رمضان سے رامادان تک

محمد شعیب عادل

پانچ جولائی 1977 کو جب جنرل ضیاالحق نے منتخب حکومت پر شب خون مار ا تو میں اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جلد ہی اس شب خون کےاثرات سکول میں پہنچنا شروع ہو گئے۔اس وقت میں گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول گوجرخان میں پڑھتا تھا۔ سکول کا یونیفارم سفید شرٹ اور خاکی پتلون تھالیکن چند ماہ بعد یونیفارم خاکی شلوار قمیض میں تبدیل ہوگیا۔ صبح سکول میں اسمبلی کے وقت علامہ اقبال کی نظم” لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنامیری” پڑھی جاتی تھی اور پھر قومی ترانہ ۔ چند ماہ بعد ہیڈماسٹر صاحب نے کہا کہ اسمبلی کی ابتدا تلاوت قرآن پاک سے ہوگی لہذا کئی خوش الحان طالب علم پہلے تلاوت کلام پاک کرتے،پھر علامہ اقبا ل کی نظم اور پھر قومی ترانہ۔ پھر ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا کہ قرآن پاک کی تلاوت کے بعد حمد/نعت پڑھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

نویں جماعت میں پہنچے تو حکومت پاکستان نے حکم جاری کیا کہ ظہر کی نماز سکول (دفاتر میں بھی ) میں باجماعت ادا کی جائے گی اور پھر کچھ ماہ سکول کے ہال میں باجماعت نماز ادا کی جاتی رہی مگر طالب علموں کا جوش و خروش کم ہوتا گیا اور شاید دسویں جماعت تک یہ سلسلہ بند ہوگیا ۔ لیکن اس کی بجائے نماز پڑھنے کا آدھ گھنٹے کا وقفہ دے دیا گیا ۔مگر تلاوت کلام پاک، نعتیں اور پھر دعائے قنوت سنانے کی روایت میرے سکول چھوڑنے، 1980 ،تک جاری تھی۔

میڑک کرنے کے بعد لاہور آگیا اور کالج میں داخلہ لیا تو یہاں کا ماحول بہرحال گوجرخان کے ماحول سے بہت مختلف تھا۔1981 میں جب بارہویں جماعت پہنچا تو حکومت نے ایف اے، ایف ایس سی اور بی اے بی ایس سی کے لیے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان لازمی مضمون قرار دے دیئے،اور اس کا اطلاق گیارہویں جماعت سے ہوا۔ لہذا ہم طالب علم بچ گئے لیکن بی ایس سی میں بہرحال اسلامیات اور مطالعہ پاکستان پڑھنا پڑا۔ انہی دنوں حافظ سعید بھی انجنئرنگ یونیورسٹی لاہور میں اسلامیات پڑھانے کے لیے بھرتی ہو ئے تھے۔

یہ کوئی 1983 کی بات ہے ، اس وقت لاہور میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا دفتر، فیروز پور روڈ پر ایف سی کالج کے بس سٹاپ کے قریب ایک عمارت میں تھا۔ میرے ایک دوست نے پاسپورٹ بنوانا تھا۔ میں اس کے ساتھ اس دفتر پہنچا تو باہر تین چار جگہ ایک ٹائپ شدہ  نوٹس چسپاں تھا جس میں لکھا تھا کہ جس شخص کے نام کے ساتھ محمد آتا ہے تو آئندہ اس کے سپیلنگ

Muhammad

لکھے جائیں گے لہذا فارم بھرتے وقت تصحیح کرلیں۔یاد رہے کہ اس سے پہلے محمد کے سپیلنگ

Mohammad

لکھے جاتے تھے اور میرے والد انہی سپیلنگ کے ساتھ میرا نام لکھتے بلکہ میڑک کی سند پر بھی یہی سپیلنگ درج تھے۔ یاد رہے کہ ان دنوں اسے مختصر کرکے

