وہ کلیمِ بے تجلّی، وہ مسیحِ بے صلیب

محمد شعیب عادل

جب سے سوشل میڈیا وجود میں آیا ہے ، گویا نظریاتی دوستوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ قرآن کی تعلیمات ہوں یا مارکس کی، کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔سوشل میڈیا اب ایک ایسا فورم بن چکا ہے جہاں ایک جانب دوست آرٹ، موسیقی و رقص پر گفتگو کرتے ملیں گے تو دوسر ی طرف آپ کو جمعہ مبارک،رامادان مبارک، محرم اور عیدمیلادالنبی کی مبارکباد بھی وصول کرتے ہیں۔ جبکہ سازشی تھیوریاں اور لوگوں کی غیبتیں تو انسانی مزاج کا جزو لاینفک ہیں ۔ لہذا اب چین جانے کی ضرورت نہیں سب کچھ سوشل میڈیا پر ہی دستیاب ہے۔

پاکستان میں سیاسی عمل نہ ہونے سے ایک دوسرے کے خیالات کو برداشت کرنا بھی ناممکن ہو چکا ہے۔سوشل میڈیا کی آمد کو ہوا کا تازہ جھونکا سمجھا گیا اور کہا گیا کہ اب وہ زمانہ لد گیا جب کسی کی بات کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا یہاں ہر کسی کو کھل کھیلنے کی آزادی ہے لیکن جلد ہی یہ خوش فہمی بھی دور ہوگئی۔ اب پہلے سے بھی زیادہ احتیاط کرنا پڑتی ہے کیونکہ اب تو سوشل میڈیا پر بھی خلاف شرع بات کرنے پر بلاسفیمی کا پرچہ کاٹ دیاجاتا ہے۔ایک ایسا سماج جہاں بالادست قوتیں اپنے خلاف کوئی بات برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں وہاں سوشل میڈیا بھی بے بس ہوجاتا ہے۔

لیکن پھر بھی سوشل میڈیا کا دم غنیمت ہے کہ یہاں دنیا بھر کے دوستوں کے خیالات جاننے اور سننے کو مل جاتے ہیں۔ پہلے اگر چند دوست کسی ایک جگہ بیٹھ کر جو گفتگو کرتے تھے وہ انہی تک محدود ہوتی تھی اب سوشل میڈیا کی بدولت سات سمندر پار بیٹھے دوستوں کے خیالات بھی جاننے کا موقع ملتا ہے ۔ جو لوگ آزاد ملکوں میں بیٹھے ہیں، ان کے خیالات اشاروں کنایوں سے مبرا ہیں۔ ایسے مضامین پڑھنے کو مل جاتے ہیں جن کا سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے پڑھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ریاستی اداروں کی اپنے ہی ملک کے شہریوں پر ظلم و تشدد کی خبریں لمحہ بہ لمحہ ملتی ہیں۔

پانچ مئی کو کلیم بے تجلی و مسیح بے صلیب، کارل مارکس کا جشن ولادت بھی سوشل میڈیا میں منایا گیا ہے۔ کارل مارکس کی تعلیمات کو ایک بار پھر تازہ کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کارل مارکس نے افتادگان خاک کو ایک امید کی کرن دکھائی اور ان کی سوچ و فکر نے دنیا بھر میں انقلاب برپا کیا ۔ اس موقع پر انقلاب انقلاب کے نعرے گونجتے ہیں اور گیت گائے جاتے ہیں۔ لکھاری اور سیاسی کارکن افتادگان خاک کو ایک نئی دنیا کی امید دکھا تے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے ایسے لگتا ہے جیسے مولوی ٹی جے جنت کا منظر بیان کررہے ہوں۔

جیسے مذہبی علما، تمام تر فرقہ وارانہ اختلافات کے باوجود ایک قرآن پر متفق ہیں تو یہی صورت حال بائیں بازو کے دوستوں کی بھی ہے جو کم ازکم داس کیپیٹل پر متفق ہیں۔ مگر جب اس پر عمل کرنے کی بات چھیڑی جائے تو جھگڑا کھڑا ہوجاتا ہے ۔ مولوی پر تنقید کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اسلام سے نفرت کرتا ہے اور اگر بائیں بازو کے دوستوں کے خیالات یا ان کی سیاست پر طنز کیا جائے تو اسے کیپٹلزم کا پیروکار سمجھا جاتا ہے۔

کارل مارکس کی سوچ اور فکر اور اس کی تعلیمات سے اختلاف ممکن نہیں اور میں ان کی توہین کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا لہذا مجھے بلاسفیمی کا مرتکب نہ سمجھا جائے۔لیکن میری عیدمیلاد النبی منانے والے دوستوں سے اتنی عرض ہے کہ براہ مہربانی ہر سال ایک ہی قسم کی تعلیمات کی جگالی کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی ایسا سیاسی لائحہ عمل بتائیں کہ جس سے ان کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بائیں بازو کے دوست معاشی و سماجی حالات کا سائنسی تجزیہ کرتے ہیں لیکن احتیاط کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ وہ اپنے تجزیوں میں سماجی انصاف کے تمام تر زوال کا ذمہ دار ملک پر قابض ریاستی اداروں کی بجائے مغربی قوتوں کو ٹھہراتے ہیں۔ انہیں امریکی مظالم تو یاد رہتے ہیں لیکن بلوچستان ، خیبر پختونخواہ یا سندھ میں جبری طورپر لاپتہ افراد کی بازیابی کے مسئلے کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مسخ شدہ لاشوں کی بازیابی پر خاموشی اختیار رکھتے ہیں ۔ماڑا بندہ تو پھر کچھ جدوجہد کرلیتا ہے کیونکہ اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں مگر ایلیٹ کلاس اگر مگر کا سہارا لے لیتی ہے۔

ایک وقت تھا کہ جب انقلابی شاعری پڑھنے پر ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اب حکمران خود انقلابی شاعری پڑھتے ہیں۔کوئی ہے جو سندھ میں ہندو لڑکیوں کے اغوا پر گیت بنائے؟ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ریاستی ظلم وتشدد و ماروائے عدالت قتل کو گیتوںکی صورت میں عوام تک پہنچائے۔

میں نے ایک بار پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری (سوری)، تیمور رحمن، جنھوں نے ابھی مجھے ان فرینڈ نہیں کیا تھا، سے کہا تھا کہ حبیب جالب اور فیض کے گیت بے شک گائیں لیکن ایک گیت بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم یا لاپتہ بلوچ عوام کی بازیابی کے لیے بھی لکھیں اور گائیں لیکن جواب میں انہوں نے صرف مسکراہٹ ہی بھیجی۔

One Comment