ہاں یہی دن تھے

بصیر نوید

یہی دن تھے مہینہ مارچ کا تھا اور سن 1971 کا سال تھا۔ جب بنگالی عورتوں سے بھری ہوئی جیپیں ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل کی طرف جاتی نظر آتی تھیں ان میں دس سال سے لیکر بڑی عمر تک کی عورتیں ہوتی تھیں، اور جو اسلامی فوج کے من کو نہ بھاتی تھیں وہ ہوٹل کی پارکنگ میں پھینک دی جاتی تھیں پھر وہ فوجی مخبروں کی نذر ہوتی تھیں۔

ہاں ان ہی دنوں میں جب جنرل ٹکا خان نے کہا تھا ڈھاکہ سنسان ہے اور کتے گھومتے نظر آتے ہیں۔ جنرل نیازی نے ڈائریکٹ ایکشن سے قبل کہا تھا کہ یہ کالی رنگت اور چھوٹے قد کے بنگالی میں ان کی نسلیں بدل دوں گا۔ ہاں ان ہی دنوں میں جب میکلو روڈ کے تجارتی مراکز میں دوران تعلیم روزگار کیلئے پارٹ ٹائم کی تلاش میں تھا تو اسوقت فوجیوں سے بھرے ٹرک کیماڑی کی سمت جایا کرتے تھے اور فٹ پاتھوں پر کھڑے لوگوں کے لئے لازم تھا کہ ٹرکوں کو دیکھ کر تالیاں بجائیں اور فوج اور پاکستان کی حمایت میں نعروں کے ساتھ ساتھ انڈیا مردہ باد کے بھی نعرے لگائیں۔ جو ایسا نہیں کرتے انہیں سونٹیاں بھی پڑتی تھی میں نے بھی ایک سونٹی کھائی تھی اور لمبی قمیضیں پہننے والوں کی جھاڑیں بھی کھائیں۔

اسی طرح جو فوجی عام لباسوں میں ٹرکوں میں سوار کھڑے رہتے تھے وہ اپنی شہادت کی انگلی اور کثیر الاستعمال والی انگلی اٹھا کر وکٹری کا نشان دکھاتےایک زبردستی کی مسکراہٹ سجائے حسرت سے راہ گیروں کو دیکھتے تھے۔ لیکن ٹرک کے ٹرک بندرگاہ کی جانب جاتے تھے۔

جی ہاں، یہی وہ دن تھے جب 1970 کے انتخابات میں کامیابیوں پر مختلف سیاسی کارکن جشن منارہے تھے تو اچانک سے دیکھا کہ دیواروں پر کرش انڈیا کے نعرے تحریر ہونے لگے ہیں، خوبصورت سے اسٹیکرز لوگوں میں بانٹے جارہے ہیں جن پر کرش انڈیا تحریر ہوتا تھا اور ہدایت ہوتی تھی کہ ہر گاڑی اور ہر دیوار چسپاں کئے جائیں۔ ان دنوں شہر کے ہر بیت الخلا میں دو ہی قسم کے نعرے ملتے تھے ایک کرش انڈیا اور دوسرا شفاف تحریک کے۔

ابھی یہ نعرے نہیں آئے تھے کیتعجب ہے تجھے نماز کی فرصت نہیںیا نماز پڑھو قبل اسکے کہ تمہاری نماز پڑھی جائےیہ نعرے بعد میں جنرل ضیا کے دور میں آئے لیکن ان تمام جگہوں پر لکھے گئے جہاں کرش انڈیا کے نعرے لکھے جاتے تھے۔ 25 مارچ کو ہی واضح ہوگیا تھا کہ ان نعروں کا مقصد اقتدار کی منتقلی کو روکنا اور انڈیا سے پنگا لینا تھا۔ خیر پھر پاکستان ہی کرش ہوگیا۔

جی ان ہی دنوں میں رضاکاروں اور سویلین عسکری تنظیموں کے نام سے البدر، الانصار، الشمس وغیرہ مسلح گروہوں کو تیار کیا گیا جو بہترین مخبری کا کام کرتے تھے انکے فرائض میں مکتی باہنی کےکارکنوں کے یا نچلی سطح کے رہنما، عوامی لیگ کے کارکنوں کے گھروں کی نشاندہی کرنا اور خاص طور پر عورتوں و لڑکیوں پر نظر رکھنا تھا جنہیں رات کے کسی بھی پہر جیپوں پر ڈال کر محاذ جنگ پر فوجیوں کی آسودگیوں کیلئے بھیجنا مقصود تھا۔ جماعت اسلامی کے کارکن اور رہنما آگے بڑھ بڑھ کر جذبہ حب الوطنی سے سرشارکار اس کار خیر میں حصہ ڈال رہے تھے، تین لاکھ عورتوں کی بھیانک طور پر آبرو ریزی اور قتل کے باوجود اسلامی فوج کی ہوس تھی کہ ختم نہ ہوتی تھی۔