Mohd

بھی لکھا جاتا تھا۔یاد رہے کہ تقسیم ہند سے پہلے کی کتب میں حضرت محمد کو محمد صاحب لکھا جاتا تھا۔ تقسیم کے بعد حضرت محمد اور ضیا الحق کے دو رمیں حضر ت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم لکھنا لازمی ہوگیا ۔ اگر آپ دورود نہیں لکھتے تو آپ توہین کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔

سنہ 82 میں گورنمنٹ کالج آف سائنس ، وحدت روڈ، لاہور میں چند طلبا نے کسی موقع کی مناسبت سے اسد امانت علی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ محفل موسیقی کا انعقاد کیا ۔ کالج ہال بھرا ہوا تھا کہ اسلامی جمعیت طلبا کے مسلح غنڈوں نے آکر طلبا کو دھمکایا کہ یہاں کسی صورت غیر اسلامی حرکات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ طلبا بے چارے بھاگ گئے اور چند ایک جنہوں نے مزاحمت کی انھیں مارا پیٹا گیا۔ اس کے بعد کالج میں کوئی غیر اسلامی حرکت نہ ہوئی۔

ضیا الحق کی اسلامائزیشن کا عمل جاری تھا اور مختلف قوانین نافذ کیے جارہے تھے۔جن میں سے ایک اہم قانون زکوۃ و عشر آرڈیننس کا نفاذ تھا۔ میرے والد پروفیسر رفیع اللہ شہاب ، ان دنوں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہر مضمون عربی کی حیثیت سے کام کر رہے تھے ۔ انھوں نے قرآن ، احادیث اور فقہ کی رو سے بتایا کہ حکومت وقت یہ قوانین نافذ نہیں کرسکتی ۔ تفصیل ان کے مضامین میں مل سکتی ہے۔یاد رہے کہ میرے والد نے 1964 سے پاکستان ٹائمز میں کالم لکھنا شروع کیا تھا۔

انہی دنوں حج کے ساتھ ساتھ عمرہ ادا کرنے کا رواج بھی زیادہ ہوگیا۔ میر ے والد نے اپنے مضامین میں اس کی سختی سے مخالفت کی۔ اور بتایا کہ قرآن و حدیث و فقہ کی رو سے حضور نبی اکرم کا ایسا کوئی عمل ثابت نہیں ہوتا۔ حضور نبی اکرم نے ایک ہی حج کیا تھا اور اسے ہی عمرہ بھی قرار دیا تھا۔اسی طرح انھوں نے عیدالضحیٰ پر قربانی کی مخالفت بھی کی (اس کی تفصیل بھی ان کے مضامین میں موجود ہے) ۔

میڈیا پر خواتین کے پردے کی ہدایات بھی شروع ہوگئیں۔ اناؤنسر ز کے لیے دوپٹہ اوڑھنا لازمی قرار پایا۔ رقص کے پروگرام بند ہوگئے اور ٹی وی ڈرامے تجریدی ہوتے گئے۔میرے والد نے پردے کی شرعی حیثیت پر بھی کئی کالم لکھے اور بتایا کہ قرآن میں کہیں یہ ثابت نہیں کہ عورت حجاب لے، موسیقی کے حوالے سے بھی تاریخ سے ایسی بہت سی مثالیں پیش کیں کہ کیسے حضور نبی اکرم کے دور میں بھی خوشی کے موقع پر خواتین دف بجاتی تھیں۔ اس  موضوع پر کبھی  ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے موسیقی کی شرعی حیثیت کے نام سے دو کتابیں بھی شائع کیں۔ ایک کے مصنف جعفر شاہ پھلواری تھے اور دوسری کے سیدنصیر شاہ و رفیع اللہ شہاب تھے۔

اسی کی دہائی میں ہی لاہور میں جنگ فورم میں میرے والد اورضیا الحق کی قریبی مشیر آپا نثار فاطمہ ( جو کہ احسن اقبال کی والدہ تھیں) کے درمیان پردے اور خواتین کی کھیلوں کے موضوع پر مکالمہ ہوا۔ اس موقع پر احمد بشیر اور بیگم پروین عاطف بھی موجود تھیں جو ان دنوں خواتین ہاکی ٹیم کی صدر تھیں۔ جب میرے والد نے قرآن و حدیث و فقہ سے دلائل دینے شروع کیے تو آپا نثار فاطمہ کو کوئی ضروری کام یاد آگیا اور وہ چلی گئیں۔

