نئی وبا اور پاکستان پر مسلط راسپوتینؔ ِوقت

منیر  سامی

اس وقت ساری دنیا کو جس وبا نے گھیرا ہے، پاکستان بھی اس کا شدید شکار ہے۔ اس زمانے میں پاکستان کی مذہبی شخصیات کا کردار دیکھ کر بے اختیار روس کا راسپوتینؔ یاد آتا ہے۔ جس نے مذہب اور روحانیت کو روس کے شاہنشاہ اور ملکہ کو اپنے سحر شکنجے میں دبوچنے کے لیے استعمال کیا تھا۔  اس کے بعد روسی حکومت کے کرتا دھرتا افسران بھی سالوں تک اس کے طابع رہے۔اس سحر کاری کے نتیجہ میں روس کی عظیم سلطنت زوال کا شکار ہوئی، شاہنشاہ او ر ملکہ سمیت ان کے اہلِ خانہ بھی قتل ہوئے، اور دیگر سرکاری عہدے دار بھی۔ اس تاریخ کو آپ خود کھوج سکتے ہیں۔

ہمیں اس مضمون میں راسپوتین کا استعارہ  استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں  ہے۔حقیقت تو یہی  ہے کہ سالہاسال سے عالمِ اسلام اور پاکستان بھی مذہبی شخصیات کے سحر کا شکار ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ ان میں سے اکثر شاید جنسی طور کج رو نہ ہوں۔ لیکن یہ سب ،صرف کچھ استثنا کے  ساتھ، مذہب کو اپنے یا اپنے فرقہ کے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ حکومتوں کو اور سربراہانِ مملکت کو اپنے طابع اور زیرِ نگیں رکھتے ہیں۔ کیونکہ ایسے سربراہ اپنا اقتدار رکھنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیئے مذہب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ مذہبی شخصیات کا اثر اور رسوخ اسلامی حکومتوں میں راسخ رہا ہے۔ چاہے وہ اموی یا عباسی خلیفہ ہوں، یا ترک سلاطین اور مغلیہ سلطنت۔ آپ مطالعہ کریں تو جان جایئں گے کہ کونساحکمراں کس مذہبی شخصیت کے اثر میں تھا۔ روسی راسپوتیں بھی ایک اقلیتی مذہبی فرقہ ہی کا پرچارک تھا۔

پاکستان ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ بھی مذہبی شخصیات کے اثر میں بنا۔ بلکہ خود پاکستان بنانے کے لیے محمد علی جناح ؔ کو مولانا شبیر احمد عثمانی ؔ کا فتویٰ حاصل کرنا پڑا تھا۔ بھٹو نے اپنی حکومت بچانے کے لیے مذہبی شخصیات پر بھروسہ کیا، پھر بھی جان گنوائی۔ پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام بھی ایسے ہی مذہبی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ مولانا طاہرالقادری اور مولانا فضل الرحمان بھی یہی ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے  ہیں۔

ہمارے موجودہ وزیرِ اعظم عمرانؔ خان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے اقتدار میں ،کچھ حقیقی مقتدرہ قوتوں کے ساتھ ساتھ تعویذ گنڈوں کا بھی دخل ہے۔ اور یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ کچھ عمل تو شاید ان کے گھر میں بھی ہوتے ہوں ۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ عمران خان کس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، یا ان کی روحانیت کیا ہے۔ ہمیں تو یہ فکر ہے کہ ہماری قوم کو پیرِ تسمہ پاکی طرح کی مذہبی شخصیات نے مسلسل زوال پذیر کیے رکھا ہے۔

موجود ہ وبا کے دوران ساری دنیا میں تقریباً ہر مذہب کے عمل پیرا لوگوں نے احتیاطیں اپنائیں، اور مذہبی معاملات میں پُر صبر اعتدال اختیار کیا۔ مسلمانو ں کے اہم ترین مراکز مکہ اور مدینہ میں مذہبی اجتماعات پر پابندی لگی۔ مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد کو محدود کیا گیا۔ رمضان میں وہاں تراویح میں کمی کی کی جائے گی اور عوام اس نفل کی ادائیگی کے لیے مسجد نہیں جا سکیں گے۔ وہاں عمرہ پر پابندی ہے، شاید حج پر بھی پابند ی لگے۔ مسجدوں میں افظار نہیں ہوں گے۔ یہ اس مر کز میں ہو رہا ہے جو ہر مسلمان کا قبلہ ہے۔

اس کے بر خلاف پاکستان کی مذہبی شخصیات ہر حکومتی پابندی کو رد کر رہی ہیں۔ انہوں نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ صدرِ پاکستان ان کے ساتھ مسجدوں میں اجتماعات کے لیے خاص معاہدہ کریں۔ اُن صدر کے ساتھ جن کا کوئی انتظامی اختیار نہیں ہے۔ یہ معاہدہ بھی  خود مضحکہ خیز ہے جو ہر سائنسی اور طبی رائے اور دلیل سے متصام ہے۔ اس معاہدہ کے بعد پاکستانی نژاد موقر اور معزز ڈاکٹروں نے اس معاہدے پر اعتراض کیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز یہ خبر ہے کہ یہ ،معاہدہ سعودی شاہی خاندان اور وہاں کے مذہبی رہنماؤں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بھیجا جارہا ہے کہ شاید وہ اس پر بھروسہ کرکے اپنی پابندیوںپر نظرِ ثانی کریں۔

عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں صورتِ حال ایسی سنگین نہیں ہے جیسی بعض دیگر ممالک میں ہے ۔ انہوں نے لوگوں سے ملنے میں احتیاط نہیں کی۔ خبر یہ بھی ہے کہ فیصل ایدھی جو حال ہی میں عمران خان سے ذاتی ملاقات کے لیے گئے تھے اب خود اس مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔خبر یہ بھی ہے کہ عمران خان سے ملنے سے قبل خود فیصل ایدھی کا بیٹا اس مرض کا شکار تھا۔ عمران خان کے ذاتی طبیب نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ فوراً اپنے ٹسٹ کروائیں۔

پاکستانی مذہبی شخصیات اور عمران خان کے اثر میں پاکستان کے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ افراد ذہنی خلفشار کا شکار ہیں ۔ عمران خان ناقص یا کمزور معلومات پر بھروسہ کرکے اور ادھر اُدھر کی غلط یا صحیح خبروں پر انحصار کرکے عجیب عجیب بیانات  دیتے ہیں ۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ ان کی حکومت کونین کی ایک کروڑ گولیاں مختلف ملکوں کو بھیج رہی ہے۔ کسی بھی سائنسی تصدیق کے بغیر کہ  یہ دوا اس وبا کے خلاف موثر ہو سکتی ہے۔

ہر روایت یہ کہتی ہے کہ وقتاً فوقتاً مختلف ادوار میں اندھیر نگری پھیلتی ہے اور چوپٹ راجہ حکمران ہوتے ہیں۔ یہ بھی روایت ہے کہ ہر اندھیر نگری کے پیچھے جہالت پر مبنی مذہبیت کا دخل ہوتا ہے۔ یہ کہنا کافی نہ ہوگا کہ ہم آج ایسی ہی اندھیر نگری میں جی رہے ہیں ، بلکہ یہ کہنالازم ہے کہ ہم دایئماً اندھیر نگری اور چوپٹ راج میں رہتے ہیں ۔ اور ہر اِس راج کے اپنے راسپوتین  ہوتے  ہیں ، ہماری کج عقل مذہبی شخصیات آج کی راسپوتین ہیں۔

One Comment