پشتون قوم کا مستقبل کیا ہے؟

ڈاکٹر محمد زبیر

پاکستانی فوج کی نظر میں ہر وہ پشتون دہشت گرد اور ملک کا غدار ہے جو امن، انصاف، انسانی حقوق، قانون اور آئین کی بالادستی کی بات کرتاہے۔اور ہر وہ پشتون جو پاکستانی فوج کا آلۂ کار بن کر دہشت گردی میں معاونت کرتا ہے وہ معزز اور محبِ وطن شہری ہے!

اور اگر یہ بھی ثابت ہوجائے کہ پشتونوں اور ریاست کے درمیان تعلق کسی قانون، قاعدے، آئین، اصول یا کسی سماجی معاہدے پر نہیں بلکہ محض جبر اور ننگی طاقت پر قائم ہے۔تو پھر پشتونوں کے پاس کیا راستہ بچتا ہے؟؟؟

کچھ دنوں پہلے 150 کے قریب افراد کی تصویریں جاری کی گئیں جو سالوں سے لاپتہ تھے اور جنہیں آئی ایس آئی نے انٹرنمنٹ سینٹروں میں غیر انسانی، غیر اخلاقی، غیر قانونی، غیر آئینی اور بہیمانہ ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد رہا کیا اور انہیں پشاور جیل منتقل کرکے سوشل میڈیا پر انکی تصویریں جاری کیں تاکہ انکے رشتہ دار انہیں رہا کروا کر گھر لے جائیں۔ ان میں کچھ تو بارہ بارہ تیرہ تیرہ سالوں سے لاپتہ تھے۔

سوال یہ ہے کہ

ان مبینہ دہشت گرد قیدیوں کو کس نے، کیونکر، کب اور کس قانون کے تحت غائب کیا؟ انہیں کس قانون کے تحت ذہنی اور جسمانی تشدد کو نشانہ بنایا گیا؟ اگر ان پر دہشت گردی کا الزام تھا تو ملکی عدالتوں میں فرد جرم عائد کرکے ان کے خلاف مقدمے کیوں نہیں قائم کیے گئے؟ اور کس قانون کے تحت انہیں پشاور جیل منتقل کرکے سوشل میڈیا کے ذریعے انکے عزیز و اقارب کو آگاہ کیا گیا؟

اور اگر بلآخر ایسا کیا جانا ہی مقصود تھا تو فوج کی زیرِ دست پختونخواہ کی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے دو سال پہلے صادر کیے گئے اُس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کیوں دائر کی تھی جس کے تحت ان انٹرنمنٹ سینٹروں کو انسانی حقوق اور آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا اور انہیں فوری طور پر بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا؟ ان قیدیوں کو عدالتوں کے سامنے پیش کرکے رہا کیوں نہیں کیا گیا تاکہ انکی بے گناہی اور انکے ساتھ سالوں روا رکھا گیا ظلم ریکارڈ کا حصہ بن سکے اور انہیں تاوان کی ادائیگی ممکن بنائی جاسکے؟

اور جو لوگ آج بھی غائب ہیں وہ کہاں ہیں؟ کیا انہیں انٹرنمنٹ سینٹروں میں جسمانی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا اور انکی لاشیں بھی غائب کردی گئیں؟ یا وہ ان بدقسمت لوگوں میں شامل ہیں جنہیں آئینی ترامیم کے ذریعے قائم کی گئی جھوٹی فوجی عدالتوں کے زریعے پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا اور جنکا نام بدقسمتی سےاخباروں میں نہ آسکا؟

فوجی عقوبت خانوں سے رہا کیے گئے ان قیدیوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر آنے کے بعد مہمند، باجوڑ، سوات اور دیگر علاقوں کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنے غائب شدہ اُن پیاروں کیلیے جو ابھی تک غائب ہیں شدید بارش میں کئی دنوں سے پشاور میں فریاد کررہی ہیں؟ اگر وہ زندہ ہیں تو انہیں بھی رہا کیوں نہیں کیا گیا؟ اگر ان کے خلاف دہشت گردی کے ثبوت ہیں تو انہیں عدالتوں کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا جارہا؟ اور اگر ان کو مار دیا گیا ہے تو لمبر ون کے ٹولے میں اتنی اخلاقی جرات کیوں نہیں کہ ان کی تصاویر بھی چوری چھپے سوشل میڈیا پر جاری کریں تاکہ ان کے خاندانوں کی دردناک امیدوں کی شمع ہمیشہ کیلیے گُل ہوسکے۔ یہ بھی ان پر ایک بڑا احسان ہوگا۔

جانی خیل میں تین بچوں کی ذبح شدہ لاشیں لیے پشتوں پچھلے تین دنوں سے سراپا احتجاج ہیں۔ ان بچوں کو ان “گڈ طالبان” نے بے رحمی سے قتل کیا جنہیں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی سرپرستی میں وزیرستان میں کھلے عام دندناتے کی اجازت ہے، جو کنٹونمنٹ میں رہتے ہیں اور جنہوں نے اپنے آقاؤں کے حکم کی بجاآوری میں ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم کیے رکھا ہے۔

