شادی یا لیگل پراسٹیٹیوشن

سعید اختر ابراہیم

کیاآپ نے اپنی زندگی میں کوئی ایسا شادی شدہ جوڑا (جن کی شادی کو کم از کم آٹھ دس سال کا عرصہ گزر چکا ہو) دیکھا ہے جو ایک دوسرے سے مطمئن ہو اور اپنے ساتھی کیساتھ ابتدائی دور جیسی محبت محسوس کرتا ہو۔ اگر آپ کے مشاہدے  میں ایسی کوئی مثال آئی ہے تو یقین جانئے کہ یہ مثال یا تو کوئی بہت ہی ا ستثنائی قسم کا معاملہ ہے یا پھر اس جوڑے کے بارے میں آپکا مشاہدہ محض سطحی قسم کا ہے جہاں سے آپکو سب کچھ آئیڈیل دکھائی دے رہا ہے۔

مغرب میں مروج استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر تقریباً دنیا بھر میں شادی کے تعلق کو تقدس کا درجہ دیا جاتا ہے گو اس کے لئے ہر دھرم اور ہر مذہب میں مختلف طریقے رائج ہیں۔ شادی کے معنی خوشی کے لئے جاتے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ خوشی عام طور پر کتنے مختصر عرصے پر محیط ہوتی ہے اور پھر ہمارے ہاں ایک اور محاورہ بھی زبانِ زد عام و خاص  ہے کہ یہ ایسا پھل ہے جو جس نے چکھا وہ بھی پچھتایا اور جس نے نہیں چکھا وہ بھی پچھتایا اور یار لوگ ہنس کر کہتے ہیں کہ اگر پچھتانا ہی ہے تو کیوں نہ کھا کر پچھتایا جائے۔

غور کریں تو یہ محاورہ شادی کے تعلق میں چھپے ہوئے جبر اور اذیت کی جانب ایک بلیغ اشارہ ہے۔ اور یہ مذاق ہی مذاق میں اس تقدس کا بھانڈا بھی پھوڑتا ہے جس کا ہمارے ہاں زور شور کیساتھ ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بات بے بات دھرائے جانے والے اخلاقی اسباق محض ایک بلندآہنگ مگر معانی سے تہی جھوٹے پراپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں رہ گئے جو محض ہماری نفسیات میں در آنے والی دراڑوں کو بھرنے کے علاوہ اور کسی کام کے نہیں ہیں۔ ہم عملی طور پرشادی شدہ تعلق کی اسی سطح پر موجود ہیں جسے ہم دل سے گھٹیا ،غلط اورتکلیف دہ  مانتے ہیں، مگر اپنی ذات کے علاوہ کسی اور کے سامنے اس بات کا اعتراف نہیں کرتے۔

یہاں مجھے ممتاز مفتی یاد آتا ہے جس نے علی پور کے ایلی میں خود کو سامنے رکھ کے ہمارے اندر بہت محنت سے چھپا چھپا کر رکھی ہوئی خواہشات کا سرِ کتاب بڑی بے رحمی کیساتھ پوسٹ مارٹم کر کے ساری دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ مفتی کا مقصد نہ تو خود کو تماشہ بنانا تھا اور نہ ہی ان بے باک واقعات کے بیان سے کوئی حظ اٹھانا۔ اس نے تو محض ہمیں یہ بتایا ہے کہ دیکھو ہر آدمی کے اندر ایک ایلی چھپا بیٹھا ہے۔ فرق محض اتنا ہے کہ میں نے اسے دھڑلے سے بیان کر دیا ہے اور تم نے اسے جھوٹی اخلاقیات کی چادرمیں چھپا رکھا ہے اور اس چادر کے پیچھے چھپا وہ سب کچھ کر رہا ہے جسے تم بتاتے ہوئے خوف کھاتے ہو، مبادہ تمہارے جھوٹ کا بھرم کھل جائے۔ اور یوں تم اپنی ذات کو دو حصوں میں بانٹ کر منافقت کا شکار ہو جاتے ہو۔

ہم ہمہ وقت بہت سے رشتوں میں بندھے ہیں جن میں کچھ رشتے ایسے ہیں جن کا انتخاب ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ یعنی ماں باپ، بہن بھائی، چچا ، تائے وغیرہ وغیرہ، مگر دو رشتے ایسے ہیں جن پر ہمیں مکمل اختیار حاصل ہے، یعنی دوست اور جیون ساتھی کا انتخاب۔ ہم میں سے ہر فرد دوست تو اپنی پسند اور مرضی سے چنتا ہے مگر بدقسمتی سے جیون ساتھی چننے کی آزادی کا اختیار عمومی طور پر سماج نے ہم سے چھین لیا ہے یا ہم نے اپنی کسی کمزوری یا مصلحت کی بناء پر یہ اختیار سماج کو سونپ دیا ہے۔ سماج نے انسان کے اس آزادانہ حق کو یا تو مذہب کے نام پر سلب کیا ہے اور یا پھر بزرگوں کی عزت کے نام پر (جسے عموماً مذہب کے نام پر ہی مضبوط کیا جاتا ہے)۔ ایک فیوڈل اور غیر جمہوری سسٹم کا یہ خاصہ ہے کہ اس نظام میں فرد کو خالصتاََ اپنی ذات سے متعلقہ فیصلوں سے بھی دست بردار ہونا پڑتا ہے۔

