ہمسایہ ممالک سے کیسے تعلقات رکھنے ہیں یہ طے کرناپارلیمنٹ کا کام ہے نہ کہ آرمی چیف کا

جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنوب اور وسطی ایشیا کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے کشمیر تنازعہ کے پرامن حل کو ضروری قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنے کا وقت آ گیا ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعرات کے روز اسلام آباد میں دو روزہ سکیورٹی ڈائیلاگ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر میں امن کا خواب اس وقت تک ادھورا رہے گا، جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا اور اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کو دفن کیا جائے اور آگے بڑھا جائے۔

جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ مستحکم پاک بھارت تعلقات مشرقی اور مغربی ایشیا کو منسلک کرتے ہوئے جنوب اور وسط ایشیا کی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی کنجی ہے لیکن یہ صلاحیت دونوں جوہری صلاحیت کے حامل پڑوسی ممالک کے درمیان یرغمال بنی رہی ہے۔

 ان کا کہنا تھا ، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے کا وقت ہے، بامعنی مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی ذمہ داری اب بھارت پر عائد ہوتی ہے، ہمارے پڑوسی ملک کو خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں سازگار ماحول بنانا ہو گا۔‘‘۔

سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کتنے سنجیدہ ہیں؟ کیا انھوں نے کوئی ایسے اقدامات اٹھائے ہیں کہ جن سے وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے علاوہ دنیا کو بھی مطمئن کیا جا سکے؟

دنیا کو مطمئن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے حکومت پاکستان فیٹف کی شرائط پوری کرے۔ تاکہ ریاست پاکستان پردہشت گردوں کی حمایت کا لگا ٹھپہ ختم ہو سکے۔ ریاست نے جن دہشت گردوں کو اپنا سٹریٹجک اثاثہ قرار دے کر انہیں پناہ دے رکھی ہے، ان کے خلاف کاروائی کرے۔طالبان کے ذریعے نام نہاد دفاعی گہرائی کی پالیسی کو ختم کیا جائے۔ ہمسایہ ممالک کو دہشت گرد برآمد کرنے کی بجائے دو طرفہ تجارتی تعلقات قائم ہوں۔بین الاقوامی دنیا جس کو آپ پیغام دے رہے ہیں وہ پاکستان کی جمہوریت کو ہائی بردڈجمہوریت قرار دیتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ملکی سیاست میں مسلح افواج کی مداخلت بند ہو اور سب سے بڑھ کر دفاعی اخراجات کو کم کیا جائے۔ ہمسایہ ممالک سے کیسے تعلقات رکھنے ہیں یہ طے کرناپارلیمنٹ کا کام ہے نہ کہ آرمی چیف کا ۔

آرمی چیف کی یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ جب بھی جمہوری حکومت آئی ہے اس نے اپنے ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات بنانے کی کوشش ہے جسے ہمیشہ مسلح افواج نے سبوتارژ کیا ہے۔

Comments are closed.