چائنا وائرس پر چیں بہ چیں

جمیل خان

چائنا وائرس لکھنے پر بہت سے لوگ چیں بہ چیں ہوں گے، تو ہوتے رہیں، جب امریکن سنڈی ہوسکتی ہے، اسپینش فلو ہوسکتا ہے اور افریکن سوائن فیور ہوسکتا ہے تو چائنا وائرس کیوں نہیں؟کیونکہ چین نے ترقی کرلی ہے!۔

اگر آپ اسی چیز کو ترقی سمجھتے ہیں تو آپ کا شعور بھی پنجاب کے کسی دوراُفتادہ گاؤں کے اس دیہاتی شخص سے زیادہ نہیں ہے، جو سعودی عرب یا دبئی کی کشادہ سڑکوں، یخ بستہ اوروسیع و عریض شاپنگ مالز یا پھر خانہ کعبہ کے فرش کو ہی دیکھ کر عربوں کو ترقی یافتہ سمجھنے لگتا ہے۔

شعوری ترقی ٹیکنالوجی کے ذریعے نہیں حاصل ہوتی، اس کے لیے سوشل سائنٹسٹ درکار ہوتے ہیں، جو سماج کی روایات پر تنقید کرتے ہیں، سوالات اُٹھاتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں، جو آنے والے کل کی بنیاد رکھ رہی ہوتی ہیں۔

چین میں بھی ہمارے معاشروں کی طرح توہمات اس قدر ہیں کہ وہ مختلف بیماریوں کے علاج یا پھر مردانہ طاقت کے حصول کی خاطر حشرات الارض اور ہر قسم کے جانور تک کھا جاتے ہیں۔
شعور وہاں ترقی کرتا ہے، جہاں سوچنے کی آزادی ہے۔عقائد جس طرح شعور کو منجمد کردیتے ہیں، اسی طرح فاشسٹ ریاست بھی شعوری ارتقاء کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرتی ہیں۔

چین کی فاشسٹ حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے پوری دنیا میں یہ وائرس پھیلا ہے۔اب اسے کرونا وائرس کہا جارہا ہے، تو یہ دنیا کی اعلیٰ ظرفی ہے، لیکن اعلیٰ ظرفی بھی ایک حد میں رہے تو ٹھیک ہے، ورنہ وہ بھی جہالت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ آج دنیا بھر کے لوگ جو اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں اور خطرہ ہے کہ جلد ہی ان میں سے بہت سے کرونا سے ہلاک تو بہت سے زندہ رہنے والے افراد بھوک مری کا شکار اور بہت سے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوکر عملی زندگی میں آگے بڑھنے سے معذور بھی ہوسکتے ہیں…. ان سب کا ذمہ دار چین ہے۔

نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتا سین نے کہا تھا کہ دنیا میں کسی کو بھی بھوک سے نہیں مرنا چاہیے اور اگر کہیں بھوک مری کا وبال آیا ہوا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ اپنی غذا کہاں سے حاصل کریں۔ امرتاسین کے مطابق دنیا میں اتنے وسائل بھرے ہوئے ہیں کہ اربوں انسانوں کو غذا فراہم کی جاسکتی ہے، اس کے لیے آپ کو علم ہونا چاہیے کہ خوراک کیسے حاصل کی جائے۔

ایسا ہی معاملہ عالمی وباؤں سے متعلق بھی ہے۔ یعنی وباء سے متعلق درست معلومات کی فراہمی اور ان سے بچاؤ کی تدابیر سے آگاہی نہ ہونا ہی وباء کو پھیلنے میں مدد دیتا ہے۔
اٹلی کے حوالے سے پہلے بھی میں نے بیان کیا تھا کہ کرونا کی وباء سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے اٹلی کے لوگ چین کے لوگوں کے ساتھ اعلیٰ ظرفی اختیار کر رہے تھے، اور نتیجہ کیا نکلا، وہ آپ سب دیکھ ہی رہے ہیں۔
نومبر 2019ء میں چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا تھا۔ ووہان میں ایک کروڑ دس لاکھ کی آبادی ہے، اور اس کا محل وقوع چین کے کئی بڑے شہروں کوجوڑتا ہے، اس شہر میں چین بھر سے لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ مستقل جاری رہتا ہے، اس لیے کہ یہ چین کا صنعتی حب کا درجہ رکھتا ہے۔

