مادری زبان کامقدمہ

پائندخان خروٹی

پاکستان ایک کثیرالقومی اور کثیراللسانی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے اس ملک کی قومی زبان یہاں صدیوں سے آباد پانچ بڑی اقوام (پشتون، بلوچ، پنجابی، سندھی اور سرائیکی) میں سے کسی کی مادری زبان نہیں ہے۔ اسکی وجہ سے تمام اقوام میں احساس محرومی فروغ پاتا ہے۔ خاص طور پر سے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی ڈائریکشن نہیں ہے۔ ہمارے بچے جب تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں تو انہیں اردو زبان میں نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے بلکہ ان کی مادری زبانوں کو کمتر اور حقیر ٹھہرایا جاتا ہے۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی اداروں میں چارٹ یا سائن بورڈ پر لکھا جاتا ہے کہ یہاں اردو کے علاوہ کسی بھی مقامی زبان میں بولنا منع ہے۔ اس کے نتیجے میں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے بچے اپنی زبان بولتے ہوئے احساس جرم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کے علاوہ مذہبی مدارس میں زبان کے حوالے سے سے بھی یہی رویہ پایا جاتا ہے۔ مذہبی اساتذہ اکرام مذہبی زبان کو مذہب اور عقیدہ کے ساتھ جوڑ کر بقیہ زبانوں کو کمتر قرار دیتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ تمام قوموں سے ان کی مادری زبانیں چھین کر تمام بچوں کو شناخت کے بحران میں مبتلا کردیا گیا۔ مختلف قوموں کی زبانوں کو نظر انداز کرنے سے ان کی تہذیبی اقدار، روایات اور قومی ہیروز پر لکیر پھیر دی جاتی ہے۔ دین مبین اسلام سے لیکر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور پاکستان کے 1973ء کے آئین تک اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان غلام پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے اظہار کی آزادی کو سلب کیا جاسکتا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں صدیوں سے بسنے والے بڑی اقوام کی قومی زبانوں کو کبھی خلاف اسلام قرار دیتے ہیں اور کبھی یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے سے ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ ہوسکتا ہے۔ جبکہ سابق سوویت یونین میں پچپن زبانیں بشمول سینٹرل ایشیا میں رہنے والے مسلمانوں کی زبانیں، موجودہ ہندوستان میں بائیس زبانوں اور کینیڈا میں تین زبانوں کو قومی درجہ دیا گیا ہے اور اس سے کسی کی سالمیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ تجربوں سے ثابت ہے کہ مقامی قوموں کی زبانوں کو قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کرنے میں عوامی اتحاد اور ملکی سالمیت کو استحکام حاصل ہو سکتا ہے۔

پھر بھی پاکستان میں ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے کہ جس میں اپنے ہزاروں برس پر مبنی تاریخ اور قومی و جغرافیائی رشتوں کو بھلانے اور ختم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ سرکاری نصاب میں عرب اور مغل حضرات کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ اس خطے کے ہزاروں سال پرانی تہذیب اور باغ وبہار شخصیات کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ جن شخصیات کو ہمارے ہاں بطور ہیروز پیش کئے جاتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے آبائی ملک کے نصاب میں کہیں شامل نہیں ہیں۔ حالانکہ ہمارے برصغیر پاک وہند کی طبقاتی جدوجہد کے صف اول کے ہیرو کاکاجی صنوبرحسین مومند ایسے کئی نصاب میں شامل حضرات کے مقابلے میں اپنے بلند کردار اور وقار کے لحاظ سے کہیں اہم اور قابل احترام ہیں۔

مادری زبان کے حوالے سے پیدا کیا گیا احساس کمتری اتنا عام ہوگیا ہے کہ مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے سرمایہ دار گھرانوں میں مادری زبان کی بجائے حکمران طبقہ کی زبان بولنے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ کوئٹہ اور دیگر شہروں میں پشتون بلوچ کے کئی شاعر، دانشور اور آفیسرز اپنے گھروں میں اردو زبان استعمال کرتے ہیں جبکہ اردو اور پنجابی بولنے والے امیر گھرانے اکثر انگلش بولنے پر فخر محسوس کرتے ہیں جن میں سول اور فوجی آفیسران پیش پیش ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسی سیاسی اور مذہبی پارٹیاں بھی ہیں جنکے اپنے دستور اورمنشور بھی اپنی مادری زبانوں میں دستیاب نہیں ہیں۔

پاکستان کے آئین میں اٹھارہویں ترمیم 2010 کے بعد تعلیم صوبائی مضمون ہو گیا ہے اور صوبوں کو طویل جدوجہد کے بعد یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ اپنے معروض اور اجتماعی ضروریات کے مطابق خود نصاب مرتب کریں لیکن چاروں صوبوں کی نااہلی اور غفلت کے باعث یہ کام مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔ واضح رہے کہ تعلیمی نصاب ترتیب دینا شاعروں اور ادیبوں سے زیادہ سنجیدہ ماہرین، محققین اور پولیٹیکل اور سوشل سائنٹسٹ کا کام ہے۔ پاکستان میں اس کو حل کرنے کی ذمہ داری بھی ریاست اور سیاست پر عائد ہوتی ہے۔

Comments are closed.