افغانستان کا مقدس جہاد جاری تھا، ریاست جہاں اسلامائز ہورہی تھی وہیں سماج میں منافقت اورکرپشن بھی بڑھتی جارہی تھی۔ جنرل ضیا الحق برملا اس کا اظہار کرتا۔وہ اپنی بات بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر شروع کرتا اور کہتاکہ الحمداللہ میرے دور میں رشوت کا ریٹ دس روپے سے بڑھ کر سو روپے ہوگیا ہے۔تقریبات کے آغاز کے لیے تلاوت قرآن پاک لازمی ہوگئی اور اگر کسی سے بھول ہو جاتی تو اس کی سرزنش کی جاتی ہے ۔ پہلے لوگ گھروں میں تلاوت کلام پاک کرتے تھے اب دفتروں میں کرتے ہیں۔

سنہ 2000 کے لگ بھگ لاہور میں ایک نیا ٹرینڈ شروع ہوگیا۔ پہلے لوگ اپنے بچوں کو قرآن پاک پڑھنے کے لیے مسجدوں میں بھیجا کرتے تھے مگر آہستہ آہستہ مولوی حضرات کو گھر وں میں بلایا جانے لگا جہاں وہ بچوں کو قرآن پڑھانا سکھاتےتھے۔یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ مولوی صاحب جہاں بچوںکو قرآن پڑھاتے تو ساتھ ساتھ غیر محسوس طریقے سے یہ بھی باور کراتے خواتین کو ہمیشہ باپردہ رہنا چاہیے یا خواتین کا بغیر پردہ باہر نکلنادرست نہیں۔

سماج میں محفل نعت کا رواج شروع ہو گیا اور اب کوئی دن ایسا نہیں گذرتا کہ جب کسی نہ کسی محلے میں محفل نعت کا انعقاد نہ ہورہا ہو، عمرے کے ٹکٹ نہ بانٹے جارہے ہوں۔ گاڑیوں پر پاکستان کا نام الباکستان لکھا جانے لگا۔ اور اب رمضان المبارک کا مبارک مہینہ رامادان کے مقدس مہینے میں تبدیل ہوگیا ہے ۔

میرا ایک دوست جو نوے کی دہائی میں مجھے سبط حسن اور سجاد ظہیر کی کتب پڑھنے کی تلقین کرتا تھا اب روزانہ مجھے وٹس ایپ پر جاوید غامدی کے درس کی ویڈیو بھیجتا ہے۔شدت پسندی اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ اب پروفیسر صاحب کے بچے بھی اپنے والد کے خیالات کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتے کہ کہیں کفر کا فتوی نہ لگ جائے بلکہ حجاب لینے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

اب میں سوچتا ہوں کہ ضیا الحق کا دور بھی بھلا تھا جب اس قسم کے مضامین شائع ہو تے اور مباحثے ہوتے تھے۔ اب مباحثے تو دور کی بات اخبارات بھی ان مضامین کو شائع نہیں کر سکتے ۔ وبا کےدنوںمیں پوری دنیا کے میڈیا میں میڈیکل ایکسپرٹ اور سائنسدان وبا سے بچاو کے طریقے بتا رہےہیں لیکن پاکستان میں میڈیکل ایکسپرٹ کے ساتھ ایک مولوی کو بٹھا دیا جاتا ہے اور قرآن و حدیث کی رو سے جو علاج مولوی بتاتا ہے کسی ڈاکٹر کی جرات نہیں کہ اس کو غلط کہے۔

اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ سال2020کے رامادان کے مقدس مہینے کے آغاز پر گورنر پنجاب سرور چوہدری نے پنجاب کی یونیورسٹیوں میں ترجمے کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا ضروری قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں انھوں نے وائس چانسلر ز پر مشتمل سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو اپنی سفارشات گورنر کو پیش کرے گی کہ اسے سلیبس کا لازمی حصہ بنایا جائے۔

2 Comments