خبر دارلاک ڈاؤن ختم نہ کریں

خالد محمود

لاک ڈاؤن جلد ختم کرنے کی جلد بازی بڑی ہولناک ثابت ہو سکتی ہے۔جس طرح کے سسٹم میں جس طرح کے لوگ بٹھائے ہوئے ہیں یہ ان کے بس کا روگ نہیں کہ وہ وسیع پیمانے پر ہوشربا آبادی کے ٹیسٹ کر سکیں گے۔ پچھلے پچاس سالوں میں جس وسیع پیمانے پر خرد دشمن ڈھکوسلوں اور خیالی تصوراتی تاریخ کو ماضی تمنائی سے تڑکا لگا کے، نصاب اور اخبار میں پرچار کیا گیا ہے اس سے پاکستانی سائنسی نقطہ نظر سے بہت دور چلے گئے ہیں۔

اس کی ایک مثال یوں ہے کہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے سفر کی دعا پڑھ لیں اور بس ڈال دیں گاڑی گئیر میں۔دفاعی اور محتاط ڈرائیونگ اور سائنٹیفک ڈیٹا ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ سفر کی دُعا پڑھنے سے پہلے گاڑی کا گہری نظر سے جائزہ لیں۔ٍ ٹائروں میں ہوا کا دباؤ پورا ہے؟ گاڑی کے نیچے کہیں بریک آئل یا انجن آئل کے لیک ہونے کے نشانات تو نہیں ہیں؟ گاڑی سٹارٹ کرنے سے پہلے انجن آئل اور ریڈی ایٹر میں پانی کی سطح پوری ہے؟ رات نیند پوری ہوئی یا نہیں؟ خود اپنی طبیعت،بلڈ پریشر بلکل نارمل ہے؟ رات کہیں اپنی حد برداشت سے زیادہ تو نہیں چڑھا گئے؟ جس سے ٹریفک قوانین اور سیفٹی رولز کی پاسداری اور سڑک پر رواداری سب خطرے میں پڑ جائیں؟

جیسے حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ذرا بھی سنجیدہ نہیں ہے اسی طرح عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی اپنی جان کی حفاطت کے لئے احتیاط برتنے میں ذرا بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں بڑی تندہی اور یکسوئی سےہزاروں ارب روپے لگا کر تو یہ نسل تیار کی ہے۔یہ نسل عدم برداشت کے رویوں اور ”ھُوڑ مط“میں اپنی مثال آپ ہے۔

پانچ چھ سو کی دیہاڑی لگانے والا سڑک پر گنڈیریاں چوستا جاتا ہے اور چھلکے سر راہ بچھاتا جاتا ہے۔جس کے نیچے ایک کروڑ کی گاڑی ہے وہ بھی اپنے جُوس اور چپس کے خالی ڈبے کھڑکی سے پھینکتا جاتا ہے۔رویے یہ ہیں جیسے یہ اپنے ملک میں گندگی نہیں پھیلا رہے بلکہ تاج برطانیہ سے بدلہ لے رہے ہیں۔

کارکردگی پر چبھتے ہوئے سوالات آنے سے پہلے ایوان اور پنڈال چھوڑ دینا وہ رویہ ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف سفر کرتا ہے اور پھرکرتا ہی چلا جاتا ہے۔کہیں رُکنے کا نام بھی نہیں لیتا ہے۔اگر کوئی شریف آدمی اس طرح سر عام کوڑا پھینکنے سے منع کرے تو اسے ایسی خونخوار نظروں سے گھورتے ہیں جیسے کوئی جنگلی خنزیر ان کے نزدیک آگیا ہے۔

کرونا وائرس سے ایک متاثرہ شخص چلتا پھرتا ٹائم بمب ہے۔جس متاثرہ شخص میں علامات ظاہر نہیں ہوئی ہیں اسے ہی قید تنہائی میں رکھنا اشد ضروری ہے تاوقتیکہ اس کے ٹیسٹ بالکل کلئیر نہ ہو جائیں۔
سرکاری درباری پیغامات میں جس چیز کی شدید کمی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:۔

ہاتھوں کو اچھی طرح صابن سے دھونا،صرف گروسری کے لئے گھر سے باہر نکلنا اور سماجی فاصلہ رکھنا یہ الگ بات ہے۔کھلے اور کشادہ گھروں میں جہاں چار پانچ بیڈ روم اور منسلک باتھ روم ہوں ایک الگ منظر ہے۔مگر جس چھوٹے گھر میں آٹھ دس افراد ہوں اور ایک باتھ روم اور ایک ہی واش بیسن ہو یہ بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔

یہ الگ منظر ہے کہ وافر رقم موجود ہے گاڑی نکالی اور دو مہینے کا راشن اور دیگر اشیاء گاڑی میں بھر لائے۔اور یہ بالکل ہی الگ معاملہ ہے کہ اگلے دن کے راتب کے لئے بھی نقد رقم جیب میں نہ ہو۔جس گھر میں فریج نہ ہو اور وہ ایک دن سے زیادہ کھانا بھی سٹور نہیں کر سکتے ہیں۔

دو دو لان والے گھروں میں تو جتنا چاہئیں فاصلہ رکھ کر بیٹھا جا سکتا ہے۔مگر چھوٹے گھر اور فلیٹ میں دو فٹ کا فاصلہ رکھنا بھی محال ہوتا ہے۔ریاست کے جابرانہ محصولات اور جبراً بٹورے گئے ٹیکسز کس دن کے لئے ہیں؟اب جب کہ ساری دنیا میں کسی بیرونی حملے کا کہیں بھی کوئی امکان نہیں ہے ما سوائے اس عالمی وباء کے، تو ریاست کو چاہئے کہ اپنے شہریوں کے لئے ہر سطح پر تعلیمی، معاشی اور سماجی مساوات کو یقینی بنائے۔

یہ وائرس آپ کی خاندانی حیثیت،فرقے،رنگ،ذات،عہدے اور بے پناہ بٹوری گئی دولت حتیٰ کے آپ کے دین اور ایمان کا بھی کوئی لحاظ نہیں رکھتا ہے۔دولت کا ارتکاز کرنے والے خاندانوں، عوام کے پیسے پر عیاشی کرنے والے سرکاری کرم چاریوں اور ان کرم چاریوں کے ہاتھوں ہی چُنے گئے حکمرانوں کے لئے کرونا وائرس ایک طاقتور پیغام ہے۔

اگر سندھ کی صوبائی حکومت عوام کی بھلائی کے لئے اچھے اقدامات کر رہی ہے تو وہ وفاق کا ہی بوجھ ہلکا کر رہی ہے۔غریب آدمی پر شب و روز ہلکا کرنے سے وفاق کی بندوقیں ہمیشہ کے لئے ٹھنڈی نہیں ہو جائیں گی۔ وفاق کو اب ثابت کرنا ہے کہ وہ اپنی فضول خرچیوں کی وجہ سے پس جانے والی،ہمیشہ نظر انداز کی گئی عوام کے ساتھ ہے یا نہیں؟

خدارا! سماجی اور معاشی مساوات یقینی بنائیں ورنہ جو مرضی کریں مگراسلام اور مدینے کی ریاست کا نام لے کر عوام کو مزید دھوکہ نہ دیں۔

Comments are closed.