مسئلہ انہیں  سماجیانے کا ہے

جہانزیب کاکڑ


ایک زمانہ تھا کہ جب پروہت اور اہل کلیسا نہیں چاہتے تھے کہ علم کی دیوی آسمانوں سے اتر کر زمین والوں پر مہربان ہو جائے،اسی لئے وہ علم کے خزانے خود تک مختص کرتے ہوئے ہر قسم کی علمی تحریک کو سختی سے کچل دیتےتھے، مبادا ان کے مفادات خطرے سے دوچار ہوں۔  سائنسی علوم کو فقط اپنی غرض برآری کے لئے استعمال کیا کرتے تھے۔قدیم بابل کے پروہت جو علم ہئیت کے ماہرین بھی تھے سورج گرہن اور چاند گرہن کی ٹھیک ٹھیک پیشن گوئی کرتے تھے، اور عوام اور غریب پجاریوں سے کہتے کہ سورج یا چاند دیوتا کو تاریکی کی بلا نگلنے والی ہے،اسی لئے پروہت کے ہاں مال واسباب جمع کرایا جائے تاکہ تاریکی کی اس بلا سے، پروہت سے منتر پڑھوا کر، سورج اور چاند دیوتا کو نجات دلوائی جاسکے۔

وہ پہلے فطری فلاسفہ جنہوں نے کائنات کی ماہیت اورانسانی زندگی کی حقیقت سے متعلق سوالات اٹھائے، اہل کلیسا کی عتاب کا شکار ہوئے۔قدیم یونان کی شہری ریاست ایتھنز میں پہلی بار فلسفہ متعارف کرانے والے فلسفی انکساغورس(۵۱۰_۶۲۸)،جسے اس وقت کے حکمران پیری کلیز کے کہنے پر وہاں بلایا گیا تھا،کو اس لیئے ملک بدر کیا گیا کہ اس کے نظریات جو روشن خیالی کا باعث بن رہے تھے،اس وقت کے دیوتائی نظاموں سے متصادم تھے۔

سقراط(۳۹۹_۴۷۰) کو اس لیے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ سوالات اٹھا کر مروجہ خیالات کے خلاف، نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کر رہا تھا۔

عہد وسطی کے سائنسی مفکرین اور فلاسفہ کو بھی مذہبی پروہتوں کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی۔

عرب فلسفی ابو یعقوب ابن اسحاق الکندی(۸۷۳_۸۰۱)جسے روشن خیال خلیفہ مامون الرشید کے دور خلافت میں  علم وفضل کا اعلا مقام حاصل تھا، کو راسخ العقیدہ خلیفہ المتوکل کے دور حکومت میں ایذا پہنچائی گئی۔اس کے ذاتی کتب خانے الکندیہکو تحویل میں لیا گیا اور ساٹھ سال کی عمر میں اسے پچاس کوڑوں کی سزا دلوائی گئی۔

محمدبن زکریاالرازی(۸۶۵_۹۲۵) جسجالینوس عرببھی کہا جاتا ہے،مشہور عرب طبیب و ماہر فلسفہ ہو گزرے ہیں، کو بخارا کے راسخ العقیدہ خاندان منصور کے ایک امیر نے، حکم دیا کہ الرازی کو اس کی لکھی گئی کتاب کے ذریعے اس قدر مارا جائے کہ یا تو اسکا سر ٹوٹ جائے یا کتاب ٹوٹ جائے۔چنانچہ اسے اسکی کتاب سے سر پر اتنا مارا گیا کہ اس کی بینائی چلی گئی۔

 جب گلیلیو(۱۵۶۴_۱۶۴۲)کا ٫٫سورج مرکزی،، نظریہ کلیسا کے ٫٫زمین مرکزی،، نظریے سے ٹکراؤ میں آگیا تو انہوں نے زبردستی اسے اپنے سائنسی نظریات سے تائب ہونے پر مجبور کیا۔
برونو(۶۱۰۰_۱۵۴۸)جسے شہید سائنس بھی کہا جاتا ہے، کو آگ میں اس لیئے زندہ جلا دیا گیا کہ اس کے فلکیاتی اور فلسفیانہ نظریات کلیسائے وقت کے اعتقادات کو چیلنج کر رہے تھے جس سے ان کی اجارہ داری خطرے میں پڑ رہی تھی۔