کرونا وائرس کے ابتدائی چار کیس، دسمبر 2019ء کے خاتمے تک پہلے درجنوں پھر سینکڑوں کیسز میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ اس دوران چین کے ڈاکٹرز محض اتنا جانتے تھے کہ یہ ایک وائرل نمونیا ہے، تاہم وہ پریشان تھے کہ روایتی دواؤں سے اس بیماری کا علاج نہیں ہورہا ہے۔ انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس وقت تک ووہان کے ہزاروں افراد اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جن ڈاکٹروں نے اس وائرس کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کیا تھا، انہیں غائب کردیا گیا تھا، جیسے ہمارے ہاں ریاست سے متعلق سوال کرنے پر لوگوں کو اُٹھالیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ طریقہ کار چین سے ہی سیکھا گیا ہے۔

چین میں نہ تو فیس بک ہے، نہ ہی وہاٹس ایپ کام کرتا ہے، سوشل میڈیا ہے لیکن انہی کا ہے، جو ریاست کے کنٹرول میں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پانچ چینی ڈاکٹروں نے اس وائرس سے متعلق تشویش کا اظہار سوشل میڈیا پر ہی کیا تھا، لیکن اس کے بعد اُن کا پتہ نہیں چلا۔ ان ڈاکٹروں میں سے لی ون لیانگ کی تو بعد میں کرونا وائرس سے ہی موت بھی ہوگئی تھی۔ بلکہ اب تو یہ حقیقت بھی سامنے آچکی ہے کہ چین کے سرکاری اہلکاروں نے ابتداء میں اُس لیبارٹری کو ہی بند کردیا تھا، جہاں کرونا وائرس کے ابتدائی سیمپل موجود تھے، اور یہی نہیں ان سیمپلز کو بھی ضایع کردیا گیا تھا۔

ذرا سوچیے کہ امریکا یا یورپ میں کوئی ایسے کسی وائرس کی اطلاع دیتا تو اس کا یہ حشر ہوتا؟ اگر لی لیانگ امریکا یا یورپ کے کسی ملک میں ہوتا شاید اس کی زیرنگرانی بہت سے ڈاکٹر مل کر اس وباء کا علاج بھی دریافت کرچکے ہوتے۔ لیکن چینی ریاست نے اس ڈاکٹر کو ملک دشمنی کے الزام میں قید میں ڈال دیا تھا۔

کرونا وائرس کا شکار ایک فرد کم سے کم چار افراد کو تو متاثر کرتا ہی ہے، لیکن اگر یہ تعداد چار تک بھی رہے اور لاک ڈاؤن نہ کیا گیا ہو تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہفتے میں کئی لاکھ افراد تک یہ وائرس پہنچ سکتا ہے۔ لیکن چین نے تیس دسمبر تک اس وائرس کے بارے میں دنیا کو کسی قسم کی کوئی معلومات نہیں دی۔ اکتیس دسمبر کو چین نے عالمی ادارۂ صحت کو اس وائرس کے بارے میں مطلع کیا اور یہ یقین بھی دلایا کہ وہ اس وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

اگلے دن یکم جنوری 2020ء کو لگ بھگ دو لاکھ کے قریب افراد ووہان شہر سے نیا سال منانے کے لیے ملک کے مختلف شہروں اور بیرون ملک مختلف ممالک کے لیے روانہ ہوگئے۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور ووہان شہر کو لاک ڈاؤن کیے جانے اور ذرائع نقل و حمل کو بند کیے جانے تک ایک اندازے کے مطابق ستر لاکھ افراد ووہان شہر سے ناصرف چین کے دور دراز شہروں بلکہ دنیا بھر کے ملکوں میں پھیل چکے تھے۔