اگرچہ یہ خواہش ہر فرد میں موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنی زندگی کا ساتھی چنے مگر ہماری مذہبی اور جاگیردارانہ اخلاقیات میں گندھی ہوئی فارمل اور نان فارمل تعلیم اسکے ضمیر کی تربیت اس طور پر کرتی ہے کہ وہ خواہش کے باوجود اپنی پسند کا اظہار کھل کر نہیں کر پاتا اور یوں فیصلے کے وقت گومگو کاشکار ہو جاتا ہے۔ اور اگر وہ جرا ت سے کام لیکر اپنے جیون ساتھی کا خود انتخاب کرنے کا اعلان کردے تو سمجھو گھر کی مملکت میں طوفان آگیا۔ اس مقام پر اسکے بڑے (جو سماج میں قائم حکمرانی ڈھانچے کا ایک یونٹ ہی ہوتے ہیں)، اسکو اس فیصلے سے روکنے کیلئے تحریص سے لیکرسماجی اور مفاداتی دبائو تک ہرطریقہ اختیار کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پرماں باپ جذباتی بلیک میلنگ کا حربہ بھی خوب استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ انہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ انکی اولاد کا آزاد فیصلہ طاقت کی بنیاد پر بنائے گئے نظام کو ڈائنامائٹ کی طرح اڑا کر رکھ دیگا۔سو اگر وہ اپنی آزاد مرضی کے فیصلے سے مشاورت سے محروم ڈکٹیٹرشپ کی بنیادوں پر استوار اس نظام کو چیلنج کردیں تو انہیں سزا کے طور پر خاندان کی طرف سے حاصل ہونے والی تمام مراعات سے محروم کردیا جائے اور دوسرے بچوں کو اپنے قابو میں رکھنے کی خاطر باغی اولاد کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔

 شریکِ حیات کا انتخاب چونکہ محض ایک جذباتی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے کہیں زیادہ ایک دوسرے فرد کیساتھ ذمہ دارانہ تعلقات بنانے اور انہیں کامیابی سے نبھانے کا معاملہ ہوتا ہے، سوہمارے اکثر نوجوان اپنے پسندیدہ فردکے حصول کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود تعلق نبھانے کی ذاتی ذمہ داری سے بچنے کی خاطر والدین کے فیصلوں پر صاد کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے تئیں نا صرف اپنے مادی مفادات کو محفوظ کر لیتے ہیں بلکہ اپنے آزاد فیصلے کی ذمہ داری سے بھی مُکت ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں اگر اتفاقاً ایسی بیوی مل گئی جو ان کے مزاج کی شرائط کو پورا کرتی ہو تو پوبارہ وگرنہ بیوی سے نہ نبھ سکنے کی ساری ذمہ داری باآسانی والدین پر ڈال دی جاتی ہے اور یوں پھرنئے سرے سے ادھورا رہ جانے والے عشق کی تکمیل کا بہانہ ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔

عورت اور مرد ایک دوسرے میں بے پناہ کشش محسوس کرتے ہیں۔ مگر یہی کشش شادی شدہ زندگی میں عمومی طور پر بہت تیزی سے دم توڑنے لگتی ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے بیزاری کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ دونوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے سو ان کے لئے آسان ترین راستہ یہی ہوتا ہے کہ الزام ایک دوسرے پر ڈال دیا جائے۔ مڈل کلاس میں چونکہ منافقانہ شرافت رائج ہوتی ہے سو اس کلاس سے تعلق رکھنے والے مرد اور عورت نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے وابستہ رہتے ہیں اور سماج کے سامنے اپنی اس وابستگی کو محبت پر مبنی ثابت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حالانکہ سننے اور دیکھنے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ بیچارے جھوٹ بول رہے ہیں۔