فوج اور آئی ایس آئی کی سرپرستی میں ایک طرف تو وزیرستان میں “گڈ طالبان” کی نئی صف بندی جاری ہیں جن سے وزیرستان کے اندر کرائے کے قاتلوں اور ٹارگٹ کلرز کا کام لیا جارہا ہے اور ڈیورنڈ لائن کی دوسری جانب افغانستان میں قتل و غارت گری کا بازار رکھا جارہا ہے۔

دوسری طرف ریاستی ادارے تمام سابقہ قبائلی علاقوں میں خیلوں کے درمیان زمینی تنازعات کھڑے کرکے اندرونی خانہ جنگی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ ان تنازعات میں ملوث گروہوں کے درمیان بھاری اسلحہ تقسیم کیا جارہا ہے اور وہ بھی دہائیوں پر مشتمل فوجی آپریشنوں کے بعد جسکے نتیجے میں قبائلی پشتونوں سے غلیل اور گھریلو استعمال کے چاقو چھریاں تک چھینی گئیں! ان مخالف گروہوں کے مورچے فوجی چوکیوں کے عین ناک تلے قائم کیے گئے ہیں۔ فاٹا کے ضم کے بعد قبائلی علاقوں میں قائم کی گئی نام نہاد پولیس فوجی حکام کی ایما پر خاموش تماشائی بن کر یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے اور ٹَس سے مس نہیں ہورہی۔ حالانکہ مقامی آبادی اور پی ٹی ایم فوج اور پولیس سے مسلسل مطالبہ کررہی ہیں کہ وہ دخل اندازی کرکے ان تنازعات کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

یہ بات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ تنازعات پاکستانی فوج کے پیداوار ہیں جو یہ چاہتی ہے کہ پشتون آپس میں مشت و گریبان ہوں اور پی ٹی ایم کی شکل میں انکے درمیان پیدا ہونے والی قومی یکجہتی کو ان ہتھکنڈوں کے زریعے توڑا جاسکے۔

قبائلی علاقوں، خصوصاً وزیرستان کے باشندے پچھلے دو سالوں دھرنے پے دھرنے دیکر امریکہ سے تینتیس ارب ڈالر بٹورنے کی غرض سے وزیرستان میں دہشت گردوں کیخلاف ٹوپی ڈرامہ فوجی آپریشنوں کے دوران تباہ کیے گئے گھروں، قصبوں اور مارکیٹوں کے تاوان کی وصولی کا جائز مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے گھروں کی تعمیر کی بجائے پاکستانی فوج وزیرستان سے چلغوزے، لکڑی اور دیگر معدنیات ہتھیانے میں مصروفِ عمل ہے۔

یہ بات بھی اب واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کی فوج دہشت گردی کیخلاف، اور امن کے قیام، اور قانون اور آئین کی حکمرانی کے حق میں مطالبات پر قائم ہونے والی پشتونوں کی قومی سیاسی وحدت کو انڈیا اور اسرائیل سے زیادہ خطرناک سمجھتی ہے۔ پاکستانی فوج اپنی ساری توانائی اس بات پر خرچ کررہی ہے کہ کس طرح پی ٹی ایم کی شکل میں یا کسی بھی اور شکل میں پشتونوں کے درمیان قومی سیاسی یکجہتی کو کچلا جائے۔ اس مقصد کیلیے آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر اور انصاف اور عدل کے اداروں کو ہتھیار بنا کر پی ٹی ایم کو کچلنے پر مصروفِ عمل ہے۔

جو لوگ امن، قانون، آئین اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں اور فوجی سرپرستی میں جاری دہشت گردی کی خلاف اور پشتونوں کی سرزمیں پر امن کے قیام کی بات کرتے ہیں ان پر ہزاروں کی تعداد میں جھوٹے مقدمے بنا کر پابندِ سلاسل کیا جاتا ہے۔ ان پر دہشت گردی اور ملک سے بغاوت کے مقدمے درج ہوتے ہیں۔ وہ ایک مقدمے سے چھوٹتے ہیں تو دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ اب بھی چالیس کے قریب پی ٹی ایم کے ساتھی جیلوں میں بند ہیں۔ جبکہ دوسری طرف احسان اللہ احسان جیسے دہشت گردوں کو اعلی معیارِ زندگی دیکر بلآخر جانے دیا جاتا ہے اور پنجابی طالبان کے رہنما امیر معاویہ کو معافی دیکر کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔

ایک طرف پاکستان کی فوج دسیوں آپریشن کے بعد بھی اگر کسی ایک قابلِ ذکر دہشتگرد کا قتل یا گرفتاری نہ دکھا سکی تو دوسری طرف پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے ارمان لونی، عارف وزیر، خڑ کمر اور وانہ میں دسیوں امن کے متوالوں کو بے دردی سے قتل کرنے سے ایک لمحے کیلیے بھی نہیں ہچکچائی۔

