عورت مارچ اورانسانی حقوق

بیرسٹر حمید باشانی

عورتوں کےعالمی دن کے موقع پربہت ہنگامہ اورشورو وغا ہوا۔  بہت جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔   مگربد قسمتی سےغیراہم اورمتنازعہ امور نے زیادہ توجہ حاصل کی، اور وہ سنجیدہ مسائل زیربحث ہی نہ آسکے، جو پاکستان میں خواتین کی اکثریت کو درپیش ہیں۔

 پاکستان میں خواتین کے سیاسی، معاشی اورسماجی حقوق  کے مطالبات کی فہرست میں کوئی بھی ایسا مطالبہ نہیں ہے، جوانسانی حقوق کے زمرے میں نہ آتا ہو۔  ان تمام حقوق کو اقوام متحدہ کے چارٹرسمیت دنیا کے بیشترممالک کے آئین وقانون میں تسلیم کیا گیا ہے۔مسئلہ اگر کوئی باقی ہے، تو وہ آئین و قانون کی کتب میں لکھے گئے الفاظ کو دل سے قبول کرنا اور ان پر عمل کرنے کا ہے۔ 

دل سے قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئِین میں خواتین کو جو حقوق دیے گئے ہیں، ریاست ان پرعمل درآمد یقینی بنائے، سماج ان کو تسلیم کرے اور ان کی خلاف ورزی پر رد عمل دے۔  ریاست کے لیے آئین میں درج حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات اٹھانا لازم ہے۔  ان میں مطلوبہ وسائل مختص کرنے سے لیکر ریاستی اداروں اورعوام میں مطلوبہ شعورپیدا کرنا شامل ہے تاکہ بحیثیت مجموعی ایک ایسا سازگار ماحول پیداہوجس میں عورتوں کے انسانی حقوق کا احترام ہو۔

عورتوں کے بنیادی انسانی حقوق کے باب میں ترقی یافتہ ممالک کے طویل تاریخی تجربے سےاستفادہ کیا جا سکتا ہے۔  ان ممالک میں جہاں انسانی حقوق کا زیادہ احترام ہے، اورانسانی حقوق کو آئینی تحفظ حاصل ہے،  وہاں پرعورتوں کے حقوق بھی اگرچہ مکمل اورمثالی نہ سہی، لیکن بڑی حد تک محفوظ ہیں۔  مگراس کے باوجود ترقی یافتہ مغربی جمہوریتوں میں بھی خواتین کے حقوق اوران کی معاشی وسماجی برابری کی جہدو جہد ابھی جاری ہے۔  اس مقصد کے لیےخواتین کی بے شمارانجمنیں اورمختلف گروہ اپنے اپنے خیالات اور نظریات کے مطابق سر گرم عمل ہیں۔  ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے موجود تحریکیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ابھی اس باب میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بھی عورت اور مرد کے درمیان تھوڑی بہت سماجی عدم مساوات ابھی تک موجود ہے۔  اس عدم مساوات کے پس منظر میں ایک طویل تاریخ ہے۔  یہ اس امتیازی سلوک کا نتیجہ ہے، جو صدیوں تک عورتوں کے خلاف روا رکھا گیا۔ اس کے پس منظر میں وہ رجعت پسندانہ مائنڈسیٹ بھی ہے، جس کی صدیوں سے سماج پرحکمرانی رہی ہے۔  اوراس کی پرچھائیاں ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔

عورتوں کی حالت زاراوران کی جدوجہد کے جو مناظر آج ہمیں تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں نظر آ رہے ہیں،  یہ تاریخ میں بہت زیادہ دورنہیں بلکہ پچھلی صدی کی ابتدا میں یورپ اور امریکہ میں نظر آتے تھے۔  بیسویں صدی کی ابتدا میں امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں عورت کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ انتخابات میں ووٹ دے سکیں۔