اکیس جنوری 2020ء کا دن تھا جب چین کی ریاست نے تسلیم کیا کہ یہ وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں پھیل رہا ہےاور ایک سے دوسرے کو متاثر کر رہا ہے۔ 23 جنوری کے روز ووہان شہر کو لاک ڈاؤن کیا گیا۔

یاد رہے کہ ووہان سے ستر لاکھ افراد چین اور دیگر ممالک میں پھیل گئے تھے، تاہم چین نے نہ تو بین الاقوامی پروازوں کو معطل کیا اور نہ ہی ووہان شہر سے چین کے دیگر شہروں میں پہنچنے والے افراد کی نشاندہی کرکے ان کا ٹیسٹ شروع کیا گیا۔

چین سے بین الاقوامی پروازیں مسافروں کو لے کر اُڑتی رہیں اور بیرون چین سے پروازیں مسافروں کو لے کر چین کے شہروں میں آتی رہیں۔

آج دنیا بھر کے لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں ہیں اور روزانہ اس وائرس کے سبب اموات میں اضافہ ہورہا ہے، اور اندیشہ ہے کہ یہ وائرس جاتے جاتے بھی خدانخواستہ لاکھوں افراد کی جان لے کر جائےگا۔ تو اس کا ذمہ دار چین ہے، کیونکہ اس نے کرونا وائرس سے انفیکٹڈ لوگوں کو دنیا بھر میں پھیلنے دیا بلکہ دنیا کو درست معلومات بھی فراہم نہیں کی۔

جنوری کے آخری ہفتے میں ہی دنیا بھر میں کرونا وائرس کے کیسز سامنے آنے لگے۔ تاہم اُس وقت تک چین سے دنیا بھر میں پھیلنے والے مسافروں کی لگ بھگ پچاسی فیصد تعداد بغیر کسی جانچ کے دنیا بھر کے شہروں میں گھل مل چکی تھی۔ 31 جنوری کو جاکر چین نے ووہان شہر سے بین الاقوامی پروازوں پر پابندی لگائی۔ جب تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔

میں تو اس وائرس کو چائنا وائرس ہی کہوں گا، کیوں کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کی ذمہ داری سراسر چین کی فاشسٹ ریاست کے سر جاتی ہے۔ چین نے اوّل اس وائرس کے خطرے سے دنیا کو آگاہ نہیں کیا، دوم ووہان شہر جہاں سے یہ وائرس پھیلا، اس شہر سے بین الاقوامی پروازوں کو بند نہیں کیا، سوم اس حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈا بھی پھیلانا شروع کردیا۔

بارہ مارچ کو چین کے دفتر خارجہ کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ کرونا وائرس چین میں امریکا سے آیا تھا، اور امریکا اس سچائی کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ چینی دفتر خارجہ نے کہا کہ اکتوبر2019 میں ملٹری ورلڈ گیمز کے دوران امریکی فوجی یہ وائرس اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ اگر یہ بات درست تھی تو پھر اس کا انکشاف اس وقت کیوں کیا گیا جب کہ یہ وائرس دنیا میں پھیل چکا تھا، اور اسے پھیلانے میں سراسر ذمہ دار چین کی حکومت تھی۔ یہی نہیں بلکہ چین کے میڈیا نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ چین سے پہلے کرونا وائرس اٹلی میں پھیل چکا تھا۔