مڈل کلاس کے یہ شریف لوگ بہت تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے جذبات کے نکاس کا کوئی راستہ بھی تو نہیں ہوتا۔ بیوی کیساتھ محض برا بھلا جسمانی تعلق بچتا ہے اور اس میں بھی عورت کی خواہش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور ویسے بھی ہمارے ہاں عام تاثریہی ہے کہ اس معاملے میں فیصلہ کن اہمیت مرد کی خواہش کو ہی حاصل ہے۔ سو اس تعلق میں عمومی طور پر سارا عمل عورت کی مرضی کے بغیر انجام پاتا ہے ۔ اور مرد سمجھتا ہے کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا بلکہ مذہب اور سوسائٹی کی جانب سے دئیے گئے اختیار کو استعمال کیا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ عورت اگر اس بات پر احتجاج بھی کرے گی تو وہ غلیظ سوچ کی مرتکب ٹھہرائی جائے گی، حالانکہ اگر وہ غور کیا جائے تو یہ معاملہ جبری زنا سے کم نہیں ہے ، ہاں البتہ فرق صرف یہ ہے کہ اس معاملے میںمجرم کوئی غیر نہیں بلکہ اسکا شوہر ہے۔

ایک اور زاویے سے دیکھیں تویہ ایک ایسی پراسٹی چیوشن ہے جسے معروف شرعی اور سماجی ضابطوں کا تحفظ حاصل ہے۔ اگر خالصتاً انسانی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ عمل جبری زنا سے شایدہی کچھ کم ہو مگرعمومی طور پر عورت اپنی مرضی کے خلاف ہونے والے اس عمل کو یا تو شوہر کی طرف سے حاصل ہونے والی مادی مراعات یا آسائشوں کے لالچ کی بنا پر قبول کر لیتی ہے یا پھرمحض اس خوف سے کہ اگر احتجاج کی صورت میں شوہر نے طلاق دیدی تو کہاں جائے گی، کیونکہ ماں باپ نے تو رخصتی کرتے وقت صاف لفظوں میں کہ دیا تھا کہ بیٹی اب شوہر کے گھر سے تمہارا جنازہ ہی نکلنا چاہئے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں طلاق کی صورت میں ہونے والے جملہ نقصانات کا بڑا حصہ عورت کوہی سمیٹنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں مرد اور عورت کیلئے عصمت اور کنوارپن کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے بلکہ یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ مرد کی عصمت کا تصور نہ ہونے کے برابر ہے ،جبکہ اسکی حفاظت کا تمام بوجھ سماجی درندوں کے درمیان پھنسی ہوئی کمزور اور بے بس عورت پر آن پڑتا ہے۔ اس کمزور عورت کی حیثیت حقیقت میں کسی شے سے زیادہ نہیں ہے اور یہ شے جس قدر نازک اور خوبصورت ہو گی اسکی مانگ کا امکان بھی اتنا ہی بڑھ جائے گا۔سو والدین کا یہی وہ خوف ہے جسکی بنا پر بیٹیوں کو(بیٹوں کو نہیں) مذہب اور اخلاقیات کے متروک اور خلافِ وقت ضابطوں کے نام پرگھر کی چاردیواری میں بند کرکے رکھا جاتاہے اور یوں اپنے تئیں انکی عصمت کی حفاظت کا مکمل بندوبست کرلیتے ہیں۔

اب اگر خدانخواستہ اس شے میں کسی وجہ سے کوئی ٹوٹ پھوٹ واقع ہو جائے تو کوئی اسے کوڑی کے مول بھی نہیں خریدے گا اور بالآخر اسکی قیمت صرف اس بازار میں لگے گی اور بہت بہتر لگے گی جسے ہمارا معاشرہ دن رات گالیاں نکالتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ گالیاں دینے والے یہ مرد ہی اس عورت کے جسم کی قیمت چکانے کے سب سے زیادہ شائق ہوتے ہیں۔

اشیاء کیساتھ انسان کا تعلق یکطرفہ اور انسانی مرضی کا محتاج ہوتا ہے اور جواب میں یہ اشیاء انسان سے کسی طرح کا کوئی مطالبہ نہیں کرتیں۔ اگرچہ عورت ایک جیتا جاگتا اور غوروفکر کی اہلیت کا حامل وجود رکھتی ہے مگر مرد کا عمومی تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بھی بے جان اشیاء کی طرح اس سے کوئی مطالبہ یا مکالمہ نہ کرے بلکہ مردوں کی سوسائٹی نے جو سٹینڈرڈ رول ایک عورت کے لئے طے کر دیا ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرے۔ دوسرے لفظوں میں عورت کیلئے ضروری ہے کہ وہ مرد کی حاکمیت کو بغیر سوچے سمجھے قبول کر لے اور اسے اس خدا کا مجاز مان لے جو ہر چیز پر قادر ہے اور جسکی مرضی کے بغیر پتہ تک نہیں ہل سکتا۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ اس طرح کی سدھائی ہوئی عورت سے جب شوہر صاحب جسمانی رشتہ بناتے ہیں تو وہاں محض ایک مفعولی اور جذباتی طور پر سرد عورت سے واسطہ پڑتا ہے۔ جس کے نہ تو جذبات میں کوئی طلاطم ہوتا ہے اور نہ ہی اداؤں میں کوئی رنگینی سو اس کمی کو پورا کرنے کیلئے یا تو چھپ چھپا کر ناجائز تعلقات بنائے جاتے ہیں یا پھر سیدھاطوائف کے کوٹھے کا رخ کیا جاتا ہے جہاں قیمت ادا کرکے ہر طرح کی ادائیں اور بدن خریدے جاسکتے ہیں۔