چارلس ڈارون(۱۸۰۹_۱۸۸۲) کو اپنی کتابوں کی چھپوائی ،اہل کلیسا کے خوف سے ہی مؤخر کرنا پڑی ۔ مگر ہر قسم کی کلیسائی جبر کے باوجود فلاسفہ،سائنسدانوں اور اہل علم نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ یہاں تک کہ فطری علوم کی آبیاری کو بالآخر منوا کر ہی رہے۔اہل کلیسا نےجب دیکھا کہ فطری علوم کی روشنی تو پھیل کر ہی رہی، تو اب نئی ترکیب یہ نکالی کہ کتب کلیسا کی ورق گردانی کرتے ہوئے سائنسی نظریات کو ان کے زریعے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ حال ہی میں پاپائے روم نے ڈارون کےنظریہء ارتقا کو انجیل کی تعلیمات کے عین مطابق قرار دیاتھا۔

اب جب فطری علوم کا مورچہ اہل کلیسا کے ہاتھ سے نکل گیا تو انہوں نے اک نئی راہ یہ اپنا لی کہ کسی طرح فطری علوم کے حاصلات کو سماج تک نہ پہنچنے دیا جائے اور سرمایہ دارانہ نظام کا ہم نوا بن کر فطری علوم کے حاصلات کو سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ سے اپنی طرف موڑ دیا جائے۔اگرچہ وہ ان حاصلات کے بڑے حصوں کو ہتھیانے میں تو ناکام رہے مگر پھر بھی سرمایہ دارانہ نظام کی وکالت کے ذریعے اپنے مفادات محفوظ کرنے میں ضرور کامیاب ہوگئے۔

آج جب فطری علوم کو پروان چڑھانے کی بات آتی ہے تو اس پرکلیسا کے سنجیدہ حلقوں کو مطلق اعتراض نہیں ہوتا مگر جوں ہی ان کے حاصلات کی باری آتی ہے تو سرمایہ داروں بشمول اہل کلیسا کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں کہ یہ تو غیر فطری ہے کہ فطری علوم کے حاصلات کو تمام افراد معاشرہ تک بہم پہنچائے جائیں۔

بیسویں صدی کی دوسری دہائی1917 میں جب سوویت یونین میں جمہور راج قائم ہوگیا تو اب یہ صاف نظر آنے لگا کہ فطری علوم کے حاصلات کو سماجی بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس کو ناکام بنانے کے لیئے سرمایہ داری نے مختلف اقسام کے اقتصادی، فوجی، سفارتی اور علمی محاذ کھولے تاکہ فطری علوم کے حاصلات کو سماجی بنانے سے روکا جاسکے۔

گو کہ سوویت یونین نے پیش قدمی کی مگر بعدازاں مختلف نظریاتی، تیکنیکی اور اقتصادی کمزوریوں کی وجہ سے اسے صدیوں پر محیط ایک تجربہ کار دشمن سرمایہ داری کے آگے ڈھیر ہونا پڑا۔(فی الوقت یہاں پراسکی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں) مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ فطری علوم کے حاصلات کو سماجی بنانے کا عمل ہی سرے سے رک جانا چاہیئے۔

جس طرح ہم نے دیکھ لیا کہ مذموم مفادات کے حصول کے لیئے کلیسا نے علوم پر اپنی اجارہ داری قائم رکھی اور ھر قسم کی شرار بغاوت کو سختی سے دفنا دیا گیا۔ مگر فلاسفہ اور سائنسدانوں کی قربانیوں سے فطری علوم، سماجی زندگی کے قریب تر آگئے۔ اور سرمایہ داری نظام نے تو اسے اس حد تک پروان چڑھایا کہ اب تو ان کے “حاصلات” کی تقسیم ،عصر حاضر کے سیاسیات کا مرکزی نقطہ بن گیا۔اور انہیں سماجیانے اور عوامی بنانے کا فریضہ موجودہ دور کے اہل علم وعمل انقلابیوں کا بنیادی فریضہ ہے۔

کتابیات:۔
۔(۱)روح عصر،جلالپوری،علی عباس، ناشر،تخلیقات،سن اشاعت،۲۰۰۲
۔(۲)مسلمان اور سائنس،ھودبھائی،پرویز امیر علی، ناشر،مشعل بکس،سن اشاعت۲۰۰۵
۔(۳)روايات فلسفہ،جلالپوری،علی عباس،ناشر تخلیقات ،سن اشاعت،۲۰۱۳

 

Comments are closed.