چین اس وقت دنیا بھر کے ملکوں کو کرونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے لیے مدد کی پیشکش کررہا ہے، تاہم اس کی یہ مدد کس حد تک کارگر ہے، اس کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی نے چین سے آنے والی کرونا ٹیسٹ کٹس کو ناکارہ قرار دے کر مسترد کردیا ہے کہ وہ درست نتائج دینے سے قاصر ہیں۔ اسپین نے چین سے منگائی گئی کرونا ٹیسٹ کٹس کو خراب کہہ کر واپس بھجوادیا ہے۔ الباکستان میں یہ کٹس استعمال ہوتی رہیں گی، اور ان پر ایک لفظ نہیں کہا جائے گا، اوّل تو شاید ہی کوئی جان سکے کہ یہ ٹیسٹ کٹس خراب نتائج دے رہی ہیں، دوم ہماری ریاست کا شروع سے ہی یہی رویہّ رہا ہے کہ معاملے کو دبا دیا جائے، چاہے لاکھوں لوگ مارے ہی کیوں نہ جائیں۔

اس کے علاوہ ہمارے ہاں ایک رویہ اور بھی ہے، آج ایک مہربان دوست نے بتایا کہ کئی پرائیویٹ ہسپتال جو ہزاروں روپے لے کر کرونا کے ٹیسٹ کررہے ہیں، ان کے پاس تو کرونا کی ٹیسٹ کٹس ہی موجود نہیں ہیں، وہ لوگوں کو الّو بنا رہے ہیں اور مال اینٹھ رہے ہیں۔

کیا آپ کو اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ گیارہ مارچ تک عالمی ادارۂ صحت نے کرونا وائرس کو عالمی وباء قرار نہیں دیا تھا، حالانکہ گیارہ مارچ سے کافی عرصہ پہلے تک کرونا وائرس پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ یہاں یہ سوال بھی اُٹھانا چاہیے کہ کیا عالمی ادارۂ صحت پر چین کا دباؤ تھا؟

یہ بھی تشویش کا باعث ہے کہ اقوامِ متحدہ میں بھی کرونا وائرس کے حوالے سے اب تک کوئی بحث نہیں ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہی مارچ کے مہینے میں چین کے پاس تھی، چنانچہ چین نے اپنا دباؤ استعمال کرتے ہوئے اس وباء پر بحث کو روکے رکھا، اس لیے کہ بحث کا نتیجہ چین پر پابندیوں کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔ کیونکہ اس بحث میں یقیناً چین سے بہت سے چبھتے ہوئے سوالات کیے جاتے، جن کا جواب چین جیسی فاشسٹ ریاست کیوں دینا چاہے گی، چنانچہ جب جب بھی کرونا وائرس کے حوالے سے سلامتی کونسل کے اجلاس کا سوال کیا گیا، چین کے نمائندے کی جانب سے یہی جواب دیا گیا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

چین پچھلے ہفتے سے دنیا کویہ تاثر دے رہا ہے کہ اس نے اپنے ملک میں اس وباء پر تو پوری طرح قابو پالیا ہے اور دنیا کے باقی ترقی یافتہ ممالک میں یہ وباء ان کی پالیسیوں کی خرابی کی وجہ سے پھیل رہی ہے اور وہ اس پر قابو نہیں پا سکے ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ جب 2014ء میں ایبولا وائرس پھیلا تھا تو اقوامِ متحدہ نے فوری طور پر اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وائرس کو عالمی وباء قرار دے دیا تھا۔ دو سالوں کے دوران ایبولا وائرس کے صرف اٹھائیس ہزار کیسز سامنے آئے تھے، لیکن چائنا وائرس یعنی کرونا وائرس کے چھ لاکھ اسّی ہزار کیسز محض پانچ مہینوں میں سامنے آچکے ہیں، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا سے انفیکٹڈ افراد کی تعداد کروڑوں میں ہوسکتی ہے، جن کے ٹیسٹ نہیں کیے جاسکے ہیں۔

لہٰذا جماعت اسلامی کے شاہین بچوں اور عقابی نگاہ رکھنے والے تاڑوبزرگوں کی طرح چین کو مسیحا سمجھنے والوں سے درخواست ہے کہ اپنے دماغ کی ڈیٹول سے دھلائی کیجیے، اور پھر اس میں کہیں سے مل سکے تو عقل نام کی ایک چیز ہوتی ہے، وہ ڈلوا لیجیے۔

Comments are closed.