پاکستان اور بھارت کا دوقومی نظریہ

لیاقت علی

وزیر اعظم پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں لیکن بھارتی وزیراعظم مودی پر معترض ہیں کہ وہ بھارت کو ہندو ریاست کیوں بنانا چاہتے ہیں۔جسٹس منیر(منیر انکوائری رپورٹ میں لکھتے ہیں ) نے مولانا مودودی سے پوچھا تھا کہ آپ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے مدعی ہیں اگر بھارت اپنے ہاں مسلمانوں کو ملیچھ قرار دے دے اور منوسمرتی کے قوانین کا نفاذ کرے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا تو مولانا مودودی نے جواب دیا تھا کہ انھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندوانتہا پسندی کی جڑیں دوقومی نظریئےمیں پیوست ہیں۔دوقومی نظریہ کے مطابق ہندوستان کے مسلمان مذہبی اشتراک کی بنا پرایک قوم تھے اورایک علیحدہ ملک کے حق دار کیونکہ وہ ہندو اکثریت کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے تھے۔مسلم لیگ کے دو قومی نظریئے کی مخالف کانگریس تھی جو سیکولرازم پر یقین رکھتی تھی اورمذہب کوفردکا شخصی مسئلہ خیال کرتی تھی۔کانگریس کا سیکولرازم مسلم لیگ کے دوقومی نظریے کے مقابلے میں شکست کھاگیا اورمسلم لیگ مذہب کے نام پرایک علیحدہ ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

قیام پاکستان کے بعد جوں جوں پاکستان میں شریعت کے نفاذ کی طرف بھلے لفظی پیش قدمی ہوئی اسی رفتار سے بھارت میں ہندوبنیاد پرستی کو طاقت حاصل ہونا شروع ہوئی۔کانگریس کا سیکولرازم روز بروز ہندو بنیاد پرستی کے روبروپسپائی اختیار کرتا چلا گیا۔ کانگریس کے سیکولرازم کو ملک کی تقسیم کا ذمہ داراورہندو مذہب کا غدار قرار دیا گیا۔

قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے ریاستی اہلکاروں نے کانگریس اور اس کی قیادت کو پرلے درجے کی ہندو بنیاد پرست اور ان کے سیکولرازم کو محض ڈھونگ قرار دیا گیا۔ پاکستان کی یہ لائن بھارت میں ہندو بنیاد پرستی کو شہ دیتی رہی اور اس کے ووٹ بنک میں اضافے کا باعث بنتی چلی گئی۔

پاکستان نے ہمیشہ سیکولرازم کی مخالف ہندو بنیاد پرست قیادت کی تعریف کی اور اس کو بھارت کی حقیقی لیڈر شپ قراردیا۔جنرل ضیا کے دور میں وزیراعظم ڈیسائی کو پاکستان کا اعلی ترین سول ایوارڈ دیا گیاتھا۔ ہندو بنیاد پرستی کے چمپین لال کرشن ایڈوانی کو پاکستان میں ریاستی پروٹوکول دیا گیااور بی جے پی کے لیڈر اور سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کا اتنا پرتپاک استقبال تو شاید ہی کہیں ہوا ہو جتنا پاکستانی ریاست نے کیا۔

لگتا تھا کہ وہ بی جے پی کے لیڈر اور بھارتی فوج کے سابق میجر نہیں بلکہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھی ہوں۔ ان کی کتاب کی شہر شہر تقریبات پذیرائی منعقد کی گئی تھیں اور ان کی کتاب کو حوالے کی کتاب قراردیا گیاتھا۔ پاکستان کی ریاست نے ہمیشہ کانگریس اور سیکولرازم کی مخالف بھارتی سیاسی قیادت کو خوش آمدید کہا اور ان کی راہ میں آنکھیں بچھائیں جب کہ گاندھی نہرو اور مولانا آزاد کی کردار کشی کی گئی اور انھیں بدترین ہندو انتہا پسند قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا۔

اب جب کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند برسر اقتدار ہیں تو پاکستان کو خوش ہونا چاہیے کہ سیکولرازم بھارت میں ناکام ہوگیا اور بھارت کے عوام نے کانگریس کو مسترد کرکے بی جے پی جیسی بنیاد پرست ہندو سیاسی جماعت کو اقتدار تک رسائی دے دی ہے کیونکہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی خواہش بھی یہی تھی۔

One Comment