بنگلہ دیش کی آزادی

بصیر نوید

بنگلہ دیش کی آزادی کی 50ویں سالگرہ مبارک ہو، گو کہ آزادی کی اس فاتحانہ جدوجہد میں لاکھوں عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں اور 30لاکھ سے زائد افراد شہید ہوئے۔چھوٹے قد اور براؤن رنگ کے بھوکےبنگالیوں نے چھ چھ فٹ کے بلند قامت اور مارشل ریسکے دعویداروں کو مجبور کردیا کہ بھارتی حکومت کے آگے ہتھیار ڈال کر اپنی زندگیوں کی جاں بخشی کی التجا کرنے لگے۔ بنگالی اپنی آزادی کو قائم و دائم رکھنے کیلئے بھرپور جدوجہد کرتے رہے تاکہ مغربی پاکستان اور پاک فوج سے چھینی گئی آزادی چند طالع آزماؤں کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔

وہ دن یاد ہیں جب لٹے پٹے پاکستان میں آزادی اظہار کی قطعاً آزادی نہیں تھی ۔ایک بی بی سی تھا جسے لوگ دھیمی آواز میں گھروں میں سنتے تھے کہ کہیں اگر باہر آواز چلی گئی تو نظریہ پاکستان کے متوالے ان پر حملہ نہ کردیں۔ ہر فرد جنونی بنا ہوا تھا اور آزاد رائے کو سننے کیلئے تیار نہ تھا۔ اگر کسی محاذ پر بھارتی فوجوں کا قبضہ ہوتا تھا تو ایسی خبر سنانے والے لوگوں کے غیض و غضب کا شکار ہو جاتے تھے۔ بلکہ ایسے موقع پر مخالف رائے رکھنے والوں کو انڈیا کا ایجنٹ قرار دے کر حوالہ پولیس کیا جاتا تھا۔

سخت قسم کا بلیک آؤٹ ہوتا تھا لیکن بھارتی طیارے اتنےذلیلتھے کہ انتہائی نچلی پرواز کرتے ہوئے کراچی کے آئل ٹرمینلز پر ایک آدھ بم گراکر انہیں شعلوں کی نظر کردیتے جس کے نتیجے میں پورا کراچی جگمگا رہا ہوتا تھا۔ ہم بلاک اے نارتھ ناظم آباد میں رہتے تھے وہاں کوہ سلیمان کا آخری پہاڑی سلسلہ تھا وہ پورا کیماڑی کے آئل ٹرمینلز سے ابھرتے ہوئے فلک شگاف شعلوں سے جگمگا رہا ہوتا تھا لیکن کسی کو گھر سے باہر نکل کر سگریٹ بھی پینے کی اجازت نہیں تھی، خوف تھا کہ جلتی سگریٹ سے بھارتی طیاروں کو پتہ چل جائے گا کہ یہ کراچی شہر ہے، اس ضمن میں بہت ساروں کو مرغا بھی بنایا گیا تھا۔

ہر سو جہالت اور جنونیت رقصاں تھی،کوئی بھی درست بات سننے کو راضی نہ تھا۔ بھارتی طیارے پورے سندھ پر دن کے اوقات میں بھی نچلی پرواز کرتے گزرتے تھے ایسا لگتا تھا کہ انکے انجن ہماری بے بسی اور فوجیوں کی بزدلی پر زوردار قہقہے لگا رہے ہوں وہ جاتے ہوئے کچھ گولیاں بھی برساتے جاتے تھے۔ انکو چیلنج کرنے والا کوئی نہ تھا۔

چودہ14 دسمبر کو بی بی سی نے خبر دی کہ پاکستان نے شکست قبول کرلی ہے اس دن بی بی سی کو بہت گالیاں پڑی تھیں ہمیں پتہ چلا کہ بی بی سی ہندو ہوگیا ہے۔ جبکہ ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن مشرقی پاکستان کے کئی جنگی محاذوں پر پاکستانیوں کی فتوحات کی خبریں دے رہا تھا۔ 15 دسمبر کے دن پورے ملک میں یہ تجسس رہا کہ خبریں کیا ہیں، ریڈیو پاکستان بہت زور شور سے پاکستانی فتوحات اور ہندو سازشوں کا ذکر کرتا رہا۔ لیکن بی بی سی نے بتایا کہ کل یعنی 16 دسمبر کو ہتھیار ڈالنے پر دستخط ہوں گے۔ جو بھی اس خبر کی اطلاع دیتا اسکی خیر نہیں تھی اسے ہندو یا بھارتی ایجنٹ قرار دیا جاتا۔

اپنی فوجی شکست کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے ہندو سازش قرار دیا گیا اور بنگالیوں کی تاریخ ساز فتح کو سقوط ڈھاکہ کا نام دیکر ہم نےاپنی خفت مٹانے کا جواز تلاش کرلیا۔ لیکن اپنے جسم سے بنگالیوں کے خون کے دھبے ابھی تک نہیں دھو سکے۔ وہ جو قاتل فوجیوں کے مخبر بن کر مکتی باہنی کے کارکنوں اور جمہوریت پسند کارکنوں و دانشوروں کے قتل عام میں شامل تھے سقوط ڈھاکہکے بعد مظلوم بن کر ہم پر وارد ہوگئے اور انکا نشانہ اب سندھ تھا۔ فضائی راستے بند ہونے کے باعث بحری جہاز ایسے مظلوموں سے بھر بھر کر کراچی آنے لگے۔ پھر ان مظلوموں نے وہی سلسلے دوبارہ شروع کردیے اور مقامی آبادی کے خلاف ایک مضبوط مورچہ بنالیا۔ حسب معمول ملٹری کا خود کو دم چھلہ بن کر رہ گئے۔

پاک فوج نے اپنی ذلت آمیز شکست کا بدلہ اپنے ہم وطنوں سے لینے کا عہد لیتے ہوئے پہلے بلوچستان کے عوام سے انتقام لیا اور ایک ملٹری آپریشن شروع کرکے نہتے بلوچوں پر حملہ کردیا مگر 50 سال گذر جانے کے باوجود آج تک بلوچ عوام کو زیر نہ کرسکے۔ اسی طرح سندھ کے عوام کو بھی اپنے انتقام کا نشانہ بنایا اور آج تک کامیاب نہ ہوسکے۔ پہلے انکے وزیر اعظم کو پھانسی دی جس نے فوج کی کاسہ لیس میں 90 ہزار جنگی قیدیوں کو بھارت سے با عزت واپسی کرائی۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں سندھ کے مختلف شہروں میں بمباری کی، اس سے بھی انتقام کی آگ نہ بجھی تو ایسی تنظیمیں اپنی سرپرستی میں قائم کیں جنہوں نے 40 سال تک صوبے کو خون میں نہلائے رکھا۔ لیکن فوجی یہاں بھی کامیاب نہ ہوسکے۔

اب بھی پاک فوج کے انتقام کی آگ بجھ نہ سکی اور گزشتہ بیس سالوں سے سیاسی کارکنوں، قوم پرستوں، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں، دانشوروں، صحافیوں، کو اغواہ کرکے لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جہاں عقوبت خانوں میں انسانیت سوز ٹارچر کرکے اور ماورائے عدالت قتل کرکے اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے جہاں پر سے شکست کی ذلت کا داغ دھلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

Comments are closed.