میر پور محمد پور سے مسلح جتھے نکلتے تھے اور عوامی لیگ و مکتی باہنی کی سرکوبی میں اپنا حصہ ادا کرنے کیلئے مصروف عمل رہتے۔ ہوس زن، زر اور زمین میں تیس لاکھ افراد قتل کردئیے پھر بھی دوسروں پر الزام تھا کہ وہ پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ اسی دشمن کے آگے سرکاری طور پر ہتھیار ڈالنے سے صرف دو دن قبل یعنی 14 دسمبر کوسینکڑوں، اساتذہ، ادیبوں، صحافیوں، شاعروں، ڈاکٹروں کو قطاروں میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا کہ بنگالی کیا یاد رکھیں گے کہ کیسے سخی دل فوجی تھے جن کے۔ خون کی پیاس تھی کہ ختم نہیں ہورہی تھی۔

جن ہاں آج ہی کے دنوں میں لیکن سال 72 آچکا تھا وہی میکلوڈ روڈ تھا وہی فٹ پاتھ تھے ٹرک بھی ویسے ہی تھےجہاں اب لٹے پٹےپاکستانی جنہیں وہاں بہاری کہتے تھے بندرگاہ سے کراچی میں داخل ہورہے تھے۔ اب بھی فٹ پاتھوں پر کھڑے لوگ پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد اور انڈیا مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ سابقہ تجربے کے سبب ہم بھی نعرے لگاتے تھے لیکن ان ٹرکوں میں اب فوجی نہیں ہوتے تھے جو وکٹری کے نشان دکھا کر لوگوں کے جنگی جنون کو بلند کرتے تھے کیونکہ اب کے انڈیا ہمارے تمام فوجیوں کو سمیٹ کر اپنے یہاں لے گیا تھا بالکل ان ہی دنوں کے دوران صوبے میں اسکے برعکس بہاری نہ کھپنکے نعرے بھی ہر جگہ ملتے تھے۔

عالمی شہرت یافتہ پریس فوٹو گرافر ظفر کہتے تھے کہ ہیتھرو ائیرپورٹ پر بھی ایک بڑا سا بینر لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے بہاری نہ کھپن۔ کچھ دیر کیلئے لوگ یقین کرلیتے تھے کہ چونکہ ظفر دنیا دنیا گھومتا ہے تو اس نے ضرور ایسا بینر دیکھا ہوگا۔ جی ان ہی دنوں میں ہمارا تعلق ٹریڈ یونین تحریک سے ہوگیا تھا لہذا دوستوں نے فیصلہ کیا کہ مشرقی پاکستان سے آنے والے لوگوں کی آبادکاری اور ان کے روزگار کے مسائل حل کرنا ہم سب کا فرض ہے۔

ٹریڈ یونین کے سبب مختلف کاروباری اداروں اور فیکٹریوں کے لیبر ڈیپارٹمنٹ سے بات کرکے ہم اورنگی ٹاؤن پہنچ گئے غالباً یہ پانچ نمبر اورنگی تھا بالکل بیابان، دور کہیں خیمے بنے تھے،اورنگی میں داخل ہوتے ہی کچھ کچھ پکے سرکاری دفاتر بنے تھے جس میں سرکاری افسران امداد کیلئے موجود تھے۔ ہم دوست سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ کے دفتر چلے گئے جہاں ہم نے کہا کہ ایسے تمام مرد و خواتین کے روزگار کے مسئلوں کو حل کرنے آئے ہیں جو ہنر مند ہیں، یا گھریلو صنعت چلانے کا تجربہ رکھتے ہوں یا جابر کے متلاشی ہوں۔ افسر نے ہمیں اپنی بڑی ساری میز کے شیشے کے نیچے پڑے ہوئے سینکڑوں وزیٹر کارڈ دکھلائے جنکا تعلق مختلف کارخانوں اور تجارتی و سرکاری اداروں سے تھا۔

افسر نے بتایا ان سب اداروں نے چار چار پانچ پانچ افراد کی مختلف جابز کیلئے آسامیاں بھیجی ہیں۔ ہم نے پوچھا پھر، ہمارے سوال کے مکمل ہونے سے قبل ہی اس نے بتایا کہ کوئی بھی جانے کو تیار نہیں۔ ابھی ہم اسی حیرت میں پڑے تھے کہ ان پریشان حال لوگوں کو کس طرح راضی کریں کہ وہ ملازمتوں کے لئے راضی ہو جائیں اچانک سے ایک شور اٹھا، لوگوں کا ہجوم ایک سمت بھاگا جارہا تھا، عورتوں نے گودوں سے بچے وہیں میدان میں رکھ کر گھروں کی طرف جاتے ہوئے مردوں کو آوازیں دے رہی تھیں۔

ہم نے گھبرا کر چھپنے کا راستہ تلاش کرتے ہوئے افسر سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ افسر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کچھ نہیں، ڈھاکہ سے فلائٹ آئی ہے۔ ہم نے پوچھا کیا اور پاکستانی آئے ہیں۔ افسر نے کہا نہیں، پان آئے ہیں اور یہ سب ایرپورٹ جارہے ہیں۔

Comments are closed.