کورونا وائرس اور یاسین ملک کی بھارتی جیل میں تادم مرگ بھوک ہڑتال

  بیرسٹرحمید باشانی

کورونا وائرس کے شورشرابے میں کئی بڑی خبریں دب کررہ گئی ہیں۔    خوف اوراندیشے کےماحول میں لوگ ان خبروں پربھی توجہ نہیں دے رہے ہیں، جن کوعام حالات میں نظرانداز کرنا شاید ممکن نہ ہوتا۔

 کورونا بحران کے دوران جن بڑی خبروں کو نظراندازکیا گیا، ان میں ایک خبرکشمیری رہنمایاسین ملک کی دلی کی تہاڑ جیل میں بھوک ہڑتال کی خبرہے۔  یاسین ملک کی طرف سے تاحیات بھوک ہڑتال کے اس اعلان کا پس منظرکافی طویل اورپیچیدہ ہے۔  لیکن اس کا فوری سبب جموں کی انسداد دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت میں ان کے خلاف دہشت گردی کے تحت قائم مقدمات پرہونے والی سماعت ہے۔  اس سماعت کے از سرنوآغازاوراس کے طریقہ کار پرانہوں نے شدید تحفظات اوراعتراضات کا اظہار کرتے ہوئے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

  مقدمہ یہ ہے کہ پچیس جنوری 1990 میں سرینگر کے مضافاتی قصبے راول پورہ میں انڈین ائیرفورس کےملازمین کے ایک گروپ پرکچھ عسکریت پسندوں نے ایک چلتی ہوئی کارسے گولیاں چلائیں۔  اس فائرنگ کے نتیجے میں سکواڈرن لیڈرروی کھنا سمیت چارلوگ مارے گئے، اور چالیس زخمی ہوئے۔  

یہ اہم واقعہ تھا ، جس میں تمام انٹلیجنس ایجنسیوں اورقانون نافذکرنے والے اداروں نے غیرمعمولی دلچسبی لی۔  1990 کے موسم خزاں میں سی بی آئی نے اپنی تحقیقات مکمل کی۔  سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق یاسین ملک اوراس کے ساتھیوں کو اس واقعے کا زمہ دارقرار دے دیا گیا۔  اوران کے خلاف جموں میں ٹاڈا یعنی ایک طرح کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چارج شیٹ پیش کردی گئی۔  یہ مقدمہ بڑی تیزر رفتاری سے شروع ہوا، مگربعد ازاں کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ مقدمہ مسلسل تعطل کا شکار ہوتا رہا۔ 

 ایک بڑا واقعہ تویہ تھا اگست1990 کے موسم گرما میں یاسین ملک کوایک جھڑپ کے بعد زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔  یاسین ملک کی گرفتاری کے وقت کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف مخبری اورغداری کے الزمات کا تبادلہ اورخون خرابہ ہو رہا تھا۔  ان حالات میں یاسین ملک چارسال جیل میں رہنے کے بعد مئی 1994 میں ضمانت پر رہا ہوئے۔  رہائی کے بعدیاسین ملک  نے عسکریت پسندی ترک کرکہ پرامن جہدو جہد اوربھارت کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا دھماکہ خیزاعلان کر دیا۔ 

 بھارتی حکام نے یاسین ملک کے ساتھ مزاکرات کے دوران جووعدے کیے، ان میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ یاسین ملک اور ان کے ساتھیوں کے خلاف عسکریت پسندی کی وجہ سے جومقدمات قائم ہوئے ہیں ، ان پر مزید کاروائی نہیں کی جائے گی، اورامن کی طرف لوٹنے والے کسی عسکریت پسند کے خلاف اس کے ماضی کی وجہ سے کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔  

 سنہ1995میں جموں کشمیر ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ نےٹاڈا کورٹ میں چلنے والے اس مقدمے کے خلاف حکم امتناعی جاری دیا، جس کی وجہ سے یہ مقدمہ طویل التوا کا شکار ہو گیا۔   آگے چل کر2008 میں یاسین ملک نے یہ مقدمہ جموں سے سری نگرمنتقل کرنے کی درخواست دی۔  اس درخواست کے حق میں یاسین ملک کی دلیل یہ تھی کہ جموں میں ان کی جان کو شدید خطرات ہیں، اور ان کو سیکورٹی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے اس سال امرناتھ یاترا اورغیرکشمیریوں کو وادی میں لیز پرزمین دینے کے دوران رونما ہونے والے حالات وواقعات قرار دیے، جنہوں نے کشمیریوں کو مذہبی بنیادوں پرتقسیم کردیاتھا۔

گزشتہ سال اپریل میں جمو ں کشمیر ہائی کورٹ نے اس مقدمے کو سری نگرمنتقل کرنے کا2008 کا حکم ختم کر دیا۔   جسٹس سنجے کمار گپتا نے ستائیس صفحات پرمشتمل فیصلے میں 1995کا حکم امتناعی بھی ختم کر دیا۔  نتیجتا تقریبا تین دہائیوں بعد جموں کی ٹاڈا کی عدالت نے یہ کیس دوبارہ سماعت کے لیے کھول دیا۔  

  مقدے کی اس کاروائی میں یاسین ملک بنفس نفیس شریک نہیں ہو سکے۔  بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے ان کے خلاف عسکریت پسندوں کی مالی امداد کے الزام کےتحت مقدمہ درج کیا ہوا ہے۔  اس مقدمے کی وجہ سے وہ اس وقت تہاڑ جیل میں قید ہیں۔  جموں کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے حکم کے خلاف دلی کی تہاڑ جیل کی انتظامیہ نے یاسین ملک کو پیش کرنے سے معذرت کردی۔  انہوں نے کہا کہ ہوم منسٹری نے جیل حکام کو یاسین ملک کو کسی عدالت میں پیش کرنے سے منع کر دیا ہے۔ 

