دانشور ، مزاحمت اور حالیہ واقعات


مہرجان

مزاحمت کا خمیر ہی دانشور میں وہ کردار اجاگر کرتا ہے جہاں پس دیوار دیکھا اور جانا جا سکتا ہے ، دانشور انسانی فکر و آزادی کا پیمبر ہوتا ہے لیکن یہاں پیمبری یا تو تعلقات یا پھر اخباری اشتہارات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، یہاں کھوکھلی لفاظی ، چند سیاسی اصطلاحات کو دانشوری کا زینہ سمجھا جاتا ہے یہاں کا دانشور سماج اور کتاب سے اس طرح کٹا ہوا ہوتا ہے کہ جیسے اٹھارہ گریڈ کا ایک بیوروکریٹ جو اس زعم میں مبتلا ہوتا ہے انکی شخصیت سب سے منفرد و یگانہ ہے جبکہ اپنی آخری ایام میں اسی یگانیت کےبوجھ تلے رخصت ہوجاتا ہے ۔۔۔۔

تاریخ میں گر دوسری طرف دیکھا جائےتو محکوم اقوام کی مزاحمت میں دانشور صف اوّل میں رہ کر محکوم اقوام کی ڈھارس باندھتا ہے اور اپنی قوم کو پہلے سے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرکے اس میں مزاحمت کی رُوح پھونکتا ہے۔ وہ کبھی بھی اپنی دانش کو اپنی روزی روٹی کا مسئلہ نہیں بناتا نہ ہی تعلقات کا اسیر ہوکر لفاظی کا کھیل کھیلتا ہے ، تاریخ میں دانشور کی ہی مزاحمت کسی بھی قوم میں مزاحمت کی راہیں کھول دیتی ہے وہ قوموں کو ہر واقعات پہ “ردعمل دینے اور پھر خاموشی” کی بجائے اک مستقل لائحہ عمل دے دیتا ہے۔ وہ مارکس کے اس قول کا ملغوبہ بن جاتا ہے جہاں وہ نہ صرف حالات کی تشریح کریں بلکہ ان حالات کو بدلنے کے لیے میدان عمل میں بھی مصروف کار رہے وہ فلسفہ سے لے کر تاریخ ، تاریخ سے لے کر ادب ، اور ادب سے لے کر سیاسیات میں مکمل ہم آہنگی پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

تاریخ ایسے کہیں دانشوروں سے بھری پڑی ہے کہ وہ نہ صرف تھیورسٹ ، ڈرامہ نگار ، ناول نگار ، افسانہ نگار ، تاریخ دان رہے ہیں بلکہ بیک وقت عمل میں بھی بر سر پیکار نظر آئے ہیں ، وہ مطالعہ کے اس قدر دل دادہ ہوتے ہیں کہ جب گرامشی کے معالج کو گرامشی پہ رپورٹ لکھنا پڑا تو انہوں نے لکھا “اُس نے اپنے دکھوں کو اپنے مطالعے کے فولادی ارادے سے پِچھاڑ دیا اور اپنی جسمانی استعداد سے زیادہ کاوشیں کیں”۔

دانشور کی سب بڑی خوبی یہ ہوتا ہے وہ جب بھی اپنی بات رکھتا ہے تو وہ کسی چونکہ ، چنانچہ، اگر ، مگر کو خاطر میں نہیں لاتا اور نہ ہی ہوا کی لہر کو دیکھ اپنا رُخ متعین کرتا ہے۔ جب اس تاریخی کرداروں کو مدنظر رکھ کر ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو یہاں دانشوری کا اوڑھے ہوئے لبادہ تو ہر سمت نظر آتا ہے لیکن دانشوری کا قحط بھی دور دور تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔

اس قحط کی سب بڑی وجہ کالونائزیشن ہے پہلی بات تو یہ ہے یہاں نام نہاد دانشور جو اک آدھ نظر آتے ہیں وہ اک آدھ بھی کالونائزر کے لکھاریوں سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ اک آدھ تصاویر لینا یا ان سے دو میٹھی باتیں کرنا ان کے لیے نعمت کبریٰ سے کم نہیں ہوتا ۔

حکیم بلوچ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب اُنہیں اردو دانوں کی طرف سے کچھ اسپیس ملا تویہ بات ان کے لیےبہت ہی مسرت آمیز تھی منیر احمد بادینی کا تو حال ہی کا واقعہ ہے کہ وہ صدارتی ایوارڈ لینے پہ پھولے نہیں سما رہے تھے یہاں یہ بھی ستم ظریفی دیکھنے کو ملی ہے کہ جس دانشور کو قومی مزاحمت کی تاریخ کو مسخ کرنے پہ اور ان کی نوحہ خوانی پہ ان کا اپنا نوحہ پڑھنا چاہیے تھا لیکن انہیں قومی دانشور کے طور پہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔

یہاں دانشور جنہوں نے سرداروں پہ لشکر کشی کا فرض خود اپنے اوپر عائد کیا ، وہ خود ادب و تحقیق کی میدان میں اور نظریات کی آڑ میں ریاستی سرداروں سے زیادہ قوم کو نقصان پہنچا رہے ہیں وہ ایوارڈ اور مراعات نہ ملنے پہ اور اسلام آباد و لاہور میں نام نہاد ترقی پسندانہ محفلوں میں اپنی عدم وجود کو ریاستی چیلنج سمجھتے ہیں۔ یہاں تعلیمی اداروں و اکیڈمیاں میں جہاں فکر و زبان کی ترقی ترویج کو آگے بڑھانا مقصود ہوتا ہے وہاں پروفیسر حضرات اک دوسرے کی کھینچا تانی میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔

قومی مزاحمت میں جہاں دانشور صف اوّل میں ہوتے ، یہاں آخری صف میں بھی ایسا کوئی دانشور نظر نہیں آرہا جسے “قومی دماغ” کہا جا سکے ہر واقعات پہ ردعمل دینا کسی حد تک ٹھیک ہے۔ لیکن یہ کون دیکھ رہا ہے کہ یہ رد عمل کہاں جا کر ہِٹ ہورہی ہے ؟ اور کس قدر ہِٹ ہورہا ہے کیا ہم پوری زندگی اس انتظار میں بیٹھے رہے کہ واقعات کی آڑ میں ردعمل پہ احتجاج کریں جبکہ ہمارا اپنا لائحہ عمل کیا ہے؟

یاد رکھنے کی بات اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ “ہر باغی ردعمل پیش نہیں کرتا اور کسی بھی ایک مخصوص موقع پہ رد عمل دینے والا باغی نہیں ہوتا” ۔ بغاوت اک مسلسل عمل ہے اور اس عمل میں کس قدر “قومی دماغ” کار فرما ہے یہ اصل اور بنیادی سوال ہے ۔بد قسمتی سے یہاں تہتر سالہ تاریخ میں بلوچ قوم میں سینکڑوں شاعر تو پیدا ہوئے لیکن ایک بھی ایسا دانشور پیدا نہیں ہوسکا جس کے بارے میں کہا جا سکے “کہ ان کی مجبوری لکھنا ہے اور قوم کی مجبوری انہیں پڑھنا ہے “۔

Comments are closed.