مندرجہ بالا حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کی دہشت گرد فوج کی نظر میں ہر وہ پشتون دہشت گرد اور ملک کا غدار ہے جو امن، انصاف، انسانی حقوق، قانون اور آئین کی بالادستی کا نام لیتا ہے اور ہر وہ پشتون جو پاکستانی فوج کا آلۂ کار بنکر دہشتگردی میں معاونت کرتا ہے وہ معزز اور محبِ وطن شہری ہے!۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پشتونوں اور ریاست کے درمیان تعلق کسی قانون، قاعدے، آئین، اصول یا کسی سماجی معاہدے پر نہیں بلکہ محض جبر اور ننگی طاقت پر قائم ہے۔

اگر ایسا ہے تو پھر پشتونوں کو کیا کرنا چاہیے؟

اس سوال کا جواب دینے میں شاید فرانسیسی مفکر ژیژاں روسو ہماری رہنمائی کرسکے۔ روسو باامرِ مجبوری طاقت/جبر کی اطاعت اور موقع ملنے پر طوقِ غلامی کو توڑ پھینکنے کا اصول بہت خوبصورت، سادہ اور مدلل پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ:۔

جب تک عوام طاقت اور جبر کی اطاعت کرنے پر مجبور ہیں، اور وہ ایسی اطاعت بجالاتے ہیں، تو اچھا ہی کرتے ہیں (کیونکہ بے چاری عوام کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا)۔ لیکن جب بھی انہیں طوقِ غلامی توڑ پھینکنے کا موقع ملتا ھے اور وہ اسی توڑ پھینکتے ہیں تو وہ اس سے بھی ذیادہ اچھا کرتے ہیں۔ کیونکہ محض جبر/ ننگی طاقت (قانونی، اخلاقی، سیاسی یا آئینی بنیاد پر) نہ تو طاقتور کو کوئی حق عطا کرسکتی ہے اور نہ ہی مجبور پر کوئی فرض عائد کرسکتی ہے۔ نتیجتاً محض طاقت و جبر کے ذریعہ عوام سے چھینی گئی آزادی کا بذریعہ طاقت حصول اُسی بنیاد پر جائز ہے جس بنیاد پر اُن کی آذادی اُن سے چھینی گئی تھی‘۔

لہٰذا جب تک پشتون مجبور، بے کس اور لاچار ہیں اور نتیجتاً وہ پنجاب کی فوج اور ریاست کے جبر برداشت کرتے رہیں گے تو ٹھیک ہی کریں گے کیونکہ اس کے سوا انکے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ اس وقت ہورہا ہے۔ لیکن اس بات کا سیاسی ادراک ہونا بھی کسی غنیمت سے کم نہیں کہ فوج/ریاست اور پشتونوں کے درمیان تعلق کی بنیاد محض ننگی طاقت اور جبر پر قائم ہے اور انسانی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایسے تعلق کو کبھی بھی دوام حاصل نہیں ہوتا۔ اس ادراک کو پروان چڑھانے میں اور اسے پشتونوں کی اجتماعی شعور کا حصہ بنانے میں پی ٹی ایم کا کردار قابلِ ستائش ہے۔

پی ٹی ایم کو آئین و قانون کے دائرے میں اپنی جدو جہد جاری رکھنی چاہیے بھلے ہمیں اس بات کا مکمل ادراک ہی کیوں نہ ہو کہ پشتونوں اور ریاستِ پاکستان کے درمیان تعلق کی بنیاد آئین و قانون نہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں پشتونوں کو اپنے گلے میں پڑی طوقِ غلامی کو توڑ پھینکنے اور آزادی حاصل کرنے کے بارے میں سوچنا اور سٹریٹیجائز کرنا ہوگا تاکہ وقت آنے وہ ایسا کرسکیں۔

اس سلسلے میں پشتونوں کی موجودہ قومی سیاسی روایت میں “عدم تشدد” پر مشتمل سیاسی جدو جہد کو جن معانی میں سمجھا جاتا ہے اسکا از سرِ نو تجزیہ کرنا اور اسے سمجھنا بھی بہت ضروری ہو گا۔ عدم تشدد کا فلسفہ اور سیاسی حکمتِ عملی ایک انتہائی غیرتمند فلسفہ/سیاسی حکمتِ عملی ہے۔ عدم تشدد پر مشتمل سیاسی جدوجہد کا مطلب قطعاً تشدد کا فقدان نہیں۔ دنیا میں عدم تشدد کی سیاسی حکمتِ عملی پر قائم کوئی ایسی تحریک نہیں جس میں تشدد نہ ہوا ہو۔ اس پر تفصیلاً بات کسی اور وقت۔

تاہم اتنا کہنا ضروری ہے کہ اے این پی اور باچا خان کے سیاسی پیروکاروں نے ایک تھپڑ کھانے کے بعد عیسائی مذہبی روایت کے مطابق دوسرا گال پیش کرنے اور فوج کی پشتونوں کیخلاف بدمعاشی کو ہمیشہ کیلیے تسلیم کرنے کو عدم تشدد کا نام دے دیا ہے۔ انکا نظریۂ عدم تشدد قبول کرلیا جائے تو دنیا کے وہ تمام سیاسی انقلابات ناجائز ہوں گے جن کے مرہونِ منت کروڑوں انسانوں نے آزادی حاصل کی۔

Comments are closed.