 البتہ انہوں نے یاسین ملک کو وڈیو لنک کے ذریعے پیش کرنے کا بندوبست کیا۔  وڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہونے کے بعد یاسین ملک نے تہاڑجیل سے ایک خط لکھا،  جس میں انہوں نے وڈیو لنک کے زریعے سماعت میں ان خامیوں کی نشاندہی کی،  جو انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہیں۔  انہوں نے کہا کہ وڈیولنک کے زریعے ان کو پوری طرح اپنی بات کرنے کا موقع نہیں دیاگیا۔   انہوں نے عدالت میں پیش ہو کراپنا مقدمہ لڑنے کا مطالبہ کیا، اوراس حق کے دفاع کے لیے تاحیات بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا۔

  یاسین ملک کی صحت کی انتہائی مخدوش حالت کے پیش نطران کے اس اعلان پران کےہمدرد حلقوں نے سخت تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کے ہمدرد حلقوں کا خیال ہے کہ ایسے حالات میں جب دنیا کی پوری توجہ کورونا وائرس کی طرف مبذول ہے، تاحیات بھوک ہڑتال کا خیال اچھا نہیں ہے۔  دنیا کی توجہ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں پرمرتکز ہے۔  ان کی بھوک ہڑتال کا کوئی نوٹس نہیں لے گا۔ اورنہ ہی ان حالات میں ان کی حمایت میں کسی قسم کا احتجاج کے کوئی امکانات ہیں۔  ان حالات میں ان کی بھوک ہڑتال کی کوشش رائیگاں جا سکتی ہے، اوران کی صحت اورزندگی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔

  اس سارے قصے کو لیکراس وقت مختلف حلقوں میں بحث جاری ہے۔  بھارت کی موجودہ حکومت میں ایک مضبوط لابی کا خیال ہے کہ نوے کی دہائی میں بھارتی حکام نے کشمیری عسکریت پسندوں سےمذاکرات کر کہ اور ان کی ماضی کی کاروائیوں سے چشم پوشی کرکہ سنگین غلطی کی تھی۔  اوراس غلطی کا زالہ ان لوگوں کو سخت سزائیں دے کرہی کیا جا سکتا ہے۔  اس لابی کےدباواوراثرونفوذکی وجہ سے تیس سال بعد اس مقدمے کی ازسرنو کاروائی شروع ہوئی۔  

دوسری طرف کشمیر میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے، جویاسین ملک کے عسکریت پسندی ترک کر کہ امن کی طرف بڑھنے کے عمل کو کشمیریوں سےغداری کے مترادف قراردیتے ہیں۔  یاسین ملک کا بیانیہ یہ ہے کہ بھارت کی انتہائی اہم اورممتاز شخصیات نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگروہ مسلح جنگ کا راستہ ترک کر دیتے ہیں، توان کے خلاف ماضی میں دہشت گردی کے تحت قائم مقدمات ختم کر دیے جائیں گے،  اورمسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی طرف پیش قدمی کی جائے گی۔ چنانچہ یہ مقدمہ دوبارہ کھول کراس معائدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے،  اوران کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔

  کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مقدمہ دوبارہ چلانے کی وجہ یہ ہے کہ یاسین ملک نے2013 میں دورہ پاکستان کے دوران حافظ سعید اوردوسرے اسلامی بنیاد پرست عسکریت پسندوں سے ملاقاتیں کیں، اوران کے ساتھ سٹیج شیئرکیا۔  اور وہ اس بات کو بار باردہراتے رہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کا پرامن حل نہ نکل سکا، تووہ دوبارہ عسکریت پسندی کی طرف جا سکتے ہیں، اوربندوق اٹھانے پرمجبورہوسکتے ہیں۔  جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نظریاتی طور پرعدم تشدد کے قائل نہیں، بلکہ انہوں نے اس نظریے کو محض ایک ہتھیار کے طور پراستعمال کرنے کی کوشش کی۔

  اس مقدمے کے دوبارہ آغازکی جو بھی وجہ ہو لیکن اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ یاسین ملک نے ایسے حالات میں جب عسکریت پسندی اپنے عروج پرتھی پرامن جہدو جہد کا راستہ اختیار کیا۔  یہ ایک مشکل اوردلیرانہ فیصلہ تھا۔  چاروں طرف سے عسکریت پسندوں میں گھرے ہوئے ایک عسکریت پسند کے لیے بندوق پھینک کرعدم تشدد کے راستے پرچلنا ایک مشکل کام ہے، جس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے تاکہ سماج میں تشدد پسندی کے رحجانات کو روکا جا سکے۔  یاسین ملک کے خلاف مقدمہ چلاتے وقت اہل حکم پرلازم ہے کہ وہ ان کے تمام بنیادی انسانی حقوق کا احترام کریں۔ 

 بھارتی آئین کے تحت وڈیو لنک ہو یاعدالت میں بنفس نفیس پیش ہوکر پوری آزادی سے اپنا دفاع کرناان کا آہینی اورقانونی حق ہے۔  کسی بھی ملزم کویہ حق دیے بغیرقدرتی انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔  اورملزم کے دفاع کا قانونی حق اس کے ماضی یانظریات سے مشروط نہیں ہونا چاہیے۔

Comments are closed.