 چنانچہ بیسویں صدی کے پہلےعشرے کے اخبارات کی ورق گردانی کی جائے تو ان میں نیویارک اور واشنگٹن کی سڑکوں پرکثرت سے ایسے جلسوں ، جلوسوں اوراحتجاج کی خبریں اورتصاویرنظر آتی ہیں۔  ان جلسے جلوسوں میں خواتین ووٹ کے حق کا مطالبہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔  یہ جدو جہد کئی برسوں سے جاری رہی۔  اس دوران کئی مشہورامریکی صدوراوردوسرے سیاست دان گزرے، جو دنیا کو جمہوریت اورانسانی حقوق پرلیکچر دیتے تھے، مگرانہوں نے خود امریکی عورتوں کے اس بنیادی حق کو درخوراعتنا نہ سمجھا۔

 برسہا برس کی جہدوجہد کے بعد بلاخر1918میں صدر ولسن نے عورتوں کے ووٹ کے حق کی حمایت کا فیصلہ کیا ۔ صدرولسن کی حمایت کے بعد1919 میں امریکی آئین میں 19 ویں ترمیم لائی گئی، جس کے تحت بالاخرسیاسی معنوں میں عورتوں کو انسان تسلیم کرتے ہوئے ووٹ کا حق دے دیا گیا۔  امریکہ کے اس اقدام کی ستائش کے باوجود بہت ساری مغربی جمہوریتوں میں خواتین  کو اپنے اس بنیادی حق کے لیے مزید پچاس ساٹھ برس انتظار کرنا پڑا۔

 ستم ظریفی کی بات یہ تھی کہ مغربی سماج بہت سارے معاملات میں ترقی پسند اورروشن خیال ہونے کے باوجود عورت کی آزادی اور مساوات کے سوال پرقدامت پرستی پربضد تھا۔   یہاں پرووٹ سمیت خواتین کوجودوسرے معاشی یا سماجی حقوق دیے گِے، ان کے پس منظرمیں ایک وجہ توخواتین کی سخت اورصبرآزما جہدو جہد تھی۔  اس کی دوسری بڑی وجہ اس وقت دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی مارکسسٹ تحریکیں اورمارکسسٹ نظریات کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت بھی تھی۔

 خود عورتوں کا یہ عالمی دن جو ہم آج کل بنا رہے ہیں اس کی ابتدا فروری1909میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے نیویارک شہر میں کی تھی۔  اس کے بعد یہ دن دنیا کے کئی ممالک میں بنایا جاتا رہا ، لیکن اس دن کو اصل اہمیت سویت انقلاب کے بعد ملی۔  سوویت روس میں1917کے بالشویک انقلاب کے بعد آٹھ مارچ کو سرکاری سطح پرعورتوں کا دن بنانے کا علان کیا گیا۔  اس کے بعد مشرقی یورپ میں چیکوسلاویہ، ہنگری، پولینڈ، یوگوسلاویہ سمیت کئی ممالک میں یہ دن سرکاری سطح پربنایاجانے لگا۔

سنہ 1949 کے چینی انقلاب کے فورا بعد چین میں آٹھ مارچ کوعورتوں کے دن کے طور پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔  عالمی سطح پراس دن کی اہمیت اور مقبولیت کے باوجود طویل عرصے تک یہ دن کمیونسٹ ممالک کا سرکاری دن رہا۔  ساٹھ کی دہائی میں یورپ میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے نئی تحریک شروع ہوئی ، جس کوبہت حوالوں سے نسوانیت پسند تحریک بھی کہا جا سکتا ہے۔  ستراوراسی کی دہائی تک عورتوں کے مساوی حقوق  کی تحریک ایک باقاعدہ منظم تحریک بن گئی۔  اس تحریک کے مطالبات میں مساوی تنخواہ، مساوی معاشی مواقع، مساوی قانونی حقوق، اورعورتوں پرگھریلوتشدد کے خاتمے جیسے مطالبات شامل تھے۔  ان تحریکوں کی وجہ سے یورپ میں اس دن کو بہت اہمیت حاصل ہوئی۔  

