارباٹی، ڈوماکی ،گائو ورو، کلاشا، چاد شامل ہیں جو زبانیں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر کوہستان اور ادھر ہنزہ وادی اور چترال والے علاقوں میں بولی جاتیں ہیں جن میں ایسی زبانیں بھی ہیں جنکے بولنے والے ہزاروں تو کئی کے سینکڑوں تو کوئی محض کسی ایک دیہات میںاور کچھ کے بولنے والے تو صفر رہ گئے ہیں۔

روزنامہ جنگ

Comments are closed.