افسوس کہ جناح کو خاموشی کی نہ سوجھی


فراغت  بٹ  

اسٹیو جابز عصر حاضر کے ان لوگوں میں شامل ہے جنھوں نے ٹیکنالوجی کے انقلاب کی بنیاد رکھی اور اسے گھر گھر تک پہنچایا، ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ عام سے کام کو بھی مختلف طریقے سے کرنے کی سوچ اور صلاحیت رکھتے ہیں وہی اس دنیا کو بدلتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم کو بھی بجا طور پر اسی طرح کے عالی دماغ لوگوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ویثرن کی داد بہت جلد پوری دنیا دے گی، آنے والے دنوں میں اس پر ریسرچ کی جائے گی اور طالب علم اس پر پی ایچ ڈی کرکے فخر کیا کریں گے۔ اور یہ ویثرن اب دیسی مرغیوں ، انڈوں اور کٹوں تک محدود نہیں بلکہ اب معاملات بہت آگے نکل چکے ہیں۔

دنیا پر اس لاجواب سوچ کا انکشاف تو بہت پہلے ہوچکا تھا، جب  دھرنے کے دنوں میں  بجلی کے بلوں میں اضافے پر انھوں نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان ایک بل کو آگ لگا کر کیا تھا۔ برا ہو ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں کا جنھوں نے ان کی اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور بجلی کے بل باقاعدگی سے ادا کرتے رہے اور تو اور کسی بدخواہ نے تو ان کی بنی گالا کی رہائش گاہ کا بل ادا کرکے پوری تحریک کی ہوا نکا ل دی ۔

اب انکی حکومت میں بجلی کے بلوں میں کس قدر اضافہ ہوچکا اس پر بات کرنے کے مطلب ہے گالم گلوچ کو دعوت دینا جس کا مقابلہ ہر کوئی نہیں کرسکتا۔ اور یہ ان کی سوچ کا ایک اور پہلو ہے۔  مخالفین کو برا بھلا کہنا، تنقید کرنےوالے صحافیوں کو لفافہ قرار دے دینا ان کی بہترین حکمت عملی کی ادنی مثالیں ہیں۔ ابھی بھی سوشل میڈیا پر ان پر کوئی تنقید کرکے دیکھ لیں ، کوئی سوال اٹھا کر دیکھ لیں۔ انقلابیوں کی گالیوں سے آپ کی وال بھر جائے گی مگر جواب کوئی نہ ملے گا۔

گالم گلوچ کے طوفان میں اصل بات لوگ فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ ہاں یہ بات تشویش ناک ضرور ہے کہ انکے اپنے ووٹر اس عظیم انسان کی باتوں کو زیادہ ا ہمیت نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر ان سے پوچھا جائے کہ بھئی  ریلوے کے سینکڑوں حادثات کے باوجود شیخ رشید استعفی کیوں نہیں دیتے تو جواب آتا ہے حادثوں کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ان کو یاد کروایا جائے کہ خان صاحب تو کہتے تھے کہ اگر کوئی بھی حادثہ ہو تو وزیر کو مستعفی ہونا چاہئے کیوں کہ وہ پھر تحقیقات پر اثر انداز ہوسکتا ہے تو پھر آپ پر تنقید شروع ہوجاتی ہے۔ بدترین حالات میں سوال اٹھانے والے کو گالیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایک اور بیمثال حکمت عملی کا نمونہ  اس وقت نظر آیا جب مودی حکومت نے آئین کی متعلقہ شق کو معطل کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قراد دے دیا۔ اس موقع پر پورے پاکستانی  قوم کی نظریں خان صاحب پر تھیں کہ اب وہ کوئی ایسا جواب دیں گے کہ مودی ساری زندگی پچھتائے گا۔ خان صاحب نے اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اب ہر جمعے کو روز آدھے گھنٹے باہر دھوپ میں کھڑے ہوکر احتجاج کریں گے اور مودی کو مجبور کردیں گے کہ وہ کشمیر چھوڑ کر بھاگ جائے۔

ایک بار پھر ان کا ساتھ انکے اپنے سپورٹروں اور ووٹروں نے بھی نہ دیا۔ پہلے جمعے تو سرکاری ملازمین کو زبردستی دھوپ میں کھڑا کیا گیا مگر اگلی مرتبہ کوئی نہ آیا اور کشمیر کا معاملہ وہیں کا وہیں رہ گیا۔ حالانکہ مودی تو سنا ہے کہ ڈر کے مارے انڈ رگراونڈ ہوگیا تھا اسے اس قدر سخت جواب کی امید ہرگز نہ تھی۔ مگر افسوس کہ لوگوں نے خان کا مذاق اڑایا اور ان کا ساتھ نہ دیا۔ باہر دھوپ میں کھڑے نہ ہوئے۔ ورنہ یہ تد بیر اگر جنگ عظیم میں یورپی لیڈروں کو سوجھ جاتی تو اسقدر خون خرابہ کیوں ہوتا۔ صرف پولینڈ کے لوگ ہر جمعہ کو دھوپ میں کھڑے ہوجاتے تو ہٹلر وہیں سے واپس لوٹ جاتا۔

ابھی تحریر یہیں تک پہنچی تھی کہ دیکھتی آنکھوں نے روک دیا اور کہا کہ پولینڈ میں باجماعت نماز جمعہ کا انعقاد اس طرح سے نہیں ہوتا وہاں دھوپ بھی اتنی نہیں پڑتی اور اگر جرمن فوج کے آگے اس طرح کی کوئی مسخری کرنے کی کوشش بھی کی جاتی تو وہ ٹانگیں توڑ کر ہاتھ میں دے دیتے۔

کشمیر کی آزادی کے لئے عمران خان کی جارحانہ حکمت عملی کے نئے نمونے بھی سامنے آرہے ہیں۔ مودی اور  بھارتی فوج میں تھرتھلی مچ چکی ہے۔ پانچ اگست کو کشمیر کی آزادی کے لئے خان صاحب اب ادھ گھنٹے کی بجائے ایک منٹ پر آگئے ہیں اور کہا ہے کہ ایک منٹ خاموشی اختیار کی جائے گی۔ دفاعی ماہرین کے مطابق اب مودی کے پاس اسکے علاہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ کشمیر خاموشی سے چھوڑ کر بھاگ جائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ ایک منٹ کی خاموشی دو منٹ کی خاموشی میں بدل جائے اور پورا ملک ہی ہاتھ سے نکل جائے۔

ویسے بھی کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سرنگر ہائی وے رکھا جارہا ہے اگر مودی باز نہ آیا تو کسی بھی علاقے کا نام دلی رکھ کر پوری گیم ہی ختم کردیں گے۔ سوچنے کی بات ہے اگر جناح صاحب بھی اسقدر جدو جہد کرنے کے بجائے صرف ایک منٹ کے لئے چپ ہوجاتے تو شاید پاکستان تو 1940 میں ہی بن جاتا شاید اس سے بھی پہلے۔ بس آدھا گھنٹا بار کھڑے ہوجاتے تو انگریز ڈر کر مارے کب کا بھاگ جاتا۔

اگر میاں نواز شریف چھ منٹ کی خاموشی اختیار کرلیتے تو بھارت ایٹمی دھماکوں پر معذرت بھی کرتا اور دھماکے واپس بھی لے لیتا شیاد۔

مگر اس مرتبہ بھارت کا بچنا مشکل ہے اوپر سے آئی ایس پی آر نے نیا گانا بھی جاری کردیا ہے جس کے بعد سنا ہے بھارتی فوج دہل کر رہ گئی ہے، پانچ اگست کے بعد کشمیر کو آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ، مودی بھی شاید مستعفی ہو جائے تو اس پر ایک آدھ کیس نیب کا بھی کھول دیا جائے کیا خیال ہے؟

Comments are closed.