سنہ 1975میں اقوام متحدہ نے اس دن کو عورتوں کے دن کے طور پر بنانے کا اعلان کیا، جس کی وجہ سے یہ دن عالمی دن کے طور پوری دنیا میں بننا شروع ہوا۔  ترقی یافتہ دنیا میں آج یہ دن کئی طریقوں سے بنایا جاتا ہے۔   کچھ ممالک میں محض سرکاری تعطیل پر اکتفا کیا ہے۔  کئی ممالک میں اس کو کارپوریٹ کلچر کے تحت بنایا جاتا ہے، جس میں زیادہ ترکارپوریٹ سپانسرزکے تحت مختلف ثقافتی پروگرام کیے جاتے ہیں۔  کچھ ممالک میں یہ دن ایک عوامی تہوار کی طرح منایا جاتا ہے،  جہاں خواتین کو اس دن کی خوشی میں تحفے طائف دیے جاتے ہیں۔  اورایک طریقہ سیاسی اورمعاشی جہدوجہد کے تناظر میں ہے، جہاں خواتین مساوی تنخواہ، اورزندگی کے ہرشعبے میں مساوی مواقع جیسےمطالبات لیکر جلسے جلوس کرتی ہیں۔

 تیسری دنیا کے بہت سارے ممالک میں اس دن وسیع پیمانے پر احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں۔  اگرچہ اس دن سے فائدہ اٹھا کر خواتین کے کچھ مخصوص گروہ یا افراد اپنے خاص طرززندگی یا ایجنڈے کا پرچار بھی کرتے ہیں، لیکن مجموعی طورپریہ دن عورتوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کے تناظر میں ہی بنایا جاتا ہے۔  تیسری دنیا کےغریب اورپسماندہ ممالک میں عورت کومرد کے مقابلے میں قدم قدم پررکاوٹوں اورپابندیوں کا سامنا ہے۔  ان ممالک میں جنس اورصنف کی بنیاد پرجو خلیج ہے،  وہ اتنی گہری ہے کہ اس کو پاٹنے کے لیے ایک مکمل انقلاب کی ضرورت ہے۔

  مگر اس مکمل انقلاب سے پہلے بھی ان ممالک میں خواتین کو مساوی حقوق اورمواقع مہیا کرنے کے لیے  ریاستی سطح پرکچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔  ان میں پہلا قدم تمام سرکاری اورریاستی اداروں میں خواتین کو ملازمت کےمساوی مواقع مہیا کرنا ہے۔   یہ عمل تب ہی ممکن ہے جب اس اصول کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنایا جائے کہ ہر سرکاری ادارے میں خواتین ملازمین کی تعداد مرد ملازمین کے برابر ہو گی۔  اس عمل کو آئینی ذمہ داری بنانے سے حکومت آئینی طور پر ایسے اقدامات کرنےکی پابند ہوگی، جوعورتوں کی مساوی نمائدگی کے لیے ضروری ہیں۔

 پاکستان جیسے معاشرے میں اس باب میں دوسری بڑی ضرورت خواتین کوسماج میں روزمرہ کی زندگی میں ایک محفوظ جگہ فراہم کرنا ہے۔  اس مقصد کے لیے پہلا قدم بڑے پیمانے پرعوامی شعوراجاگرکرنا ہے، تاکہ گھر کی چاردیواری سے باہر نکلتے ہی سماج میں خواتین کو جس ناسازگار اور نا خوشگوارماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں تبدیلی ہو۔  اس ماحول میں پبلک مقامات، تعلیمی اداروں اور کام کاج کی جگہ پرخواتین کوجنسی طور پرحراسان کرنےاورگھریلو تشدد جیسےمسائل کا سامنا ہے۔  پاکستان جیسے ترقی پزیراورسماجی پسماندگی کے شکار ممالک میں اس باب میں کسی حقیقی تبدیلی کے لیے سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.