جس طرح ہر نوجوان مرد کے دل میں اپنی محبوبہ کو بیوی بنانے کی خواہش ہوتی ہے اسی طرح ہر لڑکی اپنے ذہن میں ایک محبوب کا تصور پالتی ہے مگر اس کے لئے محبوب کا حصول مرد کے مقابلے میں بدرجہا مشکل ہوتا ہے۔ گھر والوں کے سامنے اپنی محبت کے اعتراف کے معاملے میں مرد عورت کے مقابلے میں زیادہ آزادی کا حامل ہوتا ہے جبکہ عورت کیلئے اس بات کا اعتراف کسی قابلِ گردن زنی جرم سے کم نہیں ہوتاکیونکہ اسکایہ اعتراف ہماری نام نہاداخلاقی بنیادوں کیلئے کسی بھونچال  سے کم نہیں ہوتا،اور ویسے بھی ہمارے ہاں کی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی اکژیت نا صرف معاشی طور پر ناکارہ اور کمزور ہوتی ہے بلکہ ہمارا معاشرہ اسے محض اپنے اندرشرم و حیا، خوبصورتی اورنزاکت جیسی مفعولی خصوصیات بڑھانے کے کام پر لگا کر مزید بیکار کر دیتا ہے۔ اب ایسی کمزور اور زندگی کے حقیقی تقاضوں سے بے بہرہ عورت بھلا اپنی پسند کے مرد کو شوہر بنانے میں کسی طرح سے کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔ وہ بیچاری تو محض معاشی تحفظ کی خاطر ماں باپ کی طرف سے منتخب کردہ کسی بھی طرح کے شوہر کیلئے ہاں کردے گی بھلے وہ آدمی اس کیلئے کتنا ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو۔

اجنبی جوڑوں کے درمیان طے پانے والی شادی اپنے دامن میں اور بھی بہت سے کریہہ مناظر چھپائے ہوتی ہے۔ شادی کی پہلی رات ہے،  عورت تو خیر خوف کے عالم میں ہے ہی مگر مرد کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ہے، وہ ایک ایسے جرنیل کی نفسیات سے دوچار ہے جسے اپنی محدود طاقت کیساتھ دشمن کے قلعہ پر ناصرف حملہ کرنا ہے بلکہ اس پر ہمیشہ کیلئے برتری بھی حاصل کرنا ہے۔ (گربہ کشتن روز اول کا محاورہ اسی بے ہودہ صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتا ہے) وہ اپنے دوستوں میں گھرا ہے جہاں اسے طاقت میں اضافے کیلئے مختلف ٹوٹکوں کے استعمال کا مشورہ دیا جا رہا ہے، مگر بے چارے کو یقین نہیں آرہا کہ آیا آج کی رات وہ یہ قلعہ فتح کر پائے گا یا نہیں۔ وہ قلعہ فتح کرنے کی غیر انسانی خواہش میں یہ بھول جاتا ہے کہ حجلہء عروسی میں ایک جیتا جاگتا اور سوچنے والا انسان اپنے ہر طرح کے جانے اور انجانے خوف  اور اندیشہ ہائے دور دراز کیساتھ اسکا منتظر ہے۔

اگر دوستوں کے بتائے ہوئے ٹوٹکے کامیاب ہو جاتے ہیں تو مرد مردتو ثابت ہو جاتا ہے مگر ایک حقیقی عورت اور ساتھی سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ صورت کسی طاقتور درندے کے ایک کمزور بکری پر حملہ آور ہونے سے کسی طرح کم نہیں ہے۔مگرکیا کیا جائے کہ بہادر مردنے اس حملے کی اجازت قانون ، مذہب اور ہماری مروجہ اقدار سے حاصل کرلی ہے۔ کیا ہوا اگرایک عورت اس حملے میں پائمال ہوگئی یہ تو اسکا وہ مقدر جسے برداشت کرنے کا سبق اسے بچپن سے دیا جارہا تھا ، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ معاملہ دونوں کی زندگی پر کن عذابوں کے در کھولتا ہے یہ کہانی کسی اگلے شمارے میں سہی۔۔۔

ماہنامہ نیا زمانہ، اکتوبر 2003